چبھتے سوالات، جواب ندارد
نواز شریف نے سوال اٹھایا ہے جواب کم از کم موجودہ حکومت تو نہیں دے سکتی، جو اُن کی اپنی ہی حکومت ہے، اپنی جماعت کے قائد کی حیثیت سے انہوں نے یہ پوچھ کر گویا حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کب تک اضافہ کیا جاتا رہے گا؟ اب یہ ایسا سوال ہے جس کا ٹائم فریم کسی کے پاس نہیں۔ ایک لا متناہی مدت ہے جس کا کوئی سرا بھی نظر نہیں آ رہا۔آسان جواب تو یہ ہو سکتا ہے جب تک ہمارا آئی ایم ایف پر انحصار رہے گا، قیمتیں بڑھانا پڑیں گی،اب اِس سے جڑا دوسرا سوال یہ ہو گا انحصار کب تک رہے گا؟ تو کوئی منچلا جواب دے گا،قیامت تک۔نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی،قومی خزانہ کبھی بھرے گا نہ قرض سے جان چھوٹے گی،ماضی کا رجحان تو یہی بتا رہا ہے، ہر نیا دن قرض میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔قرضوں پر سود ادا کرنے کی سکت بھی ہم میں نہیں،اصل قرض کیسے اتاریں گے،جتنا قرض لیتے ہیں،اُن کا آدھا تو قرض کی واپسی یا سود کی قسط میں چلا جاتا ہے۔باقی کیا بچتا ہے،تو نوکر کی تے نخرہ کی، جیسی صورتحال ہے۔جب حالت یہ ہو کہ پلے نئیں دھیلہ تے کر دی میلہ میلہ، کی کیفیت میں ہم سب مبتلا ہو گئے ہوں تو پھر نظام زندگی چلانے کے لئے قرض دینے والوں کی باتیں اور شرائط تو ماننی پڑتی ہیں۔ابھی تو نواز شریف وزیراعظم نہیں بنے،وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر تو وہ یہ سوال بھی نہیں کر سکتے تھے، جو قائد کی کرسی پر بیٹھ کے کیا ہے۔
پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کی مذمت ........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website