چھ ماہ کی مدت کم نہیں ہوتی۔ اس میں کسی بھی آئینی ادارے اور اس کے سربراہ کے متعلق وہی رائے مقبول ہوتی ہے جو حقائق کے مطابق ہو۔ ذرائع ابلاغ اور تجزیہ نگار 100ضربیں بھی لگا دیں لیکن کارکردگی کی ایک ہی ضرب لوہار کی ضرب ثابت ہوتی ہے، سو سنار کی ایک لوہار کی] لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تاحال لوہار جیسی کوئی ضرب نہیں لگا سکے۔ اس عرصے میں انہوں نے عدلیہ کا کھویا ہوا کچھہ وقار بلا شبہ بحال کر دیا ہے۔ عدالتی کارروائی نشر کرنے سے نامی گرامی وکلا کی علمی حیثیت ہر شخص نے دیکھ لی۔ یوں خود چیف کے بارے میں بھی لوگوں کو اپنی رائے مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اس پر مزید لکھنا وقت کا ضیاع ہی ہو گا۔ شخصی عیوب اور محاسن کے جس اثاثے پر زندگی کا آغاز ہوتا ہے، انسان ابتدا ہی سے اس پر خود نظر نہ رکھے تو بعد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس کا بھی یہی کچھ حال ہے۔ تاہم اس مدت میں انہوں نے یہ تاثر کسی حد تک زائل کر دیا ہے کہ ججوں میں کوئی خلیج حائل ہے، ان سے پہلے کے کچھ فیصلوں پر نظر ثانی سے یہ فیصلے آئین و قانون کے قریب تر ہو گئے ہیں۔ چیف مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں کہ وہ تا حال کوئی ایسا کام نہیں کر سکے جو سبکدوشی کے بعد انہیں یاد رکھنے کا ذریعہ بن جائے۔ تاہم بقیہ 7ماہ ایسا کچھ کرنے کو کافی ہیں۔ احترام کے ساتھ لیکن المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنے منصب کی نزاکتوں کا کما حقہ ادراک نہیں ہے۔ یہ بات 2مثالوں سے واضح ہو سکتی ہے۔یوم پاکستان کی پریڈ پر لڑاکا جہازوں کا جو اسکواڈرن سلامی لیتا ہے، اس کے قائد خود ایئر چیف ہوتے ہیں لیکن علاوہ ازیں ایئر چیف نے شاید مدتوں جہاز دیکھا ہی نہ ہو.اڑان ان کی ابتدائی زندگی کا کھیل تھا.ادارے کا سربراہ بننے پر یہ فن پیچھے رہ جاتا ہے، لیکن نئے افسروں کے لیے اس میں حسن و خوبی پیدا کرنا اور ادارے کی تعمیر و ترقی ایئر چیف کا اصل کام ہوتا ہے نہ کہ جہاز اڑائے چلے جانا۔

کراچی:سولجر بازار میں ریٹائرڈ پولیس اہلکار کے جھلسنے کی حقیقت سامنےآگئی

یونیورسٹی کا وائس چانسلر پروفیسر ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی وی سی ہو جو طلبہ کو پڑھاتا ہو۔ ادارے کا سربراہ بننے پر تدریس و تحقیق پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آغاز ملازمت پر بطور لیکچر اس نے کم از کم 12گھنٹے فی ہفتہ پڑھانا ہوتا ہے۔ پروفیسر بننے پر یہ وقت آدھا بلکہ مزید کم رہ جاتا ہے۔ وائس چانسلر بننے پر تدریس و تحقیق ختم ہو جاتے ہیں۔نئے منصب کا تقاضا پڑھانا نہیں بلکہ پڑھانے والوں کو ان مشکلات سے دور رکھنا ہے جن کا سامنا اس نے خود کیا ہوتا ہے۔ طلبا کی مشکلات، ملازمین کی مجبوریاں اور ادارے کی تعمیر و ترقی جیسے متعدد دیگر موضوعات ہیں جو وائس چانسلر کی ذمہ داری میں آتے ہیں۔ اب وائس چانسلر کی ذمہ داری پڑھانا نہیں رہتی۔

محکمہ خوراک نے پنجاب حکومت کو گندم کی سرکاری قیمت تجویز کردی

اگرچہ ان مثالوں اور سپریم کورٹ میں مکمل ہم آہنگی نہیں ہے۔ ایئر چیف اور وائس چانسلر کی طرح چیف جسٹس کا خود کو اپنے کسی بینچ سے الگ رکھنا نہ تو ممکن ہے، نہ اس کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ایک حد تک سماعت لازما کرنا ہوتی ہے۔ لیکن دی گئی مثالوں کی روح (spirit) ذہن میں رکھیے۔ کسی جسٹس کے چیف بن جانے سے جزوی سا کام بینچ کا حصہ بننا تو یقینا ہوتا ہے، لیکن اس کا اصل کام کہیں زیادہ نزاکتوں بھرا ہوتا ہے۔ وہ صرف سپریم کورٹ کا سربراہ نہیں, چیف جسٹس آف پاکستان ہوتا ہے۔ اب وہ سول جج سے لے کر اپنے سے ایک درجہ کم جسٹس تک کے احوال پر نظر رکھنے کا مکلف ہوتا ہے۔ وہ 3بڑے آئینی ستونوں میں سے ایک ستون کا سربراہ ہوتا ہے۔ یہاں آ کر چیف جسٹس، ایئر چیف اور وائس چانسلر کے مماثل ہو جاتا ہے۔ وہ نازک آئینی سوالات والے کسی بینچ کا حصہ بننا چاہے تو بھلے بن جائے۔ لیکن اب اس کا اصل کام چترال تا گوادر اور سیالکوٹ تا ٹھٹھہ پھیلی عدلیہ کی تعمیر و ترقی ہے نہ کہ نکاح طلاق اور وراثت کے معمولی فیصلے کرنا۔

خیبرپختونخوا حکومت کا فلسطینیوں کے لیے 10 کروڑ روپے امداد کا اعلان

ایک دفعہ انہوں نے لوگوں سے ہاتھ کھڑے کروائے تھے کہ بتاؤ کتنے لوگ عدلیہ سے مطمئن ہو۔ انہیں بخوبی یاد ہوگا کہ بھرے ہال میں سے ایک ہاتھ بھی عدلیہ کے حق میں نہیں اٹھا تھا۔ چنانچہ ان کا اصل کام عدلیہ کی کارکردگی کو عوامی اطمینان کے مطابق بنانا ہے۔ کام ایک دو نہیں، ان گنت ہیں۔ لیکن چیف ہیں کہ کسی کو ڈانٹ پڑ رہی ہے کہ"فلاں کے نام کے ساتھ صاحب کیوں لگایا" یا یہ کہ"آپ نام کے ساتھ سردار کیوں لکھتے ہو"چیف جسٹس بن کر پہلے دن انہوں نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر دیا تھا۔اچھا کیا، پھس پھسی خبروں میں آنے کے لیے ٹھیک ہے لیکن کیا کیا جائے اچھی خبر با انداز دیگر ہی بنتی ہے۔سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پہلے دن اسمبلی میں ملازمین کی کثرت دیکھی تو 40سے زائد ملازمین واپس کر دیے کہ اسمبلی کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔چھ گاڑیاں بھی واپس کر کے مزید تفصیل مانگی کہ کل اخراجات بتاؤ تاکہ اور بچت کی جائے۔

پاکستان کے تاجربھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی چاہتے ہیں،اسحاق ڈار

کیا سردار کہلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اعلیٰ ترین آئینی عہدے دار اس معمولی سی بات کو عدالتی مسئلہ بنا لے؟ خود اس کی حالت یہ ہو کہ گاڑی رکنے پر دروازہ نوکر کھولے۔وہ خود کیوں نہ کھولے؟ دوسرا نوکر صندوقچہ نکالے۔ وہ خود کیوں نہ نکالے؟ دفتر داخلے پر دروازہ کھولنے کو ایک اور ملازم حاضر۔ وہ خود کیوں نہ کھولے؟ بیٹھنا چاہے تو کرسی کھینچنے کو ایک اور نوکر موجود۔ کیا اس کے اپنے ہاتھ کام نہیں کرتے؟ عدالت میں داخل ہو تو کرسی کھینچنے کو ایک اور نوکر حاضر و موجود ہو۔ صاحب اتنا مریضانہ سلوک تو شفاء انٹرنیشنل جیسے مہنگے ہسپتال میں اپاہج مریضوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ میرا نہیں خیال کہ یہ جاہ و حشم کسی انگریز جج کو بھی اس بر صغیر میں کبھی حاصل رہے ہوں گے۔ جناب چیف! یہ تماشا کیا ہے؟ اس سڑے بسے عدالتی نظام کو کون تبدیل کرے گا؟ اگر معمولی سا بے اختیار اسپیکر پہلے ہی دن 40ملازمین فالتو قرار دے سکتا ہے تو با اختیار ترین عہدے دار اپنے ادارے پر ایسی ہی نظر نہ ڈالے تو کیوں؟ ان کے دیگر کاموں میں سے کیا یہ ایک کام نہیں ہے؟

خیبرپختونخوا حکومت کا اوورسیز پاکستانیوں کے لیے شاندار اقدام

محترم چیف جسٹس صاحب! بقیہ 7ماہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے. پانچوں ہائی کورٹوں کے چیف کو اعتماد میں لے کر ماہانہ کروڑوں روپے ضائع کرنے والی اس ایک مد ہی پر توجہ دیں۔ان غیر ضروری ملازمین سے عدالتیں خالی کروا کر بچت کو مزید جج رکھنے پر لگائیں۔آپ دیکھیں گے کہ یہ بوجھ ہٹنے سے عدلیہ کی کارکردگی بہت بہتر ہو جائے گی۔ آپ یہی ایک کام کر جائیں تو ہر ادارے کی یہ مجبوری ہو گی کہ وہ آپ کے نقش قدم پر چلے۔ جناب چیف! اپنے مقدس ادارے کو بہتر بنانے کے لیے کہیں سے تو آغآز کریں۔اور کچھ نہیں تو اسپیکر کی پیروی ہی کر لیں۔

QOSHE - چیف جسٹس کے چھ ماہ اسپیکر کا ایک دن - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چیف جسٹس کے چھ ماہ اسپیکر کا ایک دن

14 0
24.03.2024

چھ ماہ کی مدت کم نہیں ہوتی۔ اس میں کسی بھی آئینی ادارے اور اس کے سربراہ کے متعلق وہی رائے مقبول ہوتی ہے جو حقائق کے مطابق ہو۔ ذرائع ابلاغ اور تجزیہ نگار 100ضربیں بھی لگا دیں لیکن کارکردگی کی ایک ہی ضرب لوہار کی ضرب ثابت ہوتی ہے، سو سنار کی ایک لوہار کی] لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تاحال لوہار جیسی کوئی ضرب نہیں لگا سکے۔ اس عرصے میں انہوں نے عدلیہ کا کھویا ہوا کچھہ وقار بلا شبہ بحال کر دیا ہے۔ عدالتی کارروائی نشر کرنے سے نامی گرامی وکلا کی علمی حیثیت ہر شخص نے دیکھ لی۔ یوں خود چیف کے بارے میں بھی لوگوں کو اپنی رائے مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اس پر مزید لکھنا وقت کا ضیاع ہی ہو گا۔ شخصی عیوب اور محاسن کے جس اثاثے پر زندگی کا آغاز ہوتا ہے، انسان ابتدا ہی سے اس پر خود نظر نہ رکھے تو بعد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس کا بھی یہی کچھ حال ہے۔ تاہم اس مدت میں انہوں نے یہ تاثر کسی حد تک زائل کر دیا ہے کہ ججوں میں کوئی خلیج حائل ہے، ان سے پہلے کے کچھ فیصلوں پر نظر ثانی سے یہ فیصلے آئین و قانون کے قریب تر ہو گئے ہیں۔ چیف مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں کہ وہ تا حال کوئی ایسا کام نہیں کر سکے جو سبکدوشی کے بعد انہیں یاد رکھنے کا ذریعہ بن جائے۔ تاہم بقیہ 7ماہ ایسا کچھ کرنے کو کافی ہیں۔ احترام کے ساتھ لیکن المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنے منصب کی نزاکتوں کا کما حقہ ادراک نہیں ہے۔ یہ بات 2مثالوں سے واضح ہو سکتی ہے۔یوم پاکستان کی پریڈ پر لڑاکا جہازوں کا جو اسکواڈرن سلامی لیتا ہے، اس کے قائد خود ایئر چیف ہوتے ہیں لیکن علاوہ ازیں ایئر چیف نے شاید مدتوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play