جب تک ہم ترقی کو اپنا ایجنڈا نہیں بناتے،دنیا کی برادری میں اپنی عزت نہیں کرا پائیں گے،یہ اتنا بڑا سچ ہے جسے تسلیم کئے بناء چارہ نہیں، افسوس اس ایجنڈے پر بات تو بہت ہوئی ہے،مگر ہر بار ہم ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہاں نئے اور پرانا پاکستان کی اصطلاحیں بھی ہم نے دیکھ لی ہیں اب راج کرے گی خلق ِ خدا کے نعرے بھی بہت سنتے ہیں، پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے، کے دعوے بھی بہت ہوئے ہیں،مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی صورت ہی نکلا ہے۔ترقی کا سفر اوپر کی طرف لے جاتا ہے اور تنزلی کا سفر نیچے کی طرف، ہر نئے دور میں عوام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پرانا دور ہی اچھا تھا، دو وقت کی روٹی تو آسانی سے مل جاتی تھی،دنیا کے بیشتر ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ہم آج بھی آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ ہماری ترقی کی رفتار کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا۔اس کی شرائط اتنی کڑی ہوتی ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہم اپنے غریب عوام کو زندہ رہنے کی سہولت دینے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ہر دور میں یہ خواہش بھی اقتدار میں آنے والوں نے ضرور ظاہر کی کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا، مگر اس خواہش پر عملدرآمد اس لئے نہیں ہو ا کہ اس کے لئے جو کھلا دِل چاہئے وہ حکومت اور اپوزیشن کے پاس ہوتا ہی نہیں۔کیا بڑی بات تھی کہ قومی ہم آہنگی کے لئے سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا جاتا،اگر واقعی ملک میں ہم آہنگی اور استحکام لانا ہے تو پھر ان وجوہات کو تو ختم کرنا ہو گا، جو انہیں ختم کرنے کا باعث بنی ہوئی ہیں۔یہاں ہزاروں خواہشیں ایسی کی جاتی ہیں کہ جن پر دم نکلتا ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ترقی کا ایجنڈا ایک وسیع البنیاد اصطلاح ہے یہ بہت کچھ مانگتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا آپ یکطرفہ اقدامات کے ذریعے فیصلے کرتے رہیں اور قومی ہم آہنگی بھی پیدا ہو جائے،سب سے اہم بات یہ ہے پارلیمینٹ اپنے وجود کو منوائے۔ سب فیصلے پارلیمینٹ کے اندر ہوں اور آزادانہ ہوں تو ہم اس بند گلی سے نکل سکتے ہیں،جس میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

آٹھ فروری کے بعد معاملات جیسے تیسے چل پڑے ہیں،چاروں صوبائی اور وفاقی حکومتیں کام کر رہی ہیں، اگر اِس وقت بھی ملک میں ٹھہراؤ لانے کی کوشش نہیں کی جاتی تو بڑی بدقسمتی ہو گی۔صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے سیاسی کشیدگی کو کم کیا جائے۔یہ خود حکومت کے لئے بہتر ہے،کیونکہ کشیدگی کی فضاء میں کوئی حکومت موثر طور پر کام نہیں کر سکتی۔اِس وقت بھی عالم یہ ہے قومی اسمبلی کے اندر ہر اجلاس کے موقع پر ایک جنگ کا سماں ہوتا ہے۔ ذرا ذرا سب بات پر لڑنے مرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔اس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ایک بڑی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگا کر یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے،حالات نارمل ہو جائیں گے۔تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیئے ہیں اب اُن میں مین میخ نکالے بغیر اگر دیگر جماعتوں کی طرح تسلیم کر لیا جائے اور اسمبلیوں میں تحریک انصاف کا تشخص بحال ہو جائے تو بڑی حد تک کشیدہ فضاء میں کمی آئے گی۔جب بڑے فیصلے کرنے ہیں تو پھر اُن میں دیر کیسی۔آگے بڑھنے کے لئے بہت کچھ پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے،ماضی میں الجھے رہنے سے مستقبل کے آثار بھی معدوم ہو جاتے ہیں اگر اِس سسٹم نے پانچ سال چلنا ہے تو پھر اس منجدھار سے نکلنا ہو گا،جس میں قومی پھنسی ہوئی ہے۔یہ درست ہے کہ سب کچھ مرضی ومنشاء کے مطابق ہو گیا ہے،لیکن کیا اِس سے عوام مطمئن ہیں،کیا قوم کی مکمل سپورٹ اس نظام کے پیچھے موجود ہے۔پانچ سال بڑا لمبا عرصہ ہوتا ہے یہاں تو وہ حکومتیں بھی دو تین برسوں بعد ہانپتی رہی ہیں جو واضح مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئیں،جبکہ اِس بار تو مخلوط مینڈیٹ ہے اور وہ بھی بے اعتباری کی زد میں ہے۔

کراچی:سولجر بازار میں ریٹائرڈ پولیس اہلکار کے جھلسنے کی حقیقت سامنےآگئی

ترقی کو معاشی ایجنڈا صرف اُسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے،جب معاشی ایجنڈا بنا لیا جائے۔کتنی ہی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں،آج تک کوئی ایسا مضبوط معاشی ایجنڈا سامنے نہیں آ رہا، جو ہمیں مشکلات سے نکال سکے، ہم ملک میں بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد تو پیدا کر رہے ہیں،انہیں روزگار دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی سکیم نہیں،اربوں روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور امداد پیکیجز کے لئے رکھتے ہیں اس سے غربت ختم ہو سکتی ہے اور نہ بیروز گاری۔حیرت ہے آئی ایم ایف بھی اس بات پر زور دیتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے رقم بڑھائی جائے،حالانکہ دنیا میں یہ ماڈل ناکام ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش نے ایسے امدادی پیکیج دینے کی بجائے گھریلو صنعتوں کے فروغ اور چھوٹے کاروبار کے لئے قرضہ دینے کی سکیم شروع کی، آج اس کی بدولت بنگلہ دیش کی خواتین برآمدات کے لئے اتنا مال بنا رہی ہیں کہ بنگلہ دیش مشکلات سے نکل کر مضبوط معیشت کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔ پاکستان میں ایسے کام کیوں نہیں کئے جا سکتے۔ حکومتیں اس سہل پسندی اور سستی مقبولیت کے خبط میں کیوں مبتلا ہو چکی ہیں کہ ہر ماہ ایک ہزار روپیہ دے کر لوگوں کو خوش کیا جائے،حالانکہ جو مجموعی مہنگائی ہوتی ہے اس کی وجہ سے عام آدمی ویسے ہی پس کر رہ جاتا ہے۔ ملک میں ترقی کا ایجنڈا بنانے کے لئے جہاں سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے،وہاں غیرروایتی فیصلوں کے ذریعے اُس دائرے کو توڑا جا سکتا ہے جو ہمارے لئے تار عنکبوت بنا ہوا ہے۔کوئی ہے جو اس طرف توجہ دے۔

محکمہ خوراک نے پنجاب حکومت کو گندم کی سرکاری قیمت تجویز کردی

QOSHE - ترقی کا ایجنڈا بنائیں، مگر کیسے؟  - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ترقی کا ایجنڈا بنائیں، مگر کیسے؟ 

7 0
24.03.2024

جب تک ہم ترقی کو اپنا ایجنڈا نہیں بناتے،دنیا کی برادری میں اپنی عزت نہیں کرا پائیں گے،یہ اتنا بڑا سچ ہے جسے تسلیم کئے بناء چارہ نہیں، افسوس اس ایجنڈے پر بات تو بہت ہوئی ہے،مگر ہر بار ہم ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہاں نئے اور پرانا پاکستان کی اصطلاحیں بھی ہم نے دیکھ لی ہیں اب راج کرے گی خلق ِ خدا کے نعرے بھی بہت سنتے ہیں، پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے، کے دعوے بھی بہت ہوئے ہیں،مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی صورت ہی نکلا ہے۔ترقی کا سفر اوپر کی طرف لے جاتا ہے اور تنزلی کا سفر نیچے کی طرف، ہر نئے دور میں عوام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پرانا دور ہی اچھا تھا، دو وقت کی روٹی تو آسانی سے مل جاتی تھی،دنیا کے بیشتر ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ہم آج بھی آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ ہماری ترقی کی رفتار کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا۔اس کی شرائط اتنی کڑی ہوتی ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہم اپنے غریب عوام کو زندہ رہنے کی سہولت دینے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ہر دور میں یہ خواہش بھی اقتدار میں آنے والوں نے ضرور ظاہر کی کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا، مگر اس خواہش پر عملدرآمد اس لئے نہیں ہو ا کہ اس کے لئے جو کھلا دِل چاہئے وہ حکومت اور اپوزیشن کے پاس ہوتا ہی نہیں۔کیا بڑی بات تھی کہ قومی ہم آہنگی کے لئے سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play