شبِ برات خاموشی سے گزر جانے پر خیال آیا تھا کہ اِس تہوار کے تمدنی حوالوں میں اب شاید پہلی سی گرمجوشی نہیں رہی۔ ہمارے بچپن میں ’شبرات‘ پاکستانی مسلمانوں کے سواد ِ اعظم کے لئے حلوہ خوری اور پٹاخے چلانے کا تہوار تھا۔ ابتداء چچڑوں سے ہوتی اور انتہا شُرلی،مہتابی اور انار پر۔ پھر آتش بازی نے جن ہولناک حادثوں کو جنم دیا، اُن کے بعد آگ کے اِس کھیل سے گریز ہی بہتر سمجھا گیا۔ ہاں، حلوے سے اجتناب کے رویے میں اُن علمائے کرام کی سخت گیری کو بھی دخل ہو گا جنہیں عوام الناس کی ہر روحانی تفریح کے پیچھے کوئی نہ کوئی ’سازش ِ عجم‘ ضرور دکھائی دیتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں بھی ذکر ہوا، ماہِ رمضان کی افطاریاں اِس اصول سے مبرا ہیں اور اُن کی برکتوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

سچ پوچھیں تو قومی شناخت کے جو پیرائے آزاد پاکستان میں ہمارے لئے بتدریج نمایاں طور پر اہم ہو گئے اُن میں رمضان المبارک میں فکر و ذکر کے اجتماعات اور شبینہ کی محافل بلا شبہ شامل ہیں۔ ساتھ ہی افطار پارٹیاں، پھر عید شاپنگ، چاند رات، عید ملن اور خوشدلی کے کئی اور سلسلے جو عبادات کی ذیل میں نہیں آتے۔ جب بھی اِن انسانی پہلوؤں کے حق میں آج کے نوجوانوں کے نقطہء نظر سے سوچتا ہوں تو دس سال پہلے ایک بزرگ کی ڈانٹ یاد آنے لگتی ہے: ’نماز اس لئے پڑھئیے کہ اللہ کا حکم ہے۔ آپ اِس میں چسکے تلاش کرتے ہیں۔“ یہ فرمان سر آنکھوں پر۔ نماز صرف اللہ کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح روزہ بھی اللہ کا حکم سمجھ کر ہی رکھا جاتا ہے اور اس کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہونا عین سعادت ہے۔

کراچی:سولجر بازار میں ریٹائرڈ پولیس اہلکار کے جھلسنے کی حقیقت سامنےآگئی

یہاں تک تو سب متفق ہیں لیکن جان کی امان پاؤں تو کچھ مزید عرض کروں۔ یہی کہ اللہ کے حکم پر روزے کی پابندی کرنے والے اللہ کے بندے بہرحال کسی نہ کسی خطہء زمین میں رہتے ہیں اور اپنا ایک طبعی وجود بھی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کی آبادی تاحال نیشن اسٹیٹ کی اکائیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھتے ہوئے ہم نے بھی یہ سوچا تھا کہ اسلام ہمارے قومی تشخص کا بنیادی حوالہ ہو گا۔ یہ بھی ٹھیک ہے مگر وہ جو مذاہب عالم اور تہذیبوں کے تقابل پر نظر رکھنے والے میرے گورڈن کالج کے استاد، پروفیسر نصر اللہ ملک کہا کرتے تھے کہ بیٹا، اسلام عرب مذہب نہیں بلکہ عالمگیر دین ہے۔ اسی لئے اقبال نے اپنے اِس شعر میں بغداد کا نہیں، تہران کا ذکر کیا تھا جو غیر عرب اسلام کا ایک بڑا مرکز ہے:

محکمہ خوراک نے پنجاب حکومت کو گندم کی سرکاری قیمت تجویز کردی

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا

شاید کرہءٗ ارض کی تقدیر بدل جائے

دوسرے لفظوں میں بنیادی عقائد کا مکمل اثبات کرتے ہوئے بھی ہمیں اِس پر پریشانی نہیں ہونی چاہئے کہ انسانی صورتحال میں فکر و عمل کے آسمانی اور زمینی عناصر ایک خاص تناسب سے باہم یکجا ہوا کرتے ہیں۔ کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب پاکستان بنا تو 14اگست 1947ء کی شام نوزائیدہ مملکت کی طرف سے جس سرکاری ضیافت کا اہتمام کیا گیا، وہ ایک افطار ڈنر تھا اور اس کی میزبانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے۔ قائد کے ائر فورس اے ڈی سی عطا ربانی کی اولین کتاب میں تقریب کا حال درج ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی، مسلم اور غیر مسلم، امیر، وزیر، سفارتکار، سبھی شامل تھے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ بر صغیر کی تاریخ میں افطار ڈنر پر مبنی یہ پہلی سرکاری ضیافت تھی، جس کا محرک ایک ایسا ’سوٹڈ بوٹڈ‘ لیڈر بنا جسے اول اول ’گورا ٹائپ‘ آدمی ہی سمجھا گیا تھا۔

خیبرپختونخوا حکومت کا فلسطینیوں کے لیے 10 کروڑ روپے امداد کا اعلان

ذرا اور پیچھے جائیں۔ ابھی پاکستان نہیں بنا اور ایک نجی محفل میں علامہ اقبالؒ کہہ رہے ہیں کہ پلاؤ اور شامی کباب اسلامی غذائیں ہیں۔ علامہ کو آپ اور ہم شاعر، مفکر اور سیاسی مدبر کی حیثیتوں میں جانتے ہیں اور اِس پر بحث بھی کرتے ہیں کہ اِن میں سے کون سی حیثیت زیادہ معتبر ہے، مگر یہ مان لینے میں آخر کیا برائی ہے کہ علامہ صاحب اونچے پائے کے فقرہ باز، پر مزاح طبیعت کے مالک اور اچھی خوراک کے شوقین بھی تھے۔ ’روز گار ِ فقیر‘ میں اقبال کا یہ قول موجود ہے کہ جو پکوان دیکھنے میں خوش رنگ نہیں اُس کا ذائقہ اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک اور مقولہ ہے کہ خدا نے پھلوں کو ترقی دے کر انگور بنایا اور پھر اِس کا درجہ بڑھا کر آم کی شکل دے دی۔اسی طرح انگریزی دواؤں سے نفرت تھی، البتہ دلی کے حکیم نابینا کی مزیدار معجون شوق سے کھایا کرتے۔

پاکستان کے تاجربھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی چاہتے ہیں،اسحاق ڈار

اقبال نے اگر ’اسلامی غذاؤں‘ کی بات کی تو یہ اُن سماجی، لسانی اور نسلی اثرات کی طرف ایک اشارہ تھا جن کی تاریخ دنیائے عرب ہی سے نہیں، ترکی، ایران، افغانستان،بر صغیر اور مشرقِ بعید سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ افریقہ، اسپین اور یورپ کے بعض دیگر خطے، جہاں مسلمان پہنچے، اِس کے علاوہ ہیں۔ اُن علاقوں میں جن پر پاکستان مشتمل ہے روحانی شخصیات کے لنگروں سے ایک خلقِ خدا کو رزق ملتا رہا اور مِل رہا ہے۔ اِس لحاظ سے شبِ برات کے موقعے پر حلوہ خوری سے پرہیز رمضان شریف کے دوران ’لیٹ نکالنے‘ کی کسی پیشگی حکمت عملی کا حصہ بھی ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سے لے کر وزیراعلیٰ کے ایوان بلکہ انتظامیہ، پولیس اور سیاسی تنظیموں کے ضلعی صدر دفاتر تک ہر صاحبِ اختیار شخصیت نے افطاری کے بہانے ثواب ِ دارین حاصل کرنے کا ’شارٹ کٹ‘ نکال لیا ہے۔ رمضان میں کوئی پریس بریفنگ ہو، کتاب کی رونمائی ہو یا مجلسِ مذاکرہ، مومنوں کا تمت بالخیر نہائت بھرپور افطار ڈنر پہ ہوتا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کا اوورسیز پاکستانیوں کے لیے شاندار اقدام

پرانی مسجدوں کے موذن سورج ڈوبتے ہی کھجور منہ میں ڈال کر اذان کہہ دیا کرتے تھے۔ اکثریتی آبادی کا عام تاثر بھی یہی تھا کہ نمازِ مغرب ادا کرنے میں وقت کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ اب جدید افطار یوں کی باتصویر ڈیجٹل روایت نے اذان اور نماز کے درمیانی وقفے کو حیرت انگیز حد تک بڑھا دیا ہے۔ پچھلے ہی سال اِن گنہگار کانوں نے ایک دینی جماعت کے ڈنر اجتماع میں سنا کہ یہ دورانیہ ہر گز اُتنا کم نہیں ہوتا جتنا لوگوں کا خیال تھا۔ تو بھائی، کون کہتا ہے کہ ہم نے اجتہاد کے دروازے بند کر رکھے ہیں؟ بیرونی دنیا میں نیا سال شروع ہونے پر تہنیتی پیغام بھیجنے کا رواج ہے۔ آج مَیں بھی اجتہاد سے کام لے کم و بیش رمضان کے وسط میں آپ کو ’افطاری مبارک‘ کہنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

QOSHE - روحانی مسرت سازش نہیں ہوتی - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

روحانی مسرت سازش نہیں ہوتی

9 1
24.03.2024

شبِ برات خاموشی سے گزر جانے پر خیال آیا تھا کہ اِس تہوار کے تمدنی حوالوں میں اب شاید پہلی سی گرمجوشی نہیں رہی۔ ہمارے بچپن میں ’شبرات‘ پاکستانی مسلمانوں کے سواد ِ اعظم کے لئے حلوہ خوری اور پٹاخے چلانے کا تہوار تھا۔ ابتداء چچڑوں سے ہوتی اور انتہا شُرلی،مہتابی اور انار پر۔ پھر آتش بازی نے جن ہولناک حادثوں کو جنم دیا، اُن کے بعد آگ کے اِس کھیل سے گریز ہی بہتر سمجھا گیا۔ ہاں، حلوے سے اجتناب کے رویے میں اُن علمائے کرام کی سخت گیری کو بھی دخل ہو گا جنہیں عوام الناس کی ہر روحانی تفریح کے پیچھے کوئی نہ کوئی ’سازش ِ عجم‘ ضرور دکھائی دیتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں بھی ذکر ہوا، ماہِ رمضان کی افطاریاں اِس اصول سے مبرا ہیں اور اُن کی برکتوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

سچ پوچھیں تو قومی شناخت کے جو پیرائے آزاد پاکستان میں ہمارے لئے بتدریج نمایاں طور پر اہم ہو گئے اُن میں رمضان المبارک میں فکر و ذکر کے اجتماعات اور شبینہ کی محافل بلا شبہ شامل ہیں۔ ساتھ ہی افطار پارٹیاں، پھر عید شاپنگ، چاند رات، عید ملن اور خوشدلی کے کئی اور سلسلے جو عبادات کی ذیل میں نہیں آتے۔ جب بھی اِن انسانی پہلوؤں کے حق میں آج کے نوجوانوں کے نقطہء نظر سے سوچتا ہوں تو دس سال پہلے ایک بزرگ کی ڈانٹ یاد آنے لگتی ہے: ’نماز اس لئے پڑھئیے کہ اللہ کا حکم ہے۔ آپ اِس میں چسکے تلاش کرتے ہیں۔“ یہ فرمان سر آنکھوں پر۔ نماز صرف اللہ کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح روزہ بھی اللہ کا حکم سمجھ کر ہی رکھا جاتا ہے اور اس کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play