کچے کے ڈاکو ختم ہوں گے اور نہ دھاتی ڈور بنانے والے قاتل،حکمران اور پولیس بڑھکیں مارتے رہیں گے، نتیجہ کچھ نہ نکلے گا۔ اربوں روپے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن پر خرچ ہو چکے ہیں،مگر انہوں نے آج بھی ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔چلیں اُن کے پاس تو اسلحہ بھی ہے اور پناہ گاہیں بھی۔ یہ دھاتی ڈور بنانے والے قاتل تو شہروں میں موجود ہیں،اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے حسب ِ روایت ایک سخت بیان جاری کر دیا ہے کہ پتنگ بازی کی ہر گز اجازت نہیں،اسے بیچنے اور اڑانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔یہ بیان اُنہیں فیصل آباد کے22سالہ نوجوان آصف اشفاق کی المناک موت پر جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی،ایسے واقعات تو ماضی میں بھی کئی ہو چکے ہیں،گلے پر ڈور پھرنے سے جاں بحق ہونے والوں کی فہرست تو بہت طویل ہے۔سوال یہ ہے آخر اندر خانے مسئلہ کیا ہے یہ کس قسم کا مُک مکا ہے جو پولیس اور انتظامیہ کو پتنگیں بنانے والوں کی دکانیں نظر آتی ہیں اور نہ دھاتی ڈور بنانے والے دکھائی دیتے ہیں،جبکہ پتنگیں اڑانے والوں کو یہ بآسانی دستیاب بھی ہو جاتی ہیں اور وہ بلاخوف پتنگیں اڑاتے بھی ہیں،جس کے بعد کوئی ایسا سانحہ ہو جاتا ہے جو فیصل آباد کے ڈجکوٹ روڈ پر پیش آیا، پہلے ایسے واقعات کے بارے میں لوگ صرف سنتے تھے،مگر اِس مرتبہ اس اندوہناک قتل کی ویڈیو سامنے آ گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار ایک نوجوان اچانک گرتا ہے اور پھر اُس کے گلے سے خون کا فوارہ بہہ نکلتا ہے۔ایسے جیسے کسی نے اُسے تیز دھار آلے سے ذبح کیا ہو۔ دھاتی ڈور کس قدر گھناؤنا وار کرتی ہے اِس واقعہ کی وڈیو دیکھ کر اندازہ ہوا،نوجوان پلک جھپکتے ہی لہو کے سرخ رنگ میں نہا جاتا ہے اور زمین پر گر پڑتا ہے،کسی کے پاس ایسی کوئی تدبیر نہیں ہوتی کہ گلے سے بہتے ہوئے خون کے فوارے کو روک سکے۔چند لمحوں بعد وہ تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے تو ایک گھر کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔آصف اشفاق گھر سے افطاری کا سامان لینے نکلا تھا،اُس کی ماں نے اُسے سامان کی ایک فہرست پکڑائی تھی،اُسے کیا معلوم تھا وہ اپنے بیٹے کو ایک ایسے سفر پر بھیج رہی ہے،جس سے کوئی واپس نہیں آتا۔آصف اشفاق کے بارے میں بتایا گیا ہے اُس کی عید کے بعد شادی تھی۔یہ خونِ خاک نشینا ں تھا رزق خاک ہوا، یہ ایسا قتل ہے، جس کے قاتل بھی نہیں ملیں گے، مقدمہ بھی302 کے تحت درج نہیں ہو گا، حالانکہ اِس پر دہشت گردی کی دفعہ لگنی چاہئے کہ اس سے پورے معاشرے میں خوف و دہشت کی فضاء پھیل گئی ہے۔

محمدعامر کب قومی ٹیم کو دستیاب ہوں گے؟ جانیے

سوال یہ ہے پنجاب پولیس نے9مئی کے بعد جو پھرتیاں دکھائی ہیں وہ ان پتنگ بنانے والوں کے خلاف کیوں نہیں دکھا رہی۔یہ نااہلی ہے یا غفلت، اس میں کرپشن کا عمل دخل ہے یا کچھ اور۔کہا جاتا ہے جہاں پتنگ بازی ہو وہاں کے ایس ایچ او کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔میں کہتا ہوں ایس ایچ او کیوں، آئی جی پر اس کی ذمہ داری عائد ہونی چاہئے،اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اگر اس سامنے نظر آنے والے جرم پر بھی پولیس قابو نہیں پا سکتی اور آئے روز لاشے گرتی ہیں تو پھر اُس کے سارے دعوؤں اور اعداد و شمار کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔

نائیجیریا میں 130 سے زائد مغوی بچوں کو بازیاب کرالیاگیا

وزیراعلیٰ مریم نواز نے پابندی کے باوجود پتنگ بازی پر برہمی کا اظہار کیا ہے، کیا صرف برہمی کا اظہار کافی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اُنہیں آصف اشفاق کے گھر جانا چاہئے تھا، اِس سے یہ پیغام ملتا کہ وہ اس معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے اُنہیں اس کی فوری ذمہ داری فکس کرتے ہوئے کم از کم فیصل آباد کے سی پی او کو عہدے سے ہٹا دینا چاہئے تاکہ ایک واضح پیغام جائے کہ آئندہ ایسے واقعات کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ابھی چند روز پہلے پنجاب اسمبلی میں ملتان سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ندیم قریشی نے اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اِس نکتے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ پولیس گلی محلوں میں پتنگیں اڑانے والے بچوں اور نوجوانوں کو گرفتار کر رہی ہے، لیکن جہاں یہ فروخت ہو رہی ہیں، ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی، جب تک آپ اس ذریعے کو بند نہیں کریں گے جہاں سے سپلائی ہو رہی ہے۔اس وقت تک پوری طرح قلع قمع کیسے ممکن ہے۔ جب بچوں کو معلوم ہے کہ پتنگیں اور ڈور کہاں سے ملتی ہے، تو پھر علاقے کے ایس ایچ او کی آنکھیں کیا بند ہیں کہ اس کے علم میں نہ ہو۔ یہ صریحاً غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت ہے، جس نے کئی گھروں کے چراغ گل کر دیئے ہیں، ہر تھانے کی حدود میں منشیات کے اڈے بھی ہیں اور اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں منشیات تو کسی پُڑی کی شکل میں جیب کے ندر رکھی جا سکتی ہیں، پتنگ تو ایک سامنے کی چیز ہے پھر اس کا سد ِباب کیوں نہیں ہو سکتا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

کیا یہ المیہ نہیں کہ آج تک کسی کو دھاتی ڈور بنانے پر سزا نہیں ہو سکی، حالانکہ اب یہ آلہ قتل بن چکی ہے ہمارے ایک دوست بیرسٹر وسیم قریشی نے بتایا اِس حوالے سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ قانون میں سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں پتنگ بازی کو باقاعدہ ممنوع قرار دے کر قانون سازی کی جائے۔ پتنگ اڑانے والے سے زیادہ پتنگیں اور ڈور بنانے والوں کے لئے زیادہ سخت سزائیں رکھی جائیں۔ اسے ناقابل ِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔ سڑکوں پر قتل عام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خاص طور پر موٹر سائیکل پر چلنے والے بالکل غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں کسی وقت بھی کوئی دھاتی تار ان کا گلا کاٹ سکتی ہے۔ والدین کی بھی ذمہ داری ہے وہ اپنے بچوں کو اس شوق سے روکیں جو اب خونی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پہلے بھی نوجوان اور بچے پتنگیں لوٹتے ہوئے کسی گاڑی کے نیچے آ کر یا چھت سے گر کر خود کو نقصان پہنچاتے تھے، مگر جب سے اس میں دھاتی ڈور کا استعمال شروع ہوا ہے یہ کھیل سفاک قاتل کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کا سختی کے ساتھ قلع قمع ضروری ہے۔ فیصل آباد کے اس سانحے کو اگر سٹیٹ کیس بنا لیا جائے اور پنجاب حکومت نیز پنجاب کے عوام یہ تہیہ کرلیں کہ آئندہ اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں رونما ہونے دیں گے، جو کسی ماں کی گود اجاڑ دے اور کسی نوجوان کی بھری زندگی چھین لے، تو پھر یہ اُمید کی جا سکتی ہے، ہم ایسے خون میں لت پت مناظر مستقبل میں نہ دیکھیں۔

سوئی ناردرن کی سال میں تیسری بار گیس کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست،سماعت آج ہوگی

جو مر گیا ہے سرِ شام خونی ڈوری سے

فقیہ شہر وہ تیرے جگر کا لخت نہیں

QOSHE -  دھاتی ڈور والے قاتل - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 دھاتی ڈور والے قاتل

15 0
25.03.2024

کچے کے ڈاکو ختم ہوں گے اور نہ دھاتی ڈور بنانے والے قاتل،حکمران اور پولیس بڑھکیں مارتے رہیں گے، نتیجہ کچھ نہ نکلے گا۔ اربوں روپے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن پر خرچ ہو چکے ہیں،مگر انہوں نے آج بھی ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔چلیں اُن کے پاس تو اسلحہ بھی ہے اور پناہ گاہیں بھی۔ یہ دھاتی ڈور بنانے والے قاتل تو شہروں میں موجود ہیں،اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے حسب ِ روایت ایک سخت بیان جاری کر دیا ہے کہ پتنگ بازی کی ہر گز اجازت نہیں،اسے بیچنے اور اڑانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔یہ بیان اُنہیں فیصل آباد کے22سالہ نوجوان آصف اشفاق کی المناک موت پر جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی،ایسے واقعات تو ماضی میں بھی کئی ہو چکے ہیں،گلے پر ڈور پھرنے سے جاں بحق ہونے والوں کی فہرست تو بہت طویل ہے۔سوال یہ ہے آخر اندر خانے مسئلہ کیا ہے یہ کس قسم کا مُک مکا ہے جو پولیس اور انتظامیہ کو پتنگیں بنانے والوں کی دکانیں نظر آتی ہیں اور نہ دھاتی ڈور بنانے والے دکھائی دیتے ہیں،جبکہ پتنگیں اڑانے والوں کو یہ بآسانی دستیاب بھی ہو جاتی ہیں اور وہ بلاخوف پتنگیں اڑاتے بھی ہیں،جس کے بعد کوئی ایسا سانحہ ہو جاتا ہے جو فیصل آباد کے ڈجکوٹ روڈ پر پیش آیا، پہلے ایسے واقعات کے بارے میں لوگ صرف سنتے تھے،مگر اِس مرتبہ اس اندوہناک قتل کی ویڈیو سامنے آ گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار ایک نوجوان اچانک گرتا ہے اور پھر اُس کے گلے سے خون کا فوارہ بہہ نکلتا ہے۔ایسے جیسے کسی نے اُسے تیز دھار آلے سے ذبح کیا ہو۔ دھاتی ڈور کس قدر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play