"مورخ اور محقق "
مورخ کے ہاتھ میں تعصب کا زنگ آلود آئینہ تھا اور ریپر میں لپٹے کینہ کے بے شمار چھوٹے بڑے پتھر, جن کی مدد سے وہ جسے چاہتا زخمی یا سنگسار کر سکتا تھا.دوسری طرف محقق کے ہاتھ میں نصابی چھلنی تھی وہ چھانتا بھی تو کیا اسے تو خبر ہی نہ تھی کہ اس کے ہاتھ میں کنکر ہیں یا ہیرے.مورخ اور محقق دونوں کے پاس بناریا کی سی ریاضت سرے سے ناپید تھی جو وہ صبح سے شام تک اورکئی زمانوں تک ریت چھان کر سونے کے ذرات جمع کرتے اور 'سچے گہنے تخلیق کرتے جن کی چمک اگر صدیوں نہیں تو سالہا سال تک ہی نظر کو خیرہ رکھ پاتی.
لاہور میں 9 مئی کے واقعات میں گرفتار امریکی شہری صبوحی انعام رہائی کے بعد امریکہ پہنچ گئیںسونا چاندی تو کیا انھیں تو لوہے کی وہ کیل تک نہ مل پائی جس سے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی نعل کو ٹانکا لگایا جا سکتا.تہذیب حاضر کے ہاتھ میں ہزارہا کرشمے تھے مگر محقق اور مورخ دونوں کی آنکھوں پر حکومت کے اندھے مشیران کے تجویز کردہ دبیز پردے لٹک رہے تھے.جن سے آنکھیں چندھیا کر بھی ان کو دھندلا دکھائی دیتا تھا. انھیں تاکید تھی کہ جو عبارت انھیں........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website