لو جی حکومت نے ایک بار پھر بجلی چوری کرانے اور اووربلنگ میں ملوث افسروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے لئے ایف آئی اے پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں۔ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی مکھی پر مکھی مارنے کے محاورے کی بابت جاننا چاہتاہے تو ہماری حکومتوں کے اقدامات دیکھا کرے۔ دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھانے کی روایت بھی ہمارے ہاں زندہ کی جاتی رہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے ہمارے پاس وفاقی محکموں کو کنٹرول کرنے کے لئے ایف آئی اے ہے۔ یہ ایف آئی اے بذات خود ایک ایسا ادارہ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں عرصہ ہوا اس کا یہ وتیرہ ہے کہ کسی میٹر ریڈر یا کسی لائن مین کو پکڑ لیتی ہے بجلی چوری کا کیس بناتی ہے، سنٹرل جج کی عدالت میں چند ماہ کیس چلتا ہے، پھر وہ میٹر ریڈر رہا ہو جاتا ہے، دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر آکر پرانا کھیل شروع کر دیتا ہے بجلی کمپنیوں کے افسر اتنے شاطر ہیں کہ اپنی کرپشن کے نشان ہی نہیں چھوڑتے۔ بجلی چوری خود کراتے ہیں اور پھر اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے اوور بلنگ کرتے ہیں سادہ لوح حکومتوں نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ بجلی بلوں پر میٹر کی ریڈنگ درج کی جائے۔ کاریگر افسروں نے اس کا توڑ یوں نکالا کہ کمپیوٹر کے ذریعے جعلی ریڈنگ درج کرنے کا راستہ نکال لیا۔ سوال یہ ہے ایف آئی اے کے پاس ایسی کون سی مہارت یا تربیت ہے جس کے ذریعے وہ اوور بلنگ کو پکڑ سکتا ہے۔ یہاں تو سارا کام بڑی ہوشیاری اور چالبازی سے کیا جاتا ہے۔ ایک اور کرپشن سرکاری کنکشنز میں اوور بلنگ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں سرکاری محکموں کے افسر بھی ملوث ہوتے ہیں اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے افسر بھی، دونوں طرف سے سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ ایک تو بجلی بہت مہنگی ہو چکی ہے، دوسرا اوور بلنگ کے ذریعے عوام پر دہرا عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ اربوں کھربوں کی بجلی ہر سال چوری ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے افسر بھی اس چوری کی وجہ سے مالا مال ہو چکے ہیں، ان کی کوٹھیاں جائیدادیں دیکھی جائیں تو حیرت ہوتی ہے اس واردات کے نتیجے میں عوام سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہر نیا بجلی کا وزیر آتے ہی چند جوشیلے اور بڑھک مار قسم کے بیانات ضرور دیتا ہے لیکن عملاً نظام اسی طرح چلتا رہتا ہے، اس بار بھی یہ معاملہ صرف دعوؤں تک محدود رہے گا۔ عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا نہ اربوں روپے کی چوری رک سکے گی۔

امریکہ کی پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکی

بجلی کی اووربلنگ کے لئے عقل عیار نے سو راستے بنا رکھے ہیں سب سے عام راستہ یہ ہے کہ ریڈنگ تیس دن کی بجائے 35 دن کی کر دی جائے۔ اس سے عام صارف پس کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ 35 دنوں کی ریڈنگ کے باعث اس کا سلیب اوپر چلا جاتا ہے، ریٹ میں فرق آنے سے اس کا بل ہزاروں روپے بڑھتا ہے اور اس کی مرے کو مارے شہ مدار والی کیفیت ہو جاتی ہے۔ چند ماہ پہلے اس پر ہر طرف ہاہا کار مچی تھی۔ لوگوں نے مظاہرے بھی کئے تھے۔ مجال ہے کسی نے کوئی سنجیدہ نوٹس لیا ہو چونکہ سارا کام اس کمپیوٹر روم میں ہوتا ہے جو ریونیو افسر کے دفاتر میں بنایا گیا ہے، اس لئے میٹر ریڈر کی ریڈنگ کو 35 دنوں سے تیس دنوں میں تبدیل کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہوتا۔ سادہ سی زبان میں اس کرپشن کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ گرڈ سے اگر سو روپے کی بجلی سپلائی ہوتی ہے تو اس کی بلنگ سو روپے کی ہی ہونی چاہئے۔ مگر چونکہ لائن لاسز میں تقریباً پچیس روپے کی بجلی چوری ہو جاتی ہے، اس لئے اس پچیس روپے کو پورا کرنے کے لئے اووربلنگ کرنی پڑتی ہے تاکہ ریکارڈ میں لائن لاسز کم سے کم شو کئے جا سکیں۔ اس طرح صارفین نہ صرف مہنگی بجلی کا بوجھ اٹھاتے ہیں بلکہ اس بجلی چوری کا عذاب بھی انہی پر نازل ہوتا ہے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کا نظام کچھ ایسا کرپٹ اور جابرانہ ہے کہ بل درست کرانے کے لئے اتنے دھکے کھانے پڑتے ہیں عقل ٹھکانے آ جاتی ہے پیچھے سے یہ دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ تاریخ مقررہ پر بل نہ بھرا تو بجلی منقطع ہو جائے گی۔

چینی کمپنیوں نے تربیلہ غازی توسیعی منصوبے پر کام غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا

مجھے کل ایک دوست نے فون کیا ان کی باتیں سن کر مجھے لگا کہ وہ اس وقت ملک کے 90 فیصد عوام کی بات کر رہے ہیں انہوں نے کہا ایک زمانہ تھا بجلی اور گیس کے بل آتے تھے تو ان کو بے فکری سے کسی کونے میں پھینک دیا جاتا تھا کہ معمولی بل ہیں وقت مقررہ پر ادا کر دیں گے۔ اب یہ حال ہے کہ پہلی تاریخ آتی ہے تو لوگ بلوں کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کچھ آن لائن اپنے بل معلوم کرتے ہیں اور سب سے پہلے اپنی ماہانہ آمدن میں سے ان کا خرچہ علیحدہ کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر بچوں کی فیسوں اور کرائے کے گھر کی ادائیگی کا معاملہ آتا ہے۔ سب سے آخر میں روٹی دال کے لئے پیسے رکھنے کی نوبت آتی ہے اس لئے اکثر گھروں میں اب سامان تعیش یعنی پھل اور بیکری آئٹمز بھی نہیں جاتے بس روکھی سوکھی کھا کے گزارا کرتے ہیں ایسے ملک میں جہاں بجلی اور گیس کی قیمتیں عوام کی آمدنی کو اژدھا بن کر نگلتی ہوں، وہاں اگر کرپشن کے ذریعے ان پر جعلی بلنگ کر کے اربوں روپے کا مزید بوجھ ڈال دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے سوئی ناردرن نے ایک سال میں تیسری بار گیس کی قیمتوں میں 155 فیصد اضافہ مانگ لیا ہے۔ کوئی عقل کا مارا یہ سوچنے کو تیار نہیں عوام اتنا بوجھ برداشت بھی کر پائیں گے؟ ہر طرف قیمتیں بڑھاؤ کی دوڑ لگی ہوئی ہے عوام کی آمدنی بڑھانے کا منصوبہ کسی کے پاس نہیں ایسے میں اگر حکومت نے یہ سوچا ہے کہ عوام کو اووربلنگ سے نجات دلا کر کم از کم اس مد میں تو ریلیف فراہم کی جائے، تو یہ ایک اچھا اقدام ہے مگر سوال یہ ہے کیا ایف آئی اے افسروں پر مشتمل ٹیمیں بنا کر یہ ٹاسک پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے تو تکنیکی مہارت کی اشد ضرورت ہے ضرورت اس امر کی ہے پہلے ان ٹیموں میں شامل افسروں کو اس شعبے کی تربیت دی جائے تاکہ وہ برسہا برس سے جاری اس مکروہ دھندے کو پکڑنے اور روکنے میں کامیاب ہوں۔ پھر ایف آئی اے کے افسروں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل بنایا گیا ہے؟ حکومت اس ضمن میں ٹول فری نمبر بھی دے سکتی ہے، جس پر صارفین اووربلنگ کی شکایات درج کرا سکیں اور ان پر فوری ایکشن بھی لیا جائے۔ شاید اس طرح وہ بات بن جائے جو فی الوقت بہت بگڑ چکی ہے۔

سعودی ماڈل رومی القحطانی مس یونیورس کی دوڑ میں شامل

QOSHE -   سیانے افسر کملے عوام - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  سیانے افسر کملے عوام

14 0
27.03.2024

لو جی حکومت نے ایک بار پھر بجلی چوری کرانے اور اووربلنگ میں ملوث افسروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے لئے ایف آئی اے پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں۔ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی مکھی پر مکھی مارنے کے محاورے کی بابت جاننا چاہتاہے تو ہماری حکومتوں کے اقدامات دیکھا کرے۔ دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھانے کی روایت بھی ہمارے ہاں زندہ کی جاتی رہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے ہمارے پاس وفاقی محکموں کو کنٹرول کرنے کے لئے ایف آئی اے ہے۔ یہ ایف آئی اے بذات خود ایک ایسا ادارہ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں عرصہ ہوا اس کا یہ وتیرہ ہے کہ کسی میٹر ریڈر یا کسی لائن مین کو پکڑ لیتی ہے بجلی چوری کا کیس بناتی ہے، سنٹرل جج کی عدالت میں چند ماہ کیس چلتا ہے، پھر وہ میٹر ریڈر رہا ہو جاتا ہے، دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر آکر پرانا کھیل شروع کر دیتا ہے بجلی کمپنیوں کے افسر اتنے شاطر ہیں کہ اپنی کرپشن کے نشان ہی نہیں چھوڑتے۔ بجلی چوری خود کراتے ہیں اور پھر اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے اوور بلنگ کرتے ہیں سادہ لوح حکومتوں نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ بجلی بلوں پر میٹر کی ریڈنگ درج کی جائے۔ کاریگر افسروں نے اس کا توڑ یوں نکالا کہ کمپیوٹر کے ذریعے جعلی ریڈنگ درج کرنے کا راستہ نکال لیا۔ سوال یہ ہے ایف آئی اے کے پاس ایسی کون سی مہارت یا تربیت ہے جس کے ذریعے وہ اوور بلنگ کو پکڑ سکتا ہے۔ یہاں تو سارا کام بڑی ہوشیاری اور چالبازی سے کیا جاتا ہے۔ ایک اور کرپشن سرکاری کنکشنز میں اوور بلنگ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں سرکاری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play