وطن ِ عزیز میں تبدیلی صرف اتنی آتی ہے کہ بعض حکومتی شخصیات تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر دیتی ہیں،اب تک چار شخصیات جن میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، وفاقی وزراء، عبدالعلیم اور محسن نقوی نے تنخواہ کے بغیر کام کرنے کا اعلان کیا ہے،کل شیدے ریڑھی والے نے یہ خبر سنی تو پوچھا بابو جی اس کا عوام کو بھی کچھ فائدہ ہو گا۔ کیا یہ بچنے والی تنخواہیں عوام میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ کیا واقعی ان شخصیات کی تنخواہیں اتنی ہوتی ہیں کہ وہ اگر چھوڑ دیں تو ملک میں تبدیلی یا خوشحالی آ سکتی ہے؟ اب اس اللہ کے بندے کو میں کیا جواب دیتا کیسے مطمئن کرتا، ہمارا میڈیا بھی ایسی خبروں کو اتنا بڑھا چڑھا کے پیش کرتا ہے کہ عوام اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اب حالات بہتر ہو جائیں گے۔اگر عوام کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان حکومتی شخصیات کے پروٹوکول پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں اُن کا ایک دورہ قومی خزانے کو کتنے میں پڑتا ہے تو شاید وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں۔ چند لاکھ تنخواہوں کو چھوڑ کر حاتم طائی کی قبر پر لات تو ماری جا سکتی ہے، بڑا انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہاں ایک بیماری جس کا نام وی وی آئی پی کلچر ہے، بری طرح مسلط ہے۔اِس کا پروٹوکول وائرس قوم کو سالانہ اربوں روپے میں پڑتا ہے،ناروے کا وزیراعظم ہو یا برطانیہ کا۔ وہ ایسے پروٹوکول کے خواب بھی نہیں دیکھ سکسا جیسے ہمارے ہاں ملتا ہے۔ناروے میں وزیراعظم بائیسائیکل پر دفتر آتا ہے، جبکہ برطانیہ میں وزیراعظم کے ساتھ تین یا چار گاڑیاں ہوتی ہیں۔یہاں ایک بڑا قافلہ ساتھ نہ چلے تو دھاک نہیں بیٹھتی۔ کروڑوں روپے کے اخراجات ایک دورے پر اُٹھ جاتے ہیں، جبکہ تنخواہ دو یا تین لاکھ روپیہ ماہانہ ہوتی ہے اُسے چھوڑنے کا اعلان کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش آج سے نہیں سالہا سال سے کی جا رہی ہے۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ محمد خان جونیجو کی طرح سادگی اختیار کرے اور سادگی کا کلچر نافذ کرنے کا حکم بھی دے۔یہاں تو ایک تحصیل کا اسسٹنٹ کمشنر جس کی تنخواہ بمشکل لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہوتی ہے قوم کو ماہانہ ڈیڑھ دو کروڑ میں پڑتا ہے۔اس انفرمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں گھسے پٹے ڈرامے تو کم از کم بند کر دیئے جائیں۔اب عوام ان سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں،آپ کام کر رہے ہیں تو تنخواہ آپ کا حق ہے،بلکہ سچ پوچھیں تو یہی آپ کی حلال کمائی ہے۔اس کمائی کو چھوڑ کر عوام پر احسانِ عظیم کرنے کی روایت اب ازکار رفتہ ہو چکی ہے۔ کچھ کر کے دکھائیں،عوام کی زندگی میں کچھ سکھ کچھ تبدیلی لائیں،یہ وہ کام ہے جس کے لئے حکومتی منصب عطاء کیے جاتے ہیں۔

دوران پرواز طیارے میں فنی خرابی، حادثے میں 50 سے زائد افراد زخمی

عوام ایسی خبروں سے خوش نہیں ہوتے،البتہ یہ خبر سن کر پریشانی ہو جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا وفد پھر پاکستان پہنچ رہا ہے۔نئے وزیر خزانہ جن کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں انہیں کروڑوں روپے کی تنخواہ کے پیکیج پر لایا گیا ہے اور جنہوں نے دوسروں کی طرح یہ بھی نہیں کہا، وہ تنخواہ نہیں لیں گے۔پچھلے دو دن سے بیانات دے رہے ہیں،ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ضروری ہے،وہ اگرچہ نئے وزیر خزانہ ہیں تاہم انہوں نے یہ کوئی نئی بات نہیں کی۔یہ سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں،آئی ایم ایف کو ایسا پیپر بنا کر پیش کیا جاتا ہے،جو پھونک مار کے ہر مشکل کو دور کر دیتا ہے، جبکہ عوام کا تجربہ یہ ہے آئی ایم ایف ایک ڈراؤنا جن ہے جو ہماری معیشت اور خوشیوں کو نگل جاتا ہے۔پچھلے دو سال کے عرصے میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے عوام کا جو حشر کیا گیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔دو وقت کی روٹی بھی کروڑوں عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے۔نئے وزیر خزانہ بھی نئے ٹیکسوں کا بوجھ ملک کے غریبوں پر ہی ڈالیں گے۔آئی ایم ایف بھی مکھی پر مکھی مارنے کا مطالبہ کرتا ہے وہی پٹرول، بجلی گیس اور اشیائے خورد و نوش مہنگی کرنے کا پرانا فارمولا،عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی ظالمانہ پالیسی۔آئی ایم ایف نے آج تک یہ شرط نہیں رکھی، حکومتیں اپنے اخراجات کم کریں۔جب ہماری شخصیات کو یہ احساس ہے کہ قومی خزانے کی حالت ٹھیک نہیں اور وہ اس کی وجہ سے اپنی تنخواہیں تک چھوڑ دیتی ہیں تو پھر اپنے نظام میں سادگی کیوں نہیں لاتیں۔سادگی لا کر اربوں روپے کی بچت کی جا سکتی ہے، مگر یہ کام کوئی نہیں کرتا، پھر مراعات یافتہ طبقوں پر براہ راست ٹیکس لگانے کی پالیسی بھی آئی ایم ایف کی ترجیح ہے اور نہ حکومت کی۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سارا نزلہ غریبوں پر گرایا جاتا ہے۔ نئے وزیر خزانہ کے بارے میں سنا گیا ہے وہ غیر ملکی شہریت کے مالک ہیں، جنہیں اب عجلت میں پاکستان کی شہریت دی گئی ہے۔ کیا وہ مغرب جیسا نظام لانے کی کوشش کریں گے،جہاں ٹیکسوں کا نظام امتیازی اور ظالمانہ نہیں،بلکہ ہر شخص کی آمدنی اور استطاعت کے مطابق ہے۔

بالی ووڈ فلم کی شوٹنگ کے دوران بنائی گئی21دن کی فوٹیج گم گئی

کالم یہاں تک لکھا تھا کہ نظر ٹی وی سکرین پر پڑی، جہاں یہ خبر چل رہی تھی کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور پر اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، انہیں پنجاب آنے سے روک دیا گیا ہے۔دوسری طرف اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے ملنے پر دو ہفتے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے،جس میں عمران خان سے ملاقات پر پابندی بھی شامل ہے۔یہ کیا ہو رہا ہے اور معاملات کو کیسے چلایا جا رہا ہے۔کل کلاں اگر خیبرپختونخوا کی حکومت کسی وفاقی وزیر یا انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے وزیراعظم کے آنے پر یہ کہہ کر پابندی لگا دیتی ہے کہ صوبے میں سکیورٹی کے خدشات ہیں تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔تحریک انصاف نے عمران خان کی جان کو خطرات لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، آئندہ چند دنوں میں اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔اگر ایک قومی سطح کے لیڈر کو جیل میں بھی تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا تو حکومت یہ ذمہ داری کیوں اٹھائے ہوئے ہے۔ اس قسم کی صورتحال سے تو بے چینی اور بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے اس فضاء میں آئی ایم ایف سے کوئی اچھا معاہدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔سیاسی قیادت کی بے بسی ناقابل ِ فہیم ہے۔اقدامات کے بغیر راتوں رات حالات ٹھیک ہو جانے کی خواہش ایک سراب ہے۔ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور اس کے لئے راستہ دینے اور راستہ لینے کی پالیسی اختیار کرنا ہو گی،اس کے بغیر ہم اُس بند گلی سے نہیں نکل سکتے جس میں اس وقت سیاسی طور پر پھنسے ہوئے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -            بند گلی سے کون کالے؟ - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           بند گلی سے کون کالے؟

6 0
14.03.2024

وطن ِ عزیز میں تبدیلی صرف اتنی آتی ہے کہ بعض حکومتی شخصیات تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر دیتی ہیں،اب تک چار شخصیات جن میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، وفاقی وزراء، عبدالعلیم اور محسن نقوی نے تنخواہ کے بغیر کام کرنے کا اعلان کیا ہے،کل شیدے ریڑھی والے نے یہ خبر سنی تو پوچھا بابو جی اس کا عوام کو بھی کچھ فائدہ ہو گا۔ کیا یہ بچنے والی تنخواہیں عوام میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ کیا واقعی ان شخصیات کی تنخواہیں اتنی ہوتی ہیں کہ وہ اگر چھوڑ دیں تو ملک میں تبدیلی یا خوشحالی آ سکتی ہے؟ اب اس اللہ کے بندے کو میں کیا جواب دیتا کیسے مطمئن کرتا، ہمارا میڈیا بھی ایسی خبروں کو اتنا بڑھا چڑھا کے پیش کرتا ہے کہ عوام اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اب حالات بہتر ہو جائیں گے۔اگر عوام کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان حکومتی شخصیات کے پروٹوکول پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں اُن کا ایک دورہ قومی خزانے کو کتنے میں پڑتا ہے تو شاید وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں۔ چند لاکھ تنخواہوں کو چھوڑ کر حاتم طائی کی قبر پر لات تو ماری جا سکتی ہے، بڑا انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہاں ایک بیماری جس کا نام وی وی آئی پی کلچر ہے، بری طرح مسلط ہے۔اِس کا پروٹوکول وائرس قوم کو سالانہ اربوں روپے میں پڑتا ہے،ناروے کا وزیراعظم ہو یا برطانیہ کا۔ وہ ایسے پروٹوکول کے خواب بھی نہیں دیکھ سکسا جیسے ہمارے ہاں ملتا ہے۔ناروے میں وزیراعظم بائیسائیکل پر دفتر آتا ہے، جبکہ برطانیہ میں وزیراعظم کے ساتھ تین یا چار گاڑیاں ہوتی ہیں۔یہاں ایک بڑا قافلہ ساتھ نہ چلے تو دھاک نہیں بیٹھتی۔ کروڑوں روپے کے اخراجات ایک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play