وزیراعظم شہباز شریف سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی ملاقات کے بعد ایک بیانیہ سامنے آیا ہے، سیاست اپنی اپنی ریاست سانجھی۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے اسے بیان کیا ہے اور بظاہر یوں لگ رہا ہے جیسے بات مفاہمت کی طرف جا رہی ہے۔کم از کم اتنی سی مفاہمت کہ ریاست چلنے دی جائے،بھلے سیاست جاری رہے۔میں نے جب سے یہ شاعرانہ مصرعہ کی طرح کا بیانیہ پڑھا ہے اس سوچ میں گم ہوں کیا سیاست کو کسی اصول قاعدے کے تابع رکھے بغیر یہ ممکن ہے کہ ریاست کے سانجھے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔یہاں تو ساری خرابیاں ہی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ سیاست نے سارا گند ڈال رکھا ہے۔سوال یہ ہے ریاست اگر سانجھی ہے تو سیاست اُس کے دائرے ہی میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ریاست کا دائرہ کیا ہوتا ہے، اُس کا آئین اور عوام،اگر ان دونوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو ریاست مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔یہ تو سوال ہے ہی نہیں کہ سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں نے ریاست کو سانجھا نہیں سمجھا ہوا۔وہ اس بنیادی نکتے پر تو متفق ہیں کہ ریاست ہم سب کی ہے اسی لئے اپنا اپنا حصہ لینے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔اصل مسئلہ سیاست کے ساتھ ہے۔اپنی اپنی سیاست کے اصول کو اگر مان لیا جائے تو وہی انتشار پھیلتا ہے جس کا ہم اِس وقت شکار ہیں۔سیاسی جماعتوں کے منشور علیحدہ علیحدہ ہو سکتے ہیں،مگر یہ نہیں ہو سکتا وہ سیاست کے بنیادی اصولوں کو ہی پامال کر دیں،دنیا بھر میں جہاں جمہوریت ہے وہاں سیاست بھی ہے،سیاست بے لگام نہیں ہوتی،اصولوں کے تابع ہوتی ہے۔اِس میں اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ملک کے آئین کو تسلیم کرنا ہے،اُس کے اندر رہ کر سیاست کرنی ہے۔ماحول کو بیان بازی سے گدلا نہیں کرنا کہ ایک دوسرے کی شکلیں ہی پہچانی نہ جائیں۔ہماری اسمبلیوں میں جو کچھ ہوتا ہے، کیا اُسے بھی اپنی اپنی سیاست کا لبادہ اوڑھا کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے، گالم گلوچ، دھکم پیل حتیٰ کہ مار دھاڑ کس سیاسی زمرے میں آتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک گمراہ کن نعرہ ہے کہ سیاست اپنی اپنی ہو سکتی۔ پروگرام اور منشور اپنا اپنا ہو سکتا ہے، سیاست بھی ایک سانجھی چیز ہے، جس میں بہت سی مشترکہ باتوں کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔یہ ایک اچھی پیشرفت ہوئی ہے، جس میں وفاق کی ایک اکائی کو تنہائی سے نکالا گیا ہے۔کہا یہی جا رہا تھا کہ خیبرپختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تک قائم نہیں ہو سکے گی،کیونکہ تناؤ بہت زیادہ ہے۔علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم اور صدرِ مملکت کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی۔وزیراعظم پشاور کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے اُن کا استقبال بھی نہیں کیا تھا۔ ماضی بعید میں بھی ایسے واقعات پنجاب میں ہوئے تھے اور اُن کی تلخ یادیں ایک عرصے تک پیچھا کرتی رہی تھیں۔یہ چیزیں سیاست کے زمرے میں نہیں آتیں،بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کہی جا سکتی ہیں اس لئے اچھا ہوا یہ برف پگھلی اور ریاست کے معاملات آگے بڑھے۔

بیوی کو قتل کرکے بیڈروم میں دفنانے کے بعد مظلوم بن کر سالی سے شادی کرنے والے شخص کا 38 سال بعد راز فاش ، گرفتار کرلیا گیا

جس قت علی امین گنڈا پور وزیراعظم شہباز شریف سے اسلام آباد میں ملاقات کر رہے تھے اُس وقت اڈیالہ جیل میں عمران خان کے خلاف ایک کیس کی سماعت جاری تھی اس موقع پر عمران خان کو اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا۔انہوں نے موجودہ نظام کو جھوٹ کی پیداوار قرار دیا اور یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجائی کہ مہنگائی مزید بڑھنے والی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سری لنکا جیسی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود عوام نے آٹھ فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا،مگر اُن کے ووٹ کی توہین کر کے مایوسی پھیلائی گئی۔اب یہ ہے وہ اصل بنیاد جس سے اختلاف جنم لے رہے ہیں اب اگر اسے اپنی اپنی سیاست قرار دے کر نظر انداز کیا جاتا ہے اور خلیج کو پاٹنے کی کوشش نہیں کی جاتی تو سانجھی ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ریاست افراد کے اعمال پر استوار ہوتی ہے ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی اُس کے دست بازو ہوتی ہیں، انہیں نکال دیا جائے تو انتشار رہی باقی رہ جاتا ہے۔ سیاست کو اگر اپنی اپنی رہنے بھی دیا جائے تو وہ کسی دوسرے سیارے پر تو نہیں ہو گی،اسی پاکستان میں رہ کر کی جائے گی۔اس نظریے کو مان لیا جائے تو بھی سوائے انارکی کے اور کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سیاست ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا نام نہیں،بلکہ قومی مفاد میں متحد ہو کر آگے بڑھنے کا عمل ہے،بلکہ یہ کنا مناسب ہو گا ریاست اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔سیاسی انتشار ریاست کی سالمیت کو متاثر کرتا ہے اور ریاست کی سیاست سے دوری اُسے بے توقیر کر دیتی ہے، نت نئے نظریے دینے کی قطعاً ضرورت نہیں،جو نظریات دنیائے عالم میں طے ہو چکے ہیں اور جن پر ہمارے اسلاف بھی چلتے رہے ہیں انہیں روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے۔

ٹائی ٹینک 2 بحری جہاز تیار کرنے کا اعلان

اِس وقت ملک میں ایک واضح تقسیم موجود ہے اس تقسیم کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سیاست چونکہ اپنی اپنی ہے اس لئے سیاسی انتشار اور تقسیم میں کوئی حرج نہیں۔کیا اس انداز سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟طاقت اور وہ بھی ریاستی طاقت کے زور پر آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں،مگر اسے دنیا کے مہذب ممالک میں کوئی اچھا راستہ قرار نہیں دیا جاتا،نہ ہی علم سیاست میں اس کی کوئی اچھی تعبیر ملتی ہے۔سیاست افہام و تفہیم کا نام ہے۔ ریاست اگر سانجھی ہے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا جو اقتدار میں ہوں وہ اپنی من مانی کریں۔اپوزیشن کا بھی ریاست چلانے میں اتنا ہی کردار ہے، جتنا کہ حزبِ اقتدار کا۔ دونوں کو ایک ہی گاڑی کے پہیے کہا گیا ہے اِس لئے تقسیم کی بجائے اتفاق پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے! ابھی تک اِس حوالے سے قدم نہیں اٹھایا گیا۔واضح طور پر نظر آ رہا ہے ایک سیاسی جماعت کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسمبلیوں کے اندر بھی ایک تناؤ کی فضاء ہے۔قومی اسمبلی میں حالت یہ ہو گئی ہے کہ حکومت کوئی قرارداد منظور کرانے کے لئے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی پر دروازے بند کر دیتی ہے۔ایسی باتیں تو پہلے کبھی دیکھی نہ سنیں، کیا انہیں بھی اپنی اپنی سیاست کے نظریے میں شمار کیا جا سکتا ہے؟ اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد برف تھوڑا پگھلی ہے تو اب مزید آگے بڑھنا چاہئے،بند دروازے کھولنے چاہئیں اور واقعتا عملی اقدامات سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ریاست سب کی سانجھی ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی روضہ رسول پر حاضری

QOSHE -             سانجھی ریاست اور بند دروازے - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

            سانجھی ریاست اور بند دروازے

12 0
15.03.2024

وزیراعظم شہباز شریف سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی ملاقات کے بعد ایک بیانیہ سامنے آیا ہے، سیاست اپنی اپنی ریاست سانجھی۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے اسے بیان کیا ہے اور بظاہر یوں لگ رہا ہے جیسے بات مفاہمت کی طرف جا رہی ہے۔کم از کم اتنی سی مفاہمت کہ ریاست چلنے دی جائے،بھلے سیاست جاری رہے۔میں نے جب سے یہ شاعرانہ مصرعہ کی طرح کا بیانیہ پڑھا ہے اس سوچ میں گم ہوں کیا سیاست کو کسی اصول قاعدے کے تابع رکھے بغیر یہ ممکن ہے کہ ریاست کے سانجھے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔یہاں تو ساری خرابیاں ہی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ سیاست نے سارا گند ڈال رکھا ہے۔سوال یہ ہے ریاست اگر سانجھی ہے تو سیاست اُس کے دائرے ہی میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ریاست کا دائرہ کیا ہوتا ہے، اُس کا آئین اور عوام،اگر ان دونوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو ریاست مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔یہ تو سوال ہے ہی نہیں کہ سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں نے ریاست کو سانجھا نہیں سمجھا ہوا۔وہ اس بنیادی نکتے پر تو متفق ہیں کہ ریاست ہم سب کی ہے اسی لئے اپنا اپنا حصہ لینے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔اصل مسئلہ سیاست کے ساتھ ہے۔اپنی اپنی سیاست کے اصول کو اگر مان لیا جائے تو وہی انتشار پھیلتا ہے جس کا ہم اِس وقت شکار ہیں۔سیاسی جماعتوں کے منشور علیحدہ علیحدہ ہو سکتے ہیں،مگر یہ نہیں ہو سکتا وہ سیاست کے بنیادی اصولوں کو ہی پامال کر دیں،دنیا بھر میں جہاں جمہوریت ہے وہاں سیاست بھی ہے،سیاست بے لگام نہیں ہوتی،اصولوں کے تابع ہوتی ہے۔اِس میں اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ملک کے آئین کو تسلیم........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play