ہمارے حکمرانوں کے بہت سے تکیہ کلام رہے ہیں۔ سب سے مقبول تکیہ کلام یہ ہے کہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے،سو اگر وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو مشکل فیصلوں کی خبر دی ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اللہ کرے وہ واقعی مشکل فیصلے کریں۔وگرنہ اب تک تو عوام مشکل فیصلوں کا سن کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں،کیونکہ ان مشکل فیصلوں سے مراد یہی ہوتی ہے عوام مزید ٹیکسوں، مہنگائی اور خجل خواری کے لئے تیار ہو جائیں۔کبھی ایسا نہیں ہوا مشکل فیصلے عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے کئے گئے ہوں،ان پر رہی سہی بجلیاں گرانے کو مشکل فیصلے کہا جاتا ہے۔اب وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق ملک کو ساڑھے تیرہ سو ارب روپے کی ضرورت ہے،یعنی ساڑھے تیرہ کھرب،آئی ایم ایف تو اتنے پیسے نہیں دے گا،اُس کی تو ہر قسط لینے کے لئے ایک بڑے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے، وہ بھی ایسا ڈھیٹ ہے کہ سارا نزلہ عوام پر گرانے کی بات کرتا ہے،کبھی ایسی شرائط نہیں رکھتا جو طبقہ ئ اشرافیہ پر عائد کی جا سکتی ہوں۔ اب اِس سال جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کو نظر آنے لگا ہے۔ تازہ تازہ پاکستانی شہریت حاصل کرنے والے وزیر خزانہ اورنگزیب بھی یہ کہہ چکے ہیں، سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے عوام مزید قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اِس ملک میں ایک طرف انتہا درجے کی غربت اور دوسری طرف انتہا درجے کی امارت کیسے آ گئی ہے۔وہ جو مڈل کلاس تھی کہاں چلی گئی، بڑے شہروں کی پوش آبادیوں کو دیکھیں تو یورپ اور امریکہ والے بھی پریشان ہو جائیں۔ ایک ایک گھر میں چار پانچ گاڑیاں تو معمول کی بات ہیں۔ آخر ٹیکسوں کی تلوار اِن پر کیوں نہیں چلتی، کیوں شیدے مِیدے کو ہی رگڑا جاتا ہے۔مجھے سویڈن میں مقیم ایک دوست نے بتایا یہاں ہر شخص اپنی آمدن کا45فیصد حصہ ٹیکسوں کی مد میں دیتا ہے اس سے کسی کو استثنا نہیں، بڑے سے بڑا امیر اور بڑے سے بڑا غریب بھی اِسی تناسب سے ٹیکس دیتا ہے یوں ایک مساوات قائم ہو جاتی ہے۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے بعد ہر شہری کو وہ تمام سہولتیں ملتی ہیں جن کا کسی بھی فلاحی ریاست میں تصور کیا جا سکتا ہے، ہمارے ہاں کیا رواج ہے جو جتنا امیر ہے وہ اتنا ہی کم ٹیکس دیتا ہے،بعض کروڑ پتی تو اپنے ٹیکس گوشوارے تک نہیں بھرتے،ابھی چند روز پہلے ایف بی آر نے اعداد و شمار جاری کئے ہیں،جن میں بتایا گیا ہے پچھلے مالی سال میں سب سے زیادہ ٹیکس ملازمت پیشہ افراد نے دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو طبقہ اِس ملک کی معیشت کے75 فیصد حصے پر قابض ہے وہ اتنا ٹیکس بھی نہیں دے رہا جتنا معیشت سے35فیصد فائدہ اٹھانے والا طبقہ دیتا ہے۔

وہ بالی وڈ اداکار جن کو کڑے وقت میں اپنے گھر کی ہر چیز بیچنا پڑی

جس رفتار سے ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے جکڑی جا رہی ہے ہم جس طریقے سے اپنے فیصلوں کے ذریعے معیشت کو سدھار کی بجائے بگاڑ کی طرف لے جا رہے ہیں،اُسے دیکھتے ہوئے تو اگلے پچاس کیا سو سال تک بہتری کے کوئی آ ثار نظر نہیں آ رہے۔ایک زمانے میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بننے کے بعد کہا کرتی تھیں قوم کو مشکل فیصلے لینے ہوں گے،پھر نواز شریف اِن مشکل فیصلوں کا ورد کرتے رہے،عمران خان آئے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے مشکل فیصلے کریں گے۔بات کوہلو کے بیل کی طرح اب پھر مسلم لیگ(ن) کی حکومت تک آ گئی ہے اور شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر مشکل فیصلوں کا بگل بجا دیا ہے۔ مشکل فیصلے اگر یہی ہیں کہ کابینہ تنخواہیں اور مراعات نہیں لے گی تو قوم ہاتھ جوڑ کر کہنے کو تیار ہے آپ تنخواہ بھی لیں اور مراعات بھی،لیکن پروٹوکول پر جو اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں انہیں ختم کر دیں،ایسے فیصلوں سے بات نہیں بننے والی،اب یہ فیصلے بھی مرے کو مارے شاہ مدار کے زمرے میں آئیں گے کہ بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بڑھا دو اور عوام کی جیبوں سے مزید اربوں روپے نکلوا لو،اُن جیبوں سے جن میں اب رہا بھی کچھ نہیں۔گرمیاں آ رہی ہیں تو ہر طرف یہ دہائی مچی ہوئی ہے،بجلی کا بل کیسے ادا کریں گے جہاں سردیوں میں بل ہزاروں ر وپے آتا رہا، وہاں ایک دو پنکھے چلے تو کیا بنے گا۔اوپر سے یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ بجلی پانچ روپے فی یونٹ مزید مہنگی کی جا رہی ہے۔یہ شیطانی چکر تو ایسے ہی چلتا رہے گا پھر بہتری کیسے آئے گی۔اِس ملک میں صنعتوں کا پہیہ بھی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کے چلایا گیا۔سبسڈی انہیں دی گئی اور قیمت عوام سے وصول کرتے رہے۔دہرا عذاب یہ رہا کہ یہی صنعتیں جو سبسڈی کی بنیاد پر بجلی اور گیس حاصل کرتی تھیں اپنی اشیاء عوام کو مہنگے داموں فروخت کرتیں،کسی نے حساب کتاب نہیں لگایا کہ سبسڈی دینے کا عوام کو کیا فائدہ ہوا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا بیوہ خاتون اور اس کی بیٹیوں پر تشدد کا نوٹس

تو حضورِ والا، اگر آپ سمجھتے ہیں مشکل فیصلوں کا واقعی وقت آ گیا ہے تو پھر مشکل فیصلے کریں۔اُن مافیاؤں سے نہ ڈریں جو حکومت اور اسمبلیوں کے اندر بھی موجود ہیں، جو قومی خزانے میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے،بلکہ مزید لوٹ مار کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔مشکل فیصلے کرنے ہیں تو براہِ راست ٹیکسوں میں اضافہ کریں۔ پوش آبادیوں کا سروے کرائیں اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لائیں جو اِس ملک میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں،لیکن ٹیکسوں کی مد میں اتنا حصہ بھی نہیں ڈالتے جتنا ایک عام تنخواہ دار آدمی ڈالتا ہے۔حکومت کے اخراجات میں کمی لائیں۔ غیر پیداواری اخراات کو کم از کم50فیصد تک کم کر دیں،ایسے منصوبوں پر رقم ضائع نہ کریں جو قوم کی فوری ضرورت نہیں،معاشی ایمرجنسی نافذ کریں اور ایف بی آر کو یہ ہدف دیں کہ وہ کم از کم بیس لاکھ نئے ٹیکس گزار تلاش کرے۔یہ کوئی مشکل کام نہیں اگر صرف گاڑیوں کی رجسٹریشن کو سامنے رکھ کر ہی ٹیکس نہ دینے والوں کی فہرست بنائی جائے تو لاکھوں میں نکل آئے گی، مشکل فیصلے کرے، ست بسم اللہ مگر وہ فیصلے نہیں جن کا ہدف صرف اِس ملک کے غریب عوام بنتے ہیں،جن کے بدن سے خون کا آخری قطرہ تک بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE - مشکل فیصلے، اللہ خیر! - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مشکل فیصلے، اللہ خیر!

12 0
23.03.2024

ہمارے حکمرانوں کے بہت سے تکیہ کلام رہے ہیں۔ سب سے مقبول تکیہ کلام یہ ہے کہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے،سو اگر وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو مشکل فیصلوں کی خبر دی ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اللہ کرے وہ واقعی مشکل فیصلے کریں۔وگرنہ اب تک تو عوام مشکل فیصلوں کا سن کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں،کیونکہ ان مشکل فیصلوں سے مراد یہی ہوتی ہے عوام مزید ٹیکسوں، مہنگائی اور خجل خواری کے لئے تیار ہو جائیں۔کبھی ایسا نہیں ہوا مشکل فیصلے عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے کئے گئے ہوں،ان پر رہی سہی بجلیاں گرانے کو مشکل فیصلے کہا جاتا ہے۔اب وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق ملک کو ساڑھے تیرہ سو ارب روپے کی ضرورت ہے،یعنی ساڑھے تیرہ کھرب،آئی ایم ایف تو اتنے پیسے نہیں دے گا،اُس کی تو ہر قسط لینے کے لئے ایک بڑے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے، وہ بھی ایسا ڈھیٹ ہے کہ سارا نزلہ عوام پر گرانے کی بات کرتا ہے،کبھی ایسی شرائط نہیں رکھتا جو طبقہ ئ اشرافیہ پر عائد کی جا سکتی ہوں۔ اب اِس سال جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کو نظر آنے لگا ہے۔ تازہ تازہ پاکستانی شہریت حاصل کرنے والے وزیر خزانہ اورنگزیب بھی یہ کہہ چکے ہیں، سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے عوام مزید قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اِس ملک میں ایک طرف انتہا درجے کی غربت اور دوسری طرف انتہا درجے کی امارت کیسے آ گئی ہے۔وہ جو مڈل کلاس تھی کہاں چلی گئی، بڑے شہروں کی پوش آبادیوں کو دیکھیں تو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play