سروس ایکٹ کا نفاذ
ہمارے سرکاری اداروں کی کار کردگی بارے دو آراء نہیں پائی جاتیں ایک رائے اور وہ بھی بڑی مستحکم ہے کہ ہمارے ادارے بالکل فارغ ہیں خاص طور پر ایسے ادارے جو عوامی فلاح و بہوداور خدمات کے لئے مختص کے گئے ہیں جیسے صحت و صفائی، تعلیم، سینی ٹیشن کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے سرکار کروڑوں اربوں روپے عوام کی ایسی ضروریات کے لئے مختص کرتی ہے لیکن بہت سا روپیہ بد عنوانی کی نذر ہو جاتا ہے بچنے والا، اداروں کی بد انتظامی کا شکار ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔ عوام کے مسائل ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ ہم نے ایک عرصے سے اداروں پر نا اہل اہلکاروں کا بوجھ لادنا شروع کر رکھا ہے۔ سیاسی بنیادوں پربھرتی کئے جانے والے افراد کی تعداد بڑھتے بڑھتے اداروں پر نا قابل برداشت ہو چکی ہے۔ کئی ایک قومی ادارے جیسے ریلویز، پی آئی اے، سٹیل ملز، واپڈا و دیگر اپنے ہی بوجھ تلے دب چکے ہیں یہ ادارے کا روباری بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے۔ نفع اندوزی کے لئے قائم کردہ یہ ادارے اپنی زندگی کے لئے حکومت سے اربوں روپے سالانہ کی امداد کے طالب ہو چکے ہیں۔ ان اداروں کے اثاثہ جات دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، اربوں نہیں کھربوں روپے کے اثاثہ جات رکھنے کے باوجود اگر یہ ادارے سرکاری خیرات کے مستحق ہو چکے ہیں تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ سب کچھ اچانک کسی حادثے کے نتیجے میں ہوایاایک عرصہ صرف ہوا؟ وہ کون کون سے عوامل تھے جو ان اداروں بلکہ سرکاری اداروں کی ناکارکر دگی کا باعث بنے۔.
پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں سیاسی جماعتوں پر........© Daily Pakistan (Urdu)
visit website