پپو یار تنگ نہ کر
انور مسعودصاحب کی ایک پنجابی نظم کے کچھ اشعار ہیں۔
جی کردا سی ووٹاں پائیے
مارشل لا توں جان چُھڈائیے
ووٹاں شوٹاں پا بَیٹھے آں
ایہ جمہُوری رَولا رَپّا
کِنّے سال ہنڈا بَیٹھے آں
سوچی پئے آں ہن کِیہ کرئیے
سودا کوئی پُجدا ناہیں
کوئی رَستا سُجھدا ناہیں
رَستے دے وِچ آ بیٹھے آں
سوچی پئے آں ہُن کِیہ کرئیے
ہمارے ملک میں یادش بخیر مارشل لا تو اب کئی سالوں سے نافذ نہیں،ایک کے بعد دوسرا جمہوری دور چل رہا ہے مگر بے یقینی کی کیفیت کیوں ختم نہیں ہو رہی،کیوں صورت حال مارشل لاؤں جیسی ہی لگتی ہے،ہم پاکستانی خاصے عرصے سے یہ تقاضا کر رہے تھے کہ ملک میں جلد از جلد عام انتخابات منعقد کیے جانا چاہئیں تاکہ جو غیر یقینی فضا قائم ہے اس کا خاتمہ ہو،بے یقینی کی دھند چَھٹ جائے مہینوں سے طاری جمود ٹوٹ جائے اور ملک کو آگے بڑھنے کی کوئی سمت مل سکے۔ تاخیر سے ہی سہی اور آئینی پیرامیٹرز کے اندر نہ سہی لیکن آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات ہو گئے اور آج جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ الیکشن کو پورا ایک مہینہ ہو چکا ہے لیکن وہ جو غیر یقینی والی صورت حال ہے وہ تو اب تک برقرار ہے تو پھر ووٹاں شوٹاں پانے کا کیا فائدہ ہوا، ذہن میں یہ سوچ ابھرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہر طرف احتجاج ہو رہا ہے پارلیمنٹ کے اندر احتجاج ہو رہا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر بھی احتجاج ہو رہا ہے، جو الیکشن جیتے ہیں وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں اور وہ جو الیکشن نہیں جیت سکے وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں جو حکومت بنا چکے ہیں وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں اور جو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں وہ بھی احتجاج کناں ہیں اور........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website