روشنی کا روزن
سپریم کورٹ کے ججوں نے9مئی واقعات میں گرفتار پانچ ملزموں کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔ یہ بذات خود ایک بڑی خبر ہے، کیونکہ9مئی نہ صرف عدالتوں،بلکہ عوام کے لئے بھی ایک ایسا ہوا بنا ہوا ہے، جس کی طرف دیکھتے ہوئے بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جج صاحبان نے دورانِ سماعت بڑے بامعنی ریمارکس دیئے۔ان ریمارکس کو اگر موجودہ حالات میں اربابِ بست و کشاد اپنا اصول بنا لیں تو ہم بہت سے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور ریاست ماں باپ ہوتی ہیں۔والدین ناراض ہوں تو بچوں کو دو تھپڑ لگا کر پھر منا لیتے ہیں، ملزموں کو تقریباً ایک سال سے گرفتار کر رکھا ہے، ایک سال مزید گزار لیں گے تو کیا حاصل ہو گا۔اُن کے ان ریمارکس پر مجھے خیال آیا کہ صرف حکومت اور ریاست ہی ماں باپ نہیں ہوتیں ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی ماں باپ کا کردار ادا کرتی ہے،بلکہ موجودہ حالات میں تو یہ سپریم کورٹ ہی ہے جو اُس روزن کی نشاندہی کر رہی ہے،جس سے پھوٹنے والی روشنی ہمیں موجودہ تاریکی سے نکال سکتی ہے۔
میئر کراچی گٹر کے ڈھکن چرانے والوں سے تنگ آ گئےجسٹس جمال خان مندو خیل کا یہ سوال بھی موجودہ حالات میں بہت اہم ہے اور سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی کہ کیا پاکستان میں سیاسی کارکن ہونا جرم ہے؟ ہماری بربادی یہی ہے کہ ہم نے طلبا یونینز پر پابندی لگائی،سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کیں۔اگرچہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے یہ آبزرویشن دی کہ سیاسی کھیل سیاسی میدانوں میں کھیلا جائے یا پارلیمینٹ میں،عدالت کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے،نظام کو چلنے دیں،ہر معاملے میں........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website