دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ منتخب ہو نے کے بعد آپ نے خود فرمایا ہے کہ یہ عہدہ کانٹوں کی سیج ہے کیونکہ اس لمحے پاکستان کے تمام محکمے جن میں بجلی پیدا کرنے والے، پٹرول خریدنے اور سرکاری اداروں کو فروخت کرنے والے ادارے، سوئی گیس کے محکمے، پی آئی اے، سٹیل مل سمیت جتنے بھی ادارے حکومت کے کنٹرول میں ہیں وہ سب کے سب ہزاروں ارب روپے کے مقروض ہیں خود حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ بھی قرض کی رقم سے چل رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ حقائق ہیں جن کو ہمیں نہ صرف آنکھ کھول کر دیکھنا ہو گا بلکہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی اس اندھی دلدل سے باہر نکلنے کی کوئی نہ کوئی سبیل بھی کرنی ہو گی۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں بتاتا چلوں پچھلے سال قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بہت دکھی لہجے میں کہا تھا اس وقت جبکہ ہم سر تک قرضوں میں ڈوب چکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، ملکی برآمدت اپنا وجود کھو چکی ہیں پھر بھی ہمیں اپنی غریب اور بے بس عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کی رقم میں سے 800ارب مفت میں ہر سال وفاقی حکومت کے پنشنروں کو بطور پنشن ادا کرنے پڑرہے ہیں جبکہ چاروں صوبائی محکموں کے پنشنروں کو بھی اس سے بھی کہیں زیادہ رقم عوام کے ٹیکسوں سے آنکھیں بند کر کے ادا کی جا رہی ہے۔

منڈی بہاؤالدین کی بھینس نے 24 گھنٹوں میں37 کلو دودھ دےکر عالمی ریکارڈ قائم کردیا

میں نے ایک ریٹائر دوست سے پوچھا کہ آپ کو کتنی پنشن ملتی ہے اس نے بتایا صرف ڈیڑھ لاکھ ماہانہ،ساتھ ہی اس نے کہا دعا کریں حکومت اس پنشن میں دس پندرہ فی صد مزید فیصد اضافہ کر دے۔اپنے دوست کی بات سن کر میں حیران رہ گیا کہ میں بھی بنک آف پنجاب میں بیس سال ملازمت کرکے 2014ء میں ریٹائر ہوا ہوں حالانکہ بنک حکومت پنجاب کا ہے لیکن مجھے ایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی۔ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچتے ہی بیماریوں کی یلغار اور ادویات کا ماہانہ خرچ ہزاروں میں پہنچ چکا ہے۔میں حیران تھا کہ ایک جانب لوگ سونے کے چمچے سے کھا رہے ہیں اور دوسری جانب 80فیصد لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھکاریوں کا روپ دھا ر لیتے ہیں۔بجلی اور گیس کے محکموں کے ریٹائر افسروں اور ملازمین کو کروڑوں روپوں کی ہر مہینے مفت بجلی اور گیس فراہم کی جارہی ہے۔ تاحیات میڈیکل سہولتیں اس کے علاوہ ہیں۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ انہی دنوں سوئی گیس کے ایم ڈی کی 75 لاکھ روپے تنخواہ کا خوب چرچا تھا۔تنخواہ کے علاوہ وہ دیگر مراعات کیا لیتے ہوں گے وہ اس سے بھی ڈبل ہوں گی۔ صرف ایک نہیں تمام سرکاری اداروں، ججوں،جرنیلوں اور سرکاری اور غیر سرکاری افسر لاکھوں روپے تنخواہ کے ساتھ ساتھ مفت بجلی گیس ہزاروں لیٹر پٹرول، ڈرائیور اور موبائل کال بھی غریب عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں سے لے کر زندگی خوب انجوائے کررہے ہیں یہ بندر بانٹ نہیں تو اور کیا ہے۔جناب وزیراعظم میری نظر میں پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ یہی وہ غیر منصفانہ اقدامات ہیں جن کو فوری طور پر اگر ختم کرکے ہر سطح پر پرائیویٹ ملازمین کی طرح صرف تنخواہ پر گزارا کرنا پڑے تو قومی خزانے کا آدھا بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ آج ہی اراکین پارلیمنٹ سمیت تمام سرکاری غیر سرکاری پبلک سیکٹر کے تمام اداروں کے افسروں اور ملازمین کی سوائے تنخواہ کے تمام مراعات اگر ختم کردی جائیں تو یہی مالی وسائل قومی ترقی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں،جس افسر کو گاڑی پر سوار ہونے کا شوق ہے وہ اپنی جیب سے گاڑی اور پٹرول خود خرید ے۔

15طلبہ کو اسلحے کے زور پر اغواکرلیاگیا

بجلی گیس کا بل اگر ایک کلرک اور دوکاندار اپنی جیب سے ادا کرتا ہے تو پاکستانی افسر سرکاری خزانے سے یہ رقم کیوں وصول کرتے ہیں۔ بنکوں کے سربراہان اور جنرل منیجران کی تنخواہ اور مراعات کو بھی ایک سطح پر محدود رکھا جائے تو قوم کے آدھے غم ختم ہوسکتے ہیں۔آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے مطابق پرانے افسران اور ملازمین کی پنشن مکمل بند کر دی جائے اور نئے ملازمین کی تنخواہ سے پنشن کی رقم کی کٹوتی کی جائے۔ پہلی مرتبہ آئی ایم ایف نے اچھا مشورہ دیا ہے۔ دوسرا مشورہ وزرا کی تعداد کم رکھی جائے اور تمام سرکاری محکمے اور اداروں پر افسران کا بوجھ کم سے کم کیا جائے۔جو نہ صرف قومی خزانے بوجھ ہیں،بلکہ ان کی حفاظت کے لیے ہزاروں ایلیٹ فورس کے لوگ مقرر ہیں وہ جہاں بھی جاتے ہیں تین چار ایلیٹ فورس سے بھری ہوئی گاڑیاں ساتھ دوڑتی ہیں اگرسرکاری افسران کی تعداد کم رکھی جائے تو یہی ایلیٹ فورس عوام کے تحفظ کے لیے موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔میں نے عوامی جمہوریہ چین کی ایک ویڈیو دیکھی تھی وہاں بلند و بالا پہا ڑوں پر ہوا سے بجلی پیداکرنے والے آلات نصب ہیں جو ہر روزہزاروں میگاواٹ پیدا کرتے ہیں۔ پہاڑ تو پاکستان میں بھی شمار ہیں پھرکیوں نہیں ان پہاڑوں پر ہوا سے بجلی کرنے کے آلات لگائے جائیں اور یہی غریب عوام مفت فراہم کی جائے۔ مہنگی بجلی پیدا کرنے والے یونٹ بندکرکے ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کی جائے تو بجلی ہر غریب شخص کی رسائی میں پہنچ سکتی۔ پاکستانی سمندری حدود میں جتنے جزائر بھی غیر آباد ہیں۔ان کے حوالے سے میں ایک ویڈیو دیکھی کہ یو اے ای کی حکومت ان میں دو تین سمندری جزائر 50ارب ڈالر کے عوض خریدنا چاہتے تھے لیکن پی پی پی حکومت نے انکار کردیا تھا اگر آپ اب بھی دوبئی کے حکمرانوں سے بات کریں تو وہ سمندری جزائر تمام غیرملکی قرضے اتارسکتے ہیں۔پچھلے سال یہ خوشخبری ملی تھی بلکہ میں نے ویڈیو میں خود دیکھا تھا کہ لکی مروت، وزیرستان، گوجرخان اور رحیم یار خاں میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

پی ایس ایل 9،’پلے آف مرحلے‘ کیلئے ٹیمیں فائنل ہو گئیں

پھر پتہ نہیں چلاکہ وہاں سے نکلنے والا پٹرول اور گیس کہاں جارہی ہے۔ گیس نہ ملنے کی وجہ سے سردیاں پاکستانی قوم کے لیے عذاب کی شکل دھار لیتی ہیں۔یہ بھی شنید تھی گلگت بلتستان کے علاقے میں ایسے قیمتی اور نایاب پتھر دریافت ہوئے ہیں جن کو بین الاقومی مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو پاکستان خوشحال ترین ممالک میں شمار ہو سکتا ہے۔وزیراعظم بنانے کے لیے ووٹ آپ کو اس ملک کی غریب عوام نے دیئے ہیں۔خدارا آئی ایم ایف سے مزید 8ڈالر بطور قرض حاصل کرنے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی ہوشربا مہنگائی کی شکل میں عوام کو کند چھری سے ذبح نہ کردیجئے گا،بلکہ پنشن کے 800 ارب کی ادائیگی ختم کر یں اور تمام سرکاری محکموں، اراکین پارلیمنٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وزیراعظم ہاوس اورایوان صدر میں مفت بجلی گیس، پٹرول کی روایت کو یکسر ختم کرکے جدید پاکستان اور غریب پرور پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ اپنی تمام توجہ معدنی دولت حاصل کرنے پر مرکوز کردیں۔ تیل،گیس اور دیگر معدنی دولت تلاش کرنے والی مشہور بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستان آنے کی دعوت دیں،ایک اور بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ تمام سرکاری اور پرائیویٹ ادارے اپنے ملازمین کی دوران ملازمت گروپ انشورنس کرتے ہیں۔ ملازمین ریٹائرہو جاتے ہیں تو گویا ان پر معاشی موت واقع ہو جاتی ہے اس لیے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کریں کہ پچھلے پچیس سال سے جتنے بھی افسر اور ملازمین ریٹائر ہوئے ہیں انشورنس کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان تمام ریٹائر ملازمین کی گروپ انشورنس کی فوری طور پر ادائیگی کریں جن کی ماہانہ قسطیں ملازمین کی تنخواہوں سے منہا کی جاتی رہی ہیں۔ محکمہ ریلوے چاروں صوبوں کی زنجیرہے اس کو بچانے چین کے تعاون سے ML1کا منصوبہ فورا شروع کریں۔ تھرکول پروجیکٹ پر فنانسنگ جاری رکھیں جو انرجی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان شا اللہ۔

ٹھٹہ کے قریب کشتی ڈوبنے کا واقعہ، ایک اور لاش مل گئی، تعداد4 ہوگئی

QOSHE -            وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے نام کھلا خط  - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے نام کھلا خط 

8 0
11.03.2024

دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ منتخب ہو نے کے بعد آپ نے خود فرمایا ہے کہ یہ عہدہ کانٹوں کی سیج ہے کیونکہ اس لمحے پاکستان کے تمام محکمے جن میں بجلی پیدا کرنے والے، پٹرول خریدنے اور سرکاری اداروں کو فروخت کرنے والے ادارے، سوئی گیس کے محکمے، پی آئی اے، سٹیل مل سمیت جتنے بھی ادارے حکومت کے کنٹرول میں ہیں وہ سب کے سب ہزاروں ارب روپے کے مقروض ہیں خود حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ بھی قرض کی رقم سے چل رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ حقائق ہیں جن کو ہمیں نہ صرف آنکھ کھول کر دیکھنا ہو گا بلکہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی اس اندھی دلدل سے باہر نکلنے کی کوئی نہ کوئی سبیل بھی کرنی ہو گی۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں بتاتا چلوں پچھلے سال قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بہت دکھی لہجے میں کہا تھا اس وقت جبکہ ہم سر تک قرضوں میں ڈوب چکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، ملکی برآمدت اپنا وجود کھو چکی ہیں پھر بھی ہمیں اپنی غریب اور بے بس عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کی رقم میں سے 800ارب مفت میں ہر سال وفاقی حکومت کے پنشنروں کو بطور پنشن ادا کرنے پڑرہے ہیں جبکہ چاروں صوبائی محکموں کے پنشنروں کو بھی اس سے بھی کہیں زیادہ رقم عوام کے ٹیکسوں سے آنکھیں بند کر کے ادا کی جا رہی ہے۔

منڈی بہاؤالدین کی بھینس نے 24 گھنٹوں میں37 کلو دودھ دےکر عالمی ریکارڈ قائم کردیا

میں نے ایک ریٹائر دوست سے پوچھا کہ آپ کو کتنی پنشن ملتی ہے اس نے بتایا صرف ڈیڑھ لاکھ ماہانہ،ساتھ ہی اس نے کہا دعا کریں حکومت اس پنشن میں دس پندرہ فی صد مزید فیصد اضافہ کر دے۔اپنے دوست کی بات سن کر میں حیران رہ گیا کہ میں بھی بنک آف پنجاب میں بیس سال ملازمت کرکے 2014ء میں ریٹائر ہوا ہوں حالانکہ بنک حکومت پنجاب کا ہے لیکن مجھے ایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی۔ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچتے ہی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play