پاکستان میں فلم انڈسٹری تباہ یا کہہ سکتے ہیں تقریباً بند ہوچکی ہے مگر ڈرامہ انڈسٹری اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان ٹی وی کے ڈرامے ایک زمانے میں بھارت میں بیحد مقبول تھے اور پاکستان میں تو حالت یہ تھی کہ پی ٹی وی کے بعض ڈرامے جب آیا کرتے تھے تو سڑکیں خالی ہوجاتی تھیں، لیکن آج جس ڈرامے کی بات ہورہی ہے وہ ڈرامہ آج سے دو سال پہلے یعنی مارچ 2022ء میں شروع ہوا اور یہ ڈرامہ اب دو سال بعد جناب آصف علی زرداری کے صدر پاکستان کا حلف اٹھانے کے ساتھ کسی حد تک مکمل ہوگیا ہے کیونکہ جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے تھے وہ حاصل کرلئے گئے ہیں۔ وہ کھیل جو ”عمران خان سے نجات“ کے نام سے شروع ہوا تھا، آج ”قیدی نمبر 804“ کی 31 سالہ سزا اور انکے مخالفین کو مکمل آزادی اور انتہائی احترام کے ساتھ تخت پر بٹھانے سے مکمل ہوگیا ہے۔ وہ لوگ کہ جن کے خلاف عمران خان نے ایک طویل عرصہ جنگ کی اور اسکے بعد انہیں اکھاڑ پھینکا، لفظ اکھاڑ پھینکا شاید کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے مگر مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ برداشت کرنا پڑیگا کیونکہ جو جنگ آج سے 37 سال پہلے عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ کر شروع کی تھی اور جس کا مقصد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ تھا، وہ کسی حد تک یقیناً اس جنگ میں کامیاب رہے۔ اس جنگ کی ابتدائی کامیابی 2013ء میں ملی جب عمران خان کے بقول انکی کچھ نشستیں ان سے چھینی گئیں جن کی واپسی کیلئے عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا اور پھر 2018ء میں ایک ایسے وقت جب عمران خان کی جماعت بظاہر سنگل لارجسٹ پارٹی بننے جا رہی تھی، آر ٹی ایس بیٹھ گیا اور بقول باخبروں کے تحریک انصاف کو سنگل لارجسٹ پارٹی بننے سے روکا گیا تو پرانے تجربہ کاروں نے ایک بیانیہ دیا کہ آر ٹی ایس تو ہماری سیٹیں چھیننے کیلئے بٹھایا گیا تھا۔ بہرحال عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد وہی کیا کہ جس کا انہوں نے اپنی جماعت بناتے وقت اعلان کیا تھا۔ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق احتساب شروع کیا اور پھر انکے سب سے بڑے مخالف جناب نوازشریف صاحب کیلئے غیبی مدد آن پہنچی اور نوازشریف صاحب کو ایک خصوصی طیارے میں محفوظ مقام یعنی ایون فیلڈ ہومز (لندن) پہنچا دیا گیا۔ عمران خان اپنے مزاج کی وجہ سے اپنے ”دوستوں“ کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔

شہبازشریف کی سعودی ولی عہد کو دورہ پاکستان کی دعوت ، جواب کیا ملا؟ جانئے

عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ احتساب کریں گے لیکن اس احتساب کی ”قیمت“ کیا ہوگی، اسکا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ عمران خان نے اپنے انصاف اور احتساب کے مشن کیلئے اپنی اور اپنی پارٹی کی قربانی دیدی۔ ریاست کے ”اصل حکمرانوں“ کو یہ جلد ہی نظر آگیا تھا کہ ایک اور ایسا حکمران تخت پر آگیا ہے کہ جس پر وہ زیادہ عرصہ کنٹرول نہیں کر پائیں گے لہٰذا ”عمران سے نجات“ کے آپریشن پر عملدرآمد شروع ہوا، ایک بار پھر پیسوں کا استعمال ہوا، لوٹے خریدے گئے اور اقتدار کے ساتھی باغی ہوگئے۔ وہ جو اقتدار میں اپنا حصہ وصول کررہے تھے انہیں زیادہ حصے کی یقین دہانی کر کے توڑ لیا گیا، پھر ایک رات عدالتیں کھل گئیں، قومی اسمبلی کے اندر رات 12 بجے سے پہلے پہلے عمران خان سے نجات کا مشن مکمل کر لیا گیا۔ اس مشن کی کامیابی سے لوگ سمجھے کہ شاید اب عمران خان ”سبق“ سیکھ لیں گے، مگر عمران خان نے سبق نہیں سیکھا، وہ جاتے جاتے اسمبلی خالی کر گئے، لیکن انکا یہ حربہ کام نہ آیا، خالی سیٹوں سے ہی کام چلایا گیا اور راجہ ریاض جیسے لوٹوں کو اکٹھا کر کے ایک خودساختہ اپوزیشن تخلیق کی گئی اور نظام چلتا رہا۔ عمران نے یہ چال ناکام ہونے پر ایک اور قدم اٹھایا جو بعد میں غلطی ہی کہلایا۔ انہوں نے اپنی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں ختم کردیں، سمجھداروں نے بہت سمجھایا کہ ریاست ”اپنا آپ منوانے“ پر تلی ہوئی ہے، اپنی پناہ گاہیں ختم نہ کریں، مگر عمران کا آئین پر اعتماد انہیں لے ڈوبا۔ 90 روز میں الیکشن بھولی بسری داستان ہوگئے، نگرانوں نے وہ کچھ کیا کہ جو کبھی دیکھا نہ سنا، وہ جن کا کام صرف 90 دن کے اندر الیکشن کراکے رخصت ہونا تھا، وہ ایک ایک سال تخت پر براجمان رہے۔ جو دل چاہا کیا اور پھر الیکشن سے پہلے عمران خان کو مختلف مقدمات میں 31 سال کی سزا سنائی گئی، بلے کا نشان بھی چھین لیا گیا، لیکن 8 فروری کو وہ ہوا جس کا ”انہوں“ نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ نوجوان اور خواتین جن کو عمران نے ایک ترقی یافتہ، محفوظ اور خوشحال پاکستان کے خواب دکھائے تھے، گھروں سے نکلے اور انہوں نے ”بکسے“ بھر دئیے، ان بھرے بکسوں کو کیسے اُلٹایا گیا، اسے بار بار لکھنے اور الفاظ ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

مخصوص نشستیں نہ ملنے کا ذمہ دار کون؟ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں اختلافات شدت اختیار کرگئے

ہوا وہی جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ فارم 45 پر جیتنے والے فارم 47 سے ہار گئے۔ رہی سہی کسر مخصوص نشستیں بھی چھین کر پوری کردی گئی اور پھر ادھورے ایوان میں سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پھر انہی ادھورے ایوانوں سے صدر مملکت کا چناؤ بھی کرلیا گیا۔ یہ کیا ہورہا ہے، کیسے ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے؟ اسکا جواب آنے والے وقت میں یقیناً سامنے آجائیگا لیکن اس وقت تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈرامہ جس کے 12 نہیں درجنوں ایکٹ تھے، مکمل ہوچکا ہے۔ جناب آصف علی زرداری سندھ اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں بنا چکے ہیں، پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) ”آگئی“ ہے۔ سینٹ کے انتخابات بھی سر پر ہیں، کوشش کی جائیگی کہ تحریک انصاف کو کم از کم سیٹیں ملیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے، یہ کونسی جمہوریت ہے، اسکے اصول کیا ہیں، اس کے ضابطے کیا ہیں، اسکے مقاصد کیا ہیں؟ جمہوریت کا سرچشمہ عوام کو کہنے والی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی بھی بھول چکی ہے کہ عوام ہی جمہوریت کا سرچشمہ ہیں۔ عوام بھی پریشان ہیں کہ ہم چاہتے کیا ہیں ملتا کیا ہے، ایک ڈرامہ ہے کہ 77 سال سے جاری ہے، ختم ہونے میں نہیں آرہا، دنیا میں جمہوریت ہر مشکل کا حل بتائی جاتی ہے، لیکن یہ تو پاکستانی جمہوریت ہے۔ 25 کروڑ عوام کی جمہوریت، وہ 25 کروڑ عوام کیا چاہتے ہیں یہ ابھی انہیں طے کرنا ہے اور خدا نہ کرے خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے۔

شہبازشریف کے بھارت کیساتھ تعلقات معمول پر لانے کیلئے اقدامات شروع؟ جرمن میڈیا نے دعویٰ کردیا

QOSHE -    آخری ایکٹ…… ڈرامہ مکمل - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   آخری ایکٹ…… ڈرامہ مکمل

6 0
16.03.2024

پاکستان میں فلم انڈسٹری تباہ یا کہہ سکتے ہیں تقریباً بند ہوچکی ہے مگر ڈرامہ انڈسٹری اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان ٹی وی کے ڈرامے ایک زمانے میں بھارت میں بیحد مقبول تھے اور پاکستان میں تو حالت یہ تھی کہ پی ٹی وی کے بعض ڈرامے جب آیا کرتے تھے تو سڑکیں خالی ہوجاتی تھیں، لیکن آج جس ڈرامے کی بات ہورہی ہے وہ ڈرامہ آج سے دو سال پہلے یعنی مارچ 2022ء میں شروع ہوا اور یہ ڈرامہ اب دو سال بعد جناب آصف علی زرداری کے صدر پاکستان کا حلف اٹھانے کے ساتھ کسی حد تک مکمل ہوگیا ہے کیونکہ جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے تھے وہ حاصل کرلئے گئے ہیں۔ وہ کھیل جو ”عمران خان سے نجات“ کے نام سے شروع ہوا تھا، آج ”قیدی نمبر 804“ کی 31 سالہ سزا اور انکے مخالفین کو مکمل آزادی اور انتہائی احترام کے ساتھ تخت پر بٹھانے سے مکمل ہوگیا ہے۔ وہ لوگ کہ جن کے خلاف عمران خان نے ایک طویل عرصہ جنگ کی اور اسکے بعد انہیں اکھاڑ پھینکا، لفظ اکھاڑ پھینکا شاید کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے مگر مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ برداشت کرنا پڑیگا کیونکہ جو جنگ آج سے 37 سال پہلے عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ کر شروع کی تھی اور جس کا مقصد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ تھا، وہ کسی حد تک یقیناً اس جنگ میں کامیاب رہے۔ اس جنگ کی ابتدائی کامیابی 2013ء میں ملی جب عمران خان کے بقول انکی کچھ نشستیں ان سے چھینی گئیں جن کی واپسی کیلئے عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا اور پھر 2018ء میں ایک ایسے وقت جب عمران خان کی جماعت بظاہر سنگل لارجسٹ پارٹی بننے جا رہی تھی، آر ٹی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play