اپنی وفات سے چند روز پہلے قدرت اللہ شہاب ملتان آئے، انہوں نے اس وقت کے شعبہ تاریخ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خرم قادر کے گھر یونیورسٹی کالونی میں قیام کیا تھا۔ میں اور سینئر صحافی عبداللطیف اختر مرحوم ان سے رابطہ کرکے ملاقات کے لئے مقررہ وقت پر پہنچے تو ڈاکٹر خرم قادر نے ہماری ان سے ملاقات کرائی۔ یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی۔ اس ملاقات میں بے شمار موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ ان کی خودنوشت شہاب نامہ کا بھی ذکر ہوا جس کے بارے میں انہوں نے بتایا مکمل ہو گئی ہے تاہم وہ چاہتے ہیں ان کی وفات کے بعد شائع ہو۔ ہم نے اس ملاقات میں نوٹ کیا وہ ایک مکمل صوفی کا روپ دھار چکے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ان کے خیالات اگرچہ مایوس کن نہیں تھے تاہم ان میں رجائیت بھی نہیں تھی۔ رائیگانی کے احساس میں لپٹے ہوئے تاثرات کی ایک لامتناہی گفتگو اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ زندگی میں اتنا کچھ کرنے کے باوجود گویا اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے ایک بات تسلسل سے کی تھی کہ ہم اپنی منزل پانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ہم اس راستے کو چھوڑ چکے ہیں جو منزل کی طرف جاتا تھا۔ انہوں نے متعدد بار قائداعظم کا حوالہ دیا جو ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے لیکن جنہیں حالات اور پھر زندگی نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ مجھے ان کا ایک جملہ آج تک یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا اس ملک کو اگر کوئی چیز دیمک کی طرح چاٹ سکتی ہے تو وہ مفادات میں لپٹی ہوئی سیاست ہے۔ جب تک سیاست مفادات کا کھیل رہے گی اور اسے عبادت کا درجہ نہیں دیا جائے گا، اس وقت تک یہ پاکستان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتی رہے گی۔ قدرت اللہ شہاب جنہوں نے اقتدار کی راہداریوں میں زندگی گزار دی،نجانے کتنے ہی واقعات کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے جب سیاست کے بارے میں یہ کہا تو میں اور عبداللطیف اختر چونکے۔ ہمارا خیال تھاہم مزید کریدیں، مگر وہ موضوع بدل چکے تھے۔سیاست سے ان کی یہ مایوسی ایک باخبر کی مایوسی تھی۔ کسی تعصب یا کسی خاص وجہ کے باعث ایسا نہیں تھا۔ ہم ایک طویل نشست کے بعد بہت سے موضوعات پر گفتگو کرکے، ان کے خیالات جان کے واپس آ گئے تاہم سچی بات ہے ہمارے ذہن میں ان کا یہ جملہ کھٹکتا رہا کہ اگر کوئی چیز پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ سکتی ہے، تو وہ ہماری سیاست ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

آج ان کی یہ بات اس لئے یاد آئی کہ ہماری سیاست واقعی دیمک بنی ہوئی ہے۔ زوال کا ایک سفر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک عام آدمی بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ پاکستان میں سیاست آزاد نہیں بلکہ مفادات اور نادیدہ قوتوں کے تابع ہے۔ 78سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ قومیں اس میں اپنا وجود منوا لیتی ہیں۔ اپنے نظام کو سیدھا کر لیتی ہیں۔ ادارے مضبوط اور جمہوریت مستحکم ہو جاتی ہے۔ سیاستدان اپنا ذاتی ایجنڈا بھول کر ریاست کا ایجنڈا اپنا لیتے ہیں۔ عوام کا اپنے نظام پر اعتماد قائم ہو جاتا ہے،انتخابات پر انگلیاں نہیں اُٹھتیں۔ شفافیت کو صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں سیاست دان بھی یقینی بناتے ہیں۔ اقتدار کے لئے جھولیاں نہیں پھیلاتے بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ عوامی خدمت ان کا نظریہ ہوتا ہے، جس کے لئے وہ اپنی سیاست کو وقف کر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی خواہش میں اصولوں اور جمہوری اقدار کا سودا نہیں کرتیں۔ ان کے لئے سب سے اہم بات پارلیمنٹ کی مضبوطی اور خودمختاری ہوتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہمارے ہاں موجود ہے یا ماضی میں موجود رہا ہے۔ کیا اس سیاست کو کبھی آمروں اور کبھی سول آمروں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ بھٹو جیسا جمہوری لیڈر بھی اس سیاست کے نرغے میں آ گیا، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اس پر بھی لگے۔ اقتدار چھوڑنے کی روایت اس ملک میں کبھی نہیں پڑ سکی، اقتدار سے نکالنا ہی ایک روایت بن گئی۔ آج ہم اس بات کو روتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہماری آزادی چھین لی ہے۔ حالانکہ آزادی تو ہم خود اپنے ہاتھوں سے گنوائی ہے۔ کوئی ایک دور ایسا بتایا جائے جس میں سیاستدان ہی سیاستدانوں کے خلاف استعمال نہیں ہوتے۔ نصف صدی پہلے کے واقعات دیکھ لیں یا آج کے دونوں میں سرِموفرق نظر نہیں آئے گا۔ ایک جماعت زیرعتاب رہے گی تو دوسری اقتدار کے مزے لوٹے گی۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پاکستان کو کتنا پیچھے لے جا چکا ہے کوئی اس پر بھی غور کرے، جس ملک کی تاریخ یہ رہی ہو کہ سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس کے انتخابات ایک بار بھی غیر متنازعہ نہ ہوتے ہوں اور ہارنے والوں نے جیتنے والوں کے خلاف پہلے دن سے علم بغاوت نہ اٹھایا ہو۔ کیا اس ملک میں کبھی استحکام آ سکتا ہے۔

پاکستان نے دہشتگردوں کے تعاقب میں افغانستان کے اندر بمباری کر کے دہشت گردوں کے اڈے تباہ کر دئیے،ویڈیو تجزیہ ڈاکٹر نوید الٰہی

بعض لوگ شاید آج کے حالات کے تناظر میں قدرت اللہ شہاب کی سیاست کے بارے میں رائے کو غیر متعلقہ قرار دیں۔ وہ یہ استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ آج سیاست رہی ہی کہاں ہے کہ اس پر سارا نزلہ گرایا جائے، اب تو سیاست کے پردے میں کوئی اور ہی بھگوان بولتا ہے۔ بات ان کی بھی غلط نہیں، مگر آج بھی آلہء کار تو سیاستدان ہی بنے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر غیر جمہوری قوتوں کو کندھا پیش کرتے ہیں۔ آج ایک ایک کرکے نیب کے تمام کیسز ختم ہو رہے ہیں۔خود نیب کہہ رہا ہے حضور ہمارے پاس ثبوت نہیں، ملزموں کو بری کر دیا جائے۔ جب ہوا دوسری طر ف تھی تو یہی نیب خونخوار درندہ بنا ہوا تھا اور کیس پر کیس بنا رہا تھا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے درست کہا ہے کہ نیب کا کھیل جاری رہا تو یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ان پر پانچ سال سے ایک کیس چل رہا، یہ کیس صرف نیب اسی صورت واپس لے گا، جب اسے کوئی غیبی اشارہ ملے گا۔ کیا یہ انصاف کا طریقہ ہے۔ کیا سیاستدانوں کو اس پر آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔ اجتماعی آواز، ایسی آواز نہیں کہ جو صرف میرے لئے فائدہ مند ہو، بلکہ سب کے لئے انصاف کی آواز اٹھائے بغیر نیب کے اس امتیازی کردار سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاست جب تک اصولوں کی بجائے ذاتی مفادات کا کھیل رہے گی، اس کا کردار اس دیمک جیسا ہی ہوگا جس کا قدرت اللہ شہاب نے ذکر کیا تھا۔

آسٹریلوی ہم جنس پرست وزیر خارجہ نے اپنی دوست کیساتھ شادی کرلی

QOSHE -         سیاست کی دیمک - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        سیاست کی دیمک

14 0
21.03.2024

اپنی وفات سے چند روز پہلے قدرت اللہ شہاب ملتان آئے، انہوں نے اس وقت کے شعبہ تاریخ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خرم قادر کے گھر یونیورسٹی کالونی میں قیام کیا تھا۔ میں اور سینئر صحافی عبداللطیف اختر مرحوم ان سے رابطہ کرکے ملاقات کے لئے مقررہ وقت پر پہنچے تو ڈاکٹر خرم قادر نے ہماری ان سے ملاقات کرائی۔ یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی۔ اس ملاقات میں بے شمار موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ ان کی خودنوشت شہاب نامہ کا بھی ذکر ہوا جس کے بارے میں انہوں نے بتایا مکمل ہو گئی ہے تاہم وہ چاہتے ہیں ان کی وفات کے بعد شائع ہو۔ ہم نے اس ملاقات میں نوٹ کیا وہ ایک مکمل صوفی کا روپ دھار چکے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ان کے خیالات اگرچہ مایوس کن نہیں تھے تاہم ان میں رجائیت بھی نہیں تھی۔ رائیگانی کے احساس میں لپٹے ہوئے تاثرات کی ایک لامتناہی گفتگو اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ زندگی میں اتنا کچھ کرنے کے باوجود گویا اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے ایک بات تسلسل سے کی تھی کہ ہم اپنی منزل پانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ہم اس راستے کو چھوڑ چکے ہیں جو منزل کی طرف جاتا تھا۔ انہوں نے متعدد بار قائداعظم کا حوالہ دیا جو ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے لیکن جنہیں حالات اور پھر زندگی نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ مجھے ان کا ایک جملہ آج تک یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا اس ملک کو اگر کوئی چیز دیمک کی طرح چاٹ سکتی ہے تو وہ مفادات میں لپٹی ہوئی سیاست ہے۔ جب تک سیاست مفادات کا کھیل رہے گی اور اسے عبادت کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play