اگر لفظ ”ڈاؤن“ اور ”گراؤنڈ“ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ گراؤنڈ میں صرف ”گ“ اور ”ر“ اضافی ہے۔بقیہ چاروں حروف دونوں الفاظ میں مشترک ہیں جن میں الف، و، حمزہ، نون اور ڈال شامل ہیں۔ مزید برآں دونوں الفاظ کی ”ساؤنڈ“ میں بھی کافی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے، جبکہ ان کے معنی بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔مثال کے طور پر ڈاؤن کا مطلب جھکنا یا نیچے ہونا اور گراؤنڈ کا مطلب بھی نیچے ہونا، زمین پر ہونا وغیرہ ہے، جیسے ہم کثیر المنزلہ عمارت کے سب سے نچلے حصے کو ”گراؤنڈ فلور“ کہتے ہیں۔یا پھر فضا میں اڑتا ہوا طیارہ جب زمین پر اتار لیا جائے تو اس کے لئے بھی لفظ ”گراؤنڈ“ استعمال ہوتا ہے۔ گفتگو میں ذکر بھی ہیلی کاپٹر کا ہی ہو رہا تھا جو ہوا میں اڑنے والی اور جہاز(طیارے) سے ملتی جلتی چیز ہے، لہٰذا مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عظمی بُخاری کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ اور ان کے معنی میں ”انیس، بیس“ کا ہی فرق ہے،بلکہ مجھے ”ڈاؤن ٹو ارتھ“ کی نسبت ”گراؤنڈ“ کا لفظ زیادہ ”ایٹریکٹ“ کیا کیونکہ محاوراتاً بولے گئے یہ تینوں الفاظ ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ ”مترادف“ ہیں۔ البتہ روا روی میں حروف کی ترتیب تھوڑی آگے پیچھے نظر آتی ہے، لیکن اس کے باوجود ”گراؤنڈ ٹُو ارتھ“ جملے کی پوری ”سینس“ بن رہی ہے۔

وہ بالی وڈ اداکار جن کو کڑے وقت میں اپنے گھر کی ہر چیز بیچنا پڑی

”گراؤنڈٹو ارتھ“سے یاد آیا ایک ”جہاز“ آج کل اڈیالہ جیل میں ”گراؤنڈ“ کیا گیا ہے۔اُڑنے اور بے پر کی اُڑانے میں اس جہاز کا کوئی ثانی نہیں تھا۔زبان کی پھسلن یا پھر ”سلپ آف ٹنگ“ کا یہ سلسلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں لفظ ”خاتم النبیینؐ“ سے لے کر اقتدارکی رخصتی کے بعد دیئے گئے ویڈیو بیان تک تسلسل کے ساتھ چار سال جاری رہا۔بطور وزیراعظم ایران کے سرکاری دورہ پر گئے اور وہاں پریس بریفنگ کے دوران عمران خان نے دنیا بھر کے صحافیوں کی موجودگی میں جاپان اور جرمنی کی سرحد کو آپس میں ملا دیا۔دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں دونوں ملکوں کو ہمسایہ ملک بنا کر پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر مذکورہ بالا دونوں ملک جنگ عالم سے نکل کر ایک دوسرے کے لئے سرحدیں کھول سکتے ہیں، چیزیں درآمد اور برآمد کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ جہاں ماضی میں لاکھوں لوگ مارے گئے وہاں آج دیکھیں کتنے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ اس صورتحال میں وہاں موجود دونوں ملکوں کے انتہائی پڑھے لکھے اورحکومتی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی سُبکی ہوئی۔ بعدازاں عمران خان دورہ چین کے دوران وہاں کے حکومتی اراکین کو اپنے بلین ٹری منصوبے کو پانچ ارب درخت بتاتے رہے، لیکن سلپ آف ٹنگ کا یہ سلسلہ کہیں رکا نہیں بلکہ ان کے اقتدار کے آخری دِنوں تک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔جوش خطابت میں ایک جگہ یہ فرما دیا کہ ہم جب آئے تھے تو ”سولہ سو، ایک سو اسّی“ اوسط آمدنی تھی۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا بیوہ خاتون اور اس کی بیٹیوں پر تشدد کا نوٹس

پھر کہا کہ آپ کو پتہ ہے ”پچانوے اور بانوے“ کے بیچ کے سات سالوں میں فلاں فلاں کچھ ہوا۔ایک جگہ کہا کہ پاکستان کی چالیس لاکھ آباد ی نے ہندوستان کی ایک ارب اور 300 کروڑ آبادی کو یہ کچھ کیا،ایک اور موقع پر اسی چالیس لاکھ کو چالیس کروڑ کرتے ہوئے فرما یا”آپ کو پتہ ہے جب پاکستان بنا تو اس کی آبادی چالیس کروڑ تھی“۔اس تقریب میں ساتھ کھڑے شخص نے عمران خان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ چالیس کروڑ نہیں بلکہ چالیس لاکھ تھی، لیکن وہ بضد رہے کہ نہیں چالیس کروڑ۔ پھر دو تین بار سمجھانے کے بعد کہا جب پاکستان بنا تو اس کی آبادی چالیس ”ملین“ تھی۔اسی طرح ایک جگہ اپنے فالور ز کو یہ تاکید کرتے نظر آئے کہ وہ جائیں اور جا کر ”شیر“ کے اوپر مہر لگائیں۔’سلپ آف ٹنگ“ کے سلسلے میں یہ بھی کہہ دیا کہ پکڑنا ان لوگوں کو چاہئے جو ”مون کٹنگ“ میں لگے ہوئے ہیں وہاں بھی ساتھ کھڑے شخص نے تصحیح کہ مون کٹنگ نہیں، بلکہ ”چائینہ کٹنگ“۔ایک جگہ عمران خان کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ میں اپنی پارٹی کو ”رائے ونڈ“ بلا کر پورا لائحہ عمل دوں گا۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں اپنے اقتدار کی رخصتی کا سارا الزام ایک بیرونی ملک پر لگایا اور ساتھ ہی ”امریکہ“ کا نام بھی لے دیا تاہم اگلے ہی لمحے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ہنستے ہوئے اپنی ہی بات کی تردید بھی کر دی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

بحرالحال، وزیر اعظم جیسے انتہائی ذمہ دار عہدے پر تسلسل کے ساتھ زبان کی پھسلن کے باعث کئی دفعہ شرمندگی اٹھانا پڑی، لیکن چلیں اس کو اگر ایک قدرتی یا فطری امر سمجھ کر نظر انداز کر بھی دیا جائے تو بھی عمران خان کے ہاں اسی تسلسل کے ساتھ ”یوٹرن“ کا رواج بھی عام ملتا ہے۔ سلپ آف ٹنگ کے ساتھ یو ٹرن کا ذکر پاکستان تحریک انصاف اور اس کے فالور ز کی ذہنیت کی عکاسی کرنے کیلئے اس لئے ضروری ہے کہ یہ جماعت اور اس کے ماننے والے شخصیت پرستی میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں جہاں کوئی اخلاقیات، دلیل، استدلال، دھیما پن، مروت، رکھ رکھاؤ، اختلاف رائے یا پھر اس سے ملتی جلتی کسی چیز کا شائبہ تک نہیں۔ اس ”کلٹ“ نے پاکستان کی تمام جملہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی ہیں بلکہ Agression، جذباتی پن، بے پر اور بے تکی اڑانے کو ایک فیشن بنا دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا تو خیر ایک ”ٹُول“ ہی ایسا ہے جہاں پر سیدھی اور ستھری بات کرنے والے کی گنجائش ہی نہیں،کیونکہ اس پلیٹ فارم پر ”لائیک، فالو، شیئر اور کمنٹ“ کرنے والوں کی اکثریت نیم خواندہ، کم پڑھی لکھی، بیروزگار، جذباتی اور انتہائی سطحی ذہنیت کی حامل ہے لہٰذا کہنے والے جب سننے والوں کے مجموعی شعور کو مد نظر رکھ کر بات کرتے ہیں تو ہی اس میں تاثیر پیدا ہوتی ہے، جس جماعت کے فالورز نے لفظ ”وڑ گیا“ کے بانی کو اپنا روح رواں مقرر کر لیا ہو اس کی ذہنی سطح کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر سیدہ عظمیٰ بخاری کا ”گراؤنڈ ٹُو ارتھ“ لفظ بہت Attract کیا ہے۔اس نئے محاورے میں ایک خاص طرح کی”جدت“ ہے اور اس جدت کو اپنانے کی مسلم لیگ(ن) کے قائدین کو اشد ضرورت ہے، کیونکہ اب اس جماعت کا مقابلہ ”قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت“ سے نہیں،بلکہ ”لائق، فالو، کمنٹ اور شیئر“ کرنے والوں سے ہے۔

ملک بھر میں یوم پاکستان آج جوش و جذبے سے منایا جائے گا

QOSHE -   گراؤنڈ ٹُو اَرتھ - صبغت اللہ چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  گراؤنڈ ٹُو اَرتھ

18 0
23.03.2024

اگر لفظ ”ڈاؤن“ اور ”گراؤنڈ“ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ گراؤنڈ میں صرف ”گ“ اور ”ر“ اضافی ہے۔بقیہ چاروں حروف دونوں الفاظ میں مشترک ہیں جن میں الف، و، حمزہ، نون اور ڈال شامل ہیں۔ مزید برآں دونوں الفاظ کی ”ساؤنڈ“ میں بھی کافی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے، جبکہ ان کے معنی بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔مثال کے طور پر ڈاؤن کا مطلب جھکنا یا نیچے ہونا اور گراؤنڈ کا مطلب بھی نیچے ہونا، زمین پر ہونا وغیرہ ہے، جیسے ہم کثیر المنزلہ عمارت کے سب سے نچلے حصے کو ”گراؤنڈ فلور“ کہتے ہیں۔یا پھر فضا میں اڑتا ہوا طیارہ جب زمین پر اتار لیا جائے تو اس کے لئے بھی لفظ ”گراؤنڈ“ استعمال ہوتا ہے۔ گفتگو میں ذکر بھی ہیلی کاپٹر کا ہی ہو رہا تھا جو ہوا میں اڑنے والی اور جہاز(طیارے) سے ملتی جلتی چیز ہے، لہٰذا مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عظمی بُخاری کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ اور ان کے معنی میں ”انیس، بیس“ کا ہی فرق ہے،بلکہ مجھے ”ڈاؤن ٹو ارتھ“ کی نسبت ”گراؤنڈ“ کا لفظ زیادہ ”ایٹریکٹ“ کیا کیونکہ محاوراتاً بولے گئے یہ تینوں الفاظ ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ ”مترادف“ ہیں۔ البتہ روا روی میں حروف کی ترتیب تھوڑی آگے پیچھے نظر آتی ہے، لیکن اس کے باوجود ”گراؤنڈ ٹُو ارتھ“ جملے کی پوری ”سینس“ بن رہی ہے۔

وہ بالی وڈ اداکار جن کو کڑے وقت میں اپنے گھر کی ہر چیز بیچنا پڑی

”گراؤنڈٹو ارتھ“سے یاد آیا ایک ”جہاز“ آج کل اڈیالہ جیل میں ”گراؤنڈ“ کیا گیا ہے۔اُڑنے اور بے پر کی اُڑانے میں اس جہاز کا کوئی ثانی نہیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play