دکھ سے سکھ تک جانا ممکن نہ ہو تو

گھر بیٹھو آرام سے اور غزلیں سنو

یہ میری اپنی ایک غزل کا شعر ہے جسے آپ پاکستان کے موجودہ حالات میں پاکستانیوں کے لئے ایک مشورہ سمجھ سکتے ہیں۔ بادی النظر میں اس میں مایوسی کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے، مجھ جیسا اُمید پرست (Optimist) بھلا فرسٹریشن کیسے پھیلا سکتا ہے، اسے وقت کی ضرورت کے تحت حقیقت پسندی کہا جا سکتا ہے۔ جدوجہد کی کامیابی نظر نہ آئے تو آرام کا وقت کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ پنجابی میں اسی خیال کو ایسے کہا گیا ہے۔ دَڑوَٹ، دِن کٹ، بھلے دِن آون گے فی الحال میں سیاست کی بات نہیں کرنا چاہ رہا اور معیشت کی مجھے سمجھ نہیں ہے۔ لیکن ایک عام شہری مہنگائی، بے روز گاری، تعلیم اور صحت کی عدم سہولت اور ناقص ماحول سمیت جن مشکلات سے دو چار ہے اس کی مجھے پوری سمجھ ہے۔ کافی لِکھت پڑھت کے بعد کچھ کچھ یہ سمجھ بھی آ گیا ہے کہ ریاست کے اندر جو کچھ بھی ہے اس کے اصل مالک عام شہری ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی اثاثوں کی امانت جن اداروں کے سپرد ہے ان پر فائز اشرافیہ نے اسے کبھی امانت نہیں جانا اسے ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال بھی کیا ہے۔ کبھی کبھی ایسی اشرافیہ بھی جائز ناجائز طریقے سے حکمرانی کرنے آ جاتی ہے جو کہنے کو تو خادم ہوتی ہے لیکن اس کا اصل مشن خدمت کی بجائے اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے۔

موٹرسائیکل لفٹنگ میں ملوث کمر عمر لڑکے گرفتار

ہم ماشاء اللہ کرپشن میں لاثانی ہو چکے ہیں،جب ریاست یا ملک کے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ اس کا بوجھ عام شہری پر پڑ گیا ہے، ایک عام معصوم شہری جو حق حلال طریقے سے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہا ہے، اسے بتایا جاتا ہے کہ تم تو مقروض ہو اور غیر ملکی قرضوں سے وہ دن بدن زیادہ مقروض ہوتا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر مقروض ہونے کا الزام تو لگ جاتا ہے لیکن اس نے خواب میں قرضے کی اتنی رقم کبھی نہیں دیکھی۔ کیا بات ہے؟ قرضہ کہاں سے آتا ہے، کون استعمال کرتا ہے اور اس میں سے ہاتھ کی صفائی کے ذریعے سے کتنا حصہ کس کی جیب میں چلا جاتا ہے ایک معصوم عام شہری کو بالکل معلوم نہیں ہوتا لیکن وہ گھر بیٹھے ہی قرضے کی شکل دیکھے بغیر مقروض ہو جاتا ہے۔

ٹریفک حادثے میں زخمی اداکارہ کی حالت نازک ، وینٹیلیٹر پر منتقل

مالی کرپشن تو پاکستان کے شہریوں کی زندگی کا ایک باقاعدہ حصہ ہے جس کا باقاعدہ ایک نظام ہے۔ اس میں اب خفیہ کوئی بات نہیں رہی، اب کون نہیں جانتا کہ چھوٹے بڑے صنعت کار اور تاجر ناجائز کمائی کا کالا روپیہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیج کر اسے سفید کر کے واپس منگوا لیتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں کھربوں ڈالر کی جو ناجائز کمائی جمع ہے اس میں پاکستانیوں کا بھی خاصہ حصہ ہے۔ عوام پر احسان کر کے انفراسٹرکچر بنتے ہیں اور غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دے کر ان سے ملک سے باہر ہی ”کِک بیک“ وصول کر لیا جاتا ہے۔

شہنشاہ جذبات محمد علی کی آج18ویں برسی

ترقیاتی فنڈ کے استعمال میں کرپشن کا جو نظام یا فارمولا ہے وہ ہر ایک کو معلوم ہے۔ شہری اب اس کا برا بھی نہیں مناتے، وہ اس بات پر ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو کرپشن تو ہوئی لیکن ان کے علاقے میں سڑک تو بن گئی، ٹھیکے دار ٹھیکے کی رقم کو تین حصوں میں بانٹتا ہے۔ ایک حصہ فنڈ فراہم کرنے والے سیاسی عہدیدار کو ملتا ہے، ایک حصہ محکمے کے افسروں کو ملتا ہے، ایک حصہ وہ اپنے پاس رکھتا ہے جس میں سڑک وغیرہ بنانے کے اخراجات کے بعد اس کا ذاتی منافع کا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹھیکے کی کل رقم کا تیسرا حصہ بھی سڑک کی تعمیر پر لگ جائے تو غنیمت سمجھا جائے۔

بجلی 5 روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان

ہماری معاشی بدحالی کے اور بھی سبب ہوں گے لیکن ایک بہت بڑا سبب یہ کرپشن ہے، یہاں میں ایک بات واضح کر دوں ممکن ہو سکتا ہے آپ کو پسند نہ آئے۔ معیشت کو بچانے کے لئے یقیناً اس وقت ملک کو سرمایہ چاہئے جس کی فوری صورت قرضہ ہے۔ اب اگر آئی ایم ایف قرضہ دینے کے لئے جو شرائط لگا رہا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں ایسی اصلاحات یا تبدیلیاں آئیں جس سے ایسی ملکی ترقی ہو کہ اسے قرضے کی رقم واپس مل جائے۔ اس کا مقصد ملک کو کنٹرول کرنا نہیں صرف اپنی وصولی کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن دیکھا جائے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہماری معاشی ترقی کے لئے ہیں کہ نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے ماضی میں اتنی غلطیاں کی ہیں کہ اب معاشی بہتری کے لئے مشکل فیصلوں کے اثرات کو عام شہری برداشت نہیں کر سکتا۔ آئیڈیل صورت تو یہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کریں یا حکومت کا ایک ایسا فنڈ قائم ہو جس میں وہ بغیر سود کے اپنا حصہ ڈالیں اور بہت سی صورتیں ہیں۔ قرضوں سے بچنے کی۔ کرپشن سے نجات تو نظر نہیں آتی۔ لیکن عام شہری کی حکومتی نظام میں شرکت ہو گی تو درست ہونے کا امکان ہے۔ اس کے ووٹوں سے اس کی مرضی کی حکومتیں بنیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے کہ اس کی مرضی چوری نہ ہو اور اس کے سچے اور کھرے نمائندے فیصلہ ساز بنیں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ تب تک…… گھر بیٹھو آرام سے اور غزلیں سنو!

مسقط میں 13 دن سےخراب پی آئی اےکا طیارہ انجن کی تبدیلی کے بعدکراچی پہنچ گیا

QOSHE -        اور غزلیں سنو! - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       اور غزلیں سنو!

26 4
19.03.2024

دکھ سے سکھ تک جانا ممکن نہ ہو تو

گھر بیٹھو آرام سے اور غزلیں سنو

یہ میری اپنی ایک غزل کا شعر ہے جسے آپ پاکستان کے موجودہ حالات میں پاکستانیوں کے لئے ایک مشورہ سمجھ سکتے ہیں۔ بادی النظر میں اس میں مایوسی کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے، مجھ جیسا اُمید پرست (Optimist) بھلا فرسٹریشن کیسے پھیلا سکتا ہے، اسے وقت کی ضرورت کے تحت حقیقت پسندی کہا جا سکتا ہے۔ جدوجہد کی کامیابی نظر نہ آئے تو آرام کا وقت کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ پنجابی میں اسی خیال کو ایسے کہا گیا ہے۔ دَڑوَٹ، دِن کٹ، بھلے دِن آون گے فی الحال میں سیاست کی بات نہیں کرنا چاہ رہا اور معیشت کی مجھے سمجھ نہیں ہے۔ لیکن ایک عام شہری مہنگائی، بے روز گاری، تعلیم اور صحت کی عدم سہولت اور ناقص ماحول سمیت جن مشکلات سے دو چار ہے اس کی مجھے پوری سمجھ ہے۔ کافی لِکھت پڑھت کے بعد کچھ کچھ یہ سمجھ بھی آ گیا ہے کہ ریاست کے اندر جو کچھ بھی ہے اس کے اصل مالک عام شہری ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی اثاثوں کی امانت جن اداروں کے سپرد ہے ان پر فائز اشرافیہ نے اسے کبھی امانت نہیں جانا اسے ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال بھی کیا ہے۔ کبھی کبھی ایسی اشرافیہ بھی جائز ناجائز طریقے سے حکمرانی کرنے آ جاتی ہے جو کہنے کو تو خادم ہوتی ہے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play