امدادی پیکج اور ہوشربا مہنگائی
آج کل دو قسم کی خبریں تواتر سے پڑھنے کو مل رہی ہیں ایک وہ جو حکومتوں کے رمضان پیکج کے حوالے سے ہیں، جن میں اربوں روپے کی سبسڈی کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گویا مہنگائی کو شکست دینے کے لئے کمر کس لی ہے۔ دوسری خبریں وہ ہیں جن میں چیختی، چنگاڑتی سرخیوں کے ذریعے یہ بتایا جا رہا ہے کہ ماہ رمضان کے آتے ہی اشیائے خورو نوش خصوصاً پھلوں اور سبزیوں کو آگ لگ گئی ہے اور راتوں رات ان کی قیمتیں دوگنا سے بھی زیادہ کر دی گئی ہیں۔ خبروں میں یہ تڑکا بھی لگایا جاتا ہے کہ حکومتیں مہنگائی مافیا کو لگام ڈالنے میں ناکام ہو گئی ہیں اور عوام ان کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ دو طرفی فارمولا برسوں سے دیکھا جا رہا ہے اور رمضان آتا ہے، عوام کی جیبیں خالی ہو جاتی ہیں، نہ اربوں روپے کے پیکج کا پتہ چلتا ہے کہاں گیا اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے حکومت اور انتظامیہ کہاں چلی گئی ہیں کہ قیمتوں کو پر لگانے والے آزاد اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے حکومتوں کو رمضان پیکج لانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ کیا باقی دنوں میں عوام کو کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوتی، کیا عام دنوں میں ان کی ضرورتیں ختم ہو جاتی ہیں؟ ان کے لئے حالات تو ہمیشہ ہی ایک سے رہتے ہیں پھر صرف ماہ رمضان میں اس رعایتی پیکج کا ڈرامہ کیوں رچایا جاتا ہے کسی نے کیا خوب بات کی ہے، حکومت نے 6 ارب روپے کا رمضان پیکج دیا تو دوسری طرف بجلی کی قیمت بڑھا کے عوام پر 67 ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا۔ کیا دس کلو آٹے کا تھیلہ کھانے والا غریب گھرانہ اپنے بل میں ایک........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website