اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو میڈیا سے گفتگو کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ بھی عدلیہ کے فیصلوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے،جن میں کھلی سماعت کی ہدایت دی گئی تھی وگرنہ فیصلہ سازوں کی تو یہ خواہش ہے عمران خان کی تصویر کے ساتھ ساتھ گفتگو بھی سامنے نہ آئے۔ اپنی تازہ گفتگو میں عمران خان نے کہا ہے مجھے بے شک جیل میں رکھیں،مگر باقی رہنماؤں کو تو رہا کر دیں،جنہیں کئی بار ضمانتوں کے باوجود رہائی نہیں مل سکی۔ساتھ ہی انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے9مئی واقعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے،کیونکہ بقول اُن کے9مئی کے واقعات کی اب تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی، صرف الزامات کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی رہیں۔اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اُن کی اِس اپیل پر توجہ دیتے ہیں یا نہیں،اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں تاہم کچھ ایسی چیزیں رونما ہو رہی ہیں،جنہیں ہم غیر معمولی کہہ سکتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پانی کا بہاؤ تیز ہو تو ایک جانب سے باندھا گیا بند دوسری طرف سے ٹوٹ جاتا ہے۔9مئی ہو یا 8 فروری بہت کچھ ایسا ہوا ہے،جس کے آگے بند باندھ کر حقائق کو دبانے کی کوششیں کی گئیں،لیکن اس کے باوجود بہت کچھ سامنے آ گیا اور سوالات اٹھنے لگے۔اب اِس سارے منظر نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان نے چیف جسٹس اسلام آباد کو ایک خط لکھ کر نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔

امریکہ نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی مدد کو ’’ترجیح‘‘ قرار دیدیا

انہوں نے عدلیہ پر مبینہ دباؤ بارے ایک جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔خط میں بہت سے واقعات کا حوالہ دے کر ججوں سے من پسند فیصلے کرانے کی کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے، ہر جج کے بارے میں بتایا گیا ہے انہیں کب اور کہاں سے دباؤ ڈالنے کے لئے ہراساں کیا گیا۔گویا خود عدلیہ کے اندر سے اب نظریں چیف جسٹس پر لگی ہوئی ہیں،جبکہ عمران خان بھی9مئی کے واقعات کی تحقیق کے لئے انہی سے درخواست کر رہے ہیں۔بنیادی طور پر یہ کوئی خوشگوار صورتحال نہیں، نہ ہی اسے ملک کے لئے مفید قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک طرف ہم دہشت گردی کی زد میں ہیں۔پچھلے کچھ دِنوں میں دہشت گردی کے پے در پے سنگین واقعات ہو چکے ہیں۔شانگلہ خود کش حملے میں تو چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا اور پانچ انجینئر ہلاک ہو گئے۔اِس سے پہلے آرمی کے کرنل، کیپٹن اور متعدد جوان دہشت گرد حملوں میں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں گویا ہم ایک لحاظ سے اِس وقت نازک صورتحال سے دوچار ہیں۔وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملک کے اندر ایک استحکام ہو۔ صورت حال کا مکمل یکجہتی سے مقابلہ کیا جائے،مگر حالات انتشار کی طرف جا رہے ہیں۔ اندرونی استحکام غیر معمولی فیصلوں کی وجہ سے ناپید ہوتا جا رہا ہے اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط میں درج مندرجات کو درست مان لیا جائے تو اِس کا مطلب یہ نکلے گا کہ ہم اپنی اصل ذمہ داریوں کو بھول کر لایعنی اور چھوٹے چھوٹے مقاصد میں الجھ چکے ہیں۔

پنجاب پولیس میں بھرتیاں، انٹرویو کا شیڈول تبدیل

ایسے حالات میں سیاستدانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے مارشل لاء کے ادوار میں بھی سیاست دان باہم مل کر کوئی راستہ نکال لیتے تھے۔یہ درست ہے کہ اب نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے سیاستدان موجود نہیں جو بکھری ہوئی سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیتے تھے تاہم اس کے باوجود سیاستدان ناپسند تو نہیں ہوئے،اپنا وجود تو رکھتے ہیں، کیا وہ کسی دوسرے کے ایجنڈے پر اپنی تقسیم برقرار رکھیں گے انہیں ملک کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار میں بڑی کشش ہوتی ہے،مگر اصل سوچنے کا نکتہ یہ ہے کیا حالات کو سدھارے بغیر اقتدار کے مزے لیتے رہنا کوئی دانشمندی ہے؟ وقت تو گزارنا ہے اور گزر جائے گا۔ اصل کام یہ ہے ملک کو مشکلات سے نکالا جائے۔کل ہی نواز شریف نے فیصل آباد میں مسلم لیگ(ن)کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے سب کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گی۔یہ اگر اُن کی خواہش ہے تو اسے عملی جامہ کون پہنائے گا یا یہ صرف ایک بے بس سیاستدان کی خواہش ہی رہے گی اور فیصلہ کرنے والے اس پر عملدرآمد کی اجازت نہیں دیں گے۔ عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں،مگر سوال یہ ہے آگے بڑھنے کے لئے انہیں راستہ کون دے گا۔پوری جماعت کو تتر بتر کر کے بھی اگر مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے تو پھر سیاسی راستہ اختیار کیا جائے، مفاہمت کی کوئی راہ تلاش کی جائے، کم از کم عمران خان کی یہ بات ہی مان لی جائے کہ انہیں بے شک جیل میں رکھیں باقی رہنماؤں اور کارکنوں کو تو رہا کر دیں۔کوئی تو ایسا اشارہ دیں کہ جس سے لگے ہم بند گلی سے نکل آئے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دے دی ہے کھلے دِل کے ساتھ اِس فیصلے کو تسلیم کر کے جلسہ ہونے دیا جائے،بھلے اس میں پورا ملک اُمنڈ آئے۔ اس سے کشیدہ فضاء میں یقینا کمی آئے گی اور سیاست کی کشادگی کا احساس جنم لے گا جو موجودہ حالات میں آکسیجن کی طرح ضروری ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

اِس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ ملک کو عدم استحکام اور معاشی بحران سے نکالنے کے لئے سیاست دان ہی کچھ کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس بات پر بہت سے لوگ ہنسیں گے،بعض لوگ یہ بھی کہیں گے،جن کی وجہ سے ملک اِس حال تک پہنچا ہے انہیں سے دوا لینے کی بات کر رہے ہیں،مگر حقیقت یہ ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی طرح سیاست دانوں کو بھی کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔آپس کے اختلافات بھلا کر ملک کی خاطر ایک تحریک منظم کرنی ہو گی جو اِس ایجنڈے پر مبنی ہو کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ادارے آزاد اور حدود میں رہ کر کام کریں گے۔آئین کی بالادستی کو مقدم اور اُس کی روح کے مطابق مملکت کے امور چلائے جائیں گے۔سیاسی انتقام کی روایت کو ختم کر دیا جائے گا۔عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔اگر صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف اِس ٹاسک کو اپنا لیں اور مفاہمت کا آغاز اڈیالہ جیل سے کریں تو ایک بڑا معجزہ رونما ہو سکتا ہے۔جب سیاستدان حکومتیں گرانے اور بنانے کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پھر ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے کیوں یکجا نہیں ہو سکتے۔سیاستدان جب کسی کی آنکھ سے دیکھنا بند کر دیں گے تو انہیں سامنے کی حقیقتیں نظر آئیں گی۔آج نواز شریف کہتے ہیں ہماری حکومت ختم کر کے قبضلہ کرنے والوں نے ملک کے ساتھ جو کیا سب نے دیکھا،لیکن وہ یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ سلسلہ رُکا تو نہیں،صرف کردار بدل گئے ہیں۔

پاکستان کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کی حمایت

QOSHE -   مشکلات سے کیسے نکلیں؟ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  مشکلات سے کیسے نکلیں؟

16 0
28.03.2024

اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو میڈیا سے گفتگو کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ بھی عدلیہ کے فیصلوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے،جن میں کھلی سماعت کی ہدایت دی گئی تھی وگرنہ فیصلہ سازوں کی تو یہ خواہش ہے عمران خان کی تصویر کے ساتھ ساتھ گفتگو بھی سامنے نہ آئے۔ اپنی تازہ گفتگو میں عمران خان نے کہا ہے مجھے بے شک جیل میں رکھیں،مگر باقی رہنماؤں کو تو رہا کر دیں،جنہیں کئی بار ضمانتوں کے باوجود رہائی نہیں مل سکی۔ساتھ ہی انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے9مئی واقعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے،کیونکہ بقول اُن کے9مئی کے واقعات کی اب تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی، صرف الزامات کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی رہیں۔اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اُن کی اِس اپیل پر توجہ دیتے ہیں یا نہیں،اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں تاہم کچھ ایسی چیزیں رونما ہو رہی ہیں،جنہیں ہم غیر معمولی کہہ سکتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پانی کا بہاؤ تیز ہو تو ایک جانب سے باندھا گیا بند دوسری طرف سے ٹوٹ جاتا ہے۔9مئی ہو یا 8 فروری بہت کچھ ایسا ہوا ہے،جس کے آگے بند باندھ کر حقائق کو دبانے کی کوششیں کی گئیں،لیکن اس کے باوجود بہت کچھ سامنے آ گیا اور سوالات اٹھنے لگے۔اب اِس سارے منظر نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان نے چیف جسٹس اسلام آباد کو ایک خط لکھ کر نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔

امریکہ نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی مدد کو ’’ترجیح‘‘ قرار دیدیا

انہوں نے عدلیہ پر مبینہ دباؤ بارے ایک جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔خط میں بہت سے واقعات کا حوالہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play