صدرِ مملکت کا انتخاب بھی ہو گیا۔یوں حکومتی سیٹ اپ مکمل ہوا، آگے سینٹ کے انتخابات ہوں گے، صوبوں میں گورنرز تعینات کئے جائیں گے، سب کچھ پائیہ تکمیل کو پہنچ جائے گا تاہم وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی اپنی عہدوں پر موجودگی انتخابی عمل کے بعد نئے حکومتی نظام کی تکمیلیت کو ظاہر کرتی ہے، جس کے بعد منطقی طور پر یہ توقع کی جا رہی ہے اب قومی و عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ کیا واقعی حالات اتنے نارمل ہو گئے ہیں کہ اب حکومتیں کسی اور طرف توجہ دینے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ گڈ گورننس پر توجہ دے سکتی ہیں؟ بظاہر تو حالات بہت آئیڈیل نظر آتے ہیں۔فوج، ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم ایک پیج پر موجود ہیں۔ آصف علی زرداری کو صدر بنانے کے لئے مسلم لیگ(ن) نے جو تعاون کیا ہے وہ مثالی ہے۔ گویا ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہی میں نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں بھی ایک اٹوٹ ہم آہنگی نظر آتی ہے۔بظاہر سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے،مگر اِس کے باوجود سیاسی سطح پر ایک بے یقینی اور ہلچل موجود ہے۔ آج بھی جہاں جاؤ یہی سوال پوچھا جاتا ہے،ملک کا کیا بنے گا؟ اب اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی زبانِ زدِ عام ہے کیا یہ نیا سیٹ اپ چل سکے گا؟ اصل میں ہر چیز اپنے پس منظر کے ساتھ سفر کرتی ہے۔اس سارے حکومتی سیٹ اپ کا پس منظر آٹھ فروری کے انتخابات سے جڑا ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات اپنے پیچھے اتنے سوالات اور شکوک و شبہات چھوڑ گئے ہیں،جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ ممکن نہیں، سب کچھ بھلا کر آگے بڑھا جائے، جو لوگ حکومت بنا چکے ہیں جب تک وہ بڑے فیصلے نہیں کرتے اور اُس پالیسی کو جاری رکھتے ہیں جس نے پچھلے دو برسوں میں ملک کو سیاسی طور پر ایک ایسی پولرائزیشن سے ہمکنار کیا ہے، جو ہمارے قومی وجود میں کینسر کی طرح سرایت کر گئی ہے۔چیزوں کو اپنی من پسند عینک سے دیکھنا اور زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا، ایک عمومی رویہ ہے،جس کے منفی اثرات کا ہمیں قدم قدم پر سامنا رہتا ہے۔

منڈی بہاؤالدین کی بھینس نے 24 گھنٹوں میں37 کلو دودھ دےکر عالمی ریکارڈ قائم کردیا

اِس وقت قوم کو درپیش صورتحال کے دو تین پہلو ہیں،ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر کوئی گھمنڈ میں ہے کہ ان پر توجہ دیئے بغیر بھی استحکام آ سکتا ہے یا حکومتیں یکسوئی سے کام کر سکتی ہیں تو یہ اُس کی خوش فہمی ہے ملک کو سیاسی ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے یہ درست ہے آٹھ فروری کے انتخابات نے قومی ہم آہنگی میں ایک بڑی دراڑ ڈال دی ہے،جو حکومت میں آ گئے ہیں وہ ان انتخابات کا دفاع کر رہے ہیں اور جو حکومت سے باہر ہیں وہ اسے ایک جعلی مینڈیٹ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں اگر تو نظام کو اِسی طرح چلانا ہے اور کشیدگی کو برقرار رکھ کے عدم استحکام پیدا کر کے اسمبلیوں کو اکھاڑہ بنا کے اور سڑکوں پرآئے روز کے انتشار کو ہوا دے کے معاملات کو آگے بڑھانا ہے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے،لیکن اگر یکسوئی کے ساتھ حکومت چلانی ہے، عوام کو ڈلیور کرنا ہے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے ماحول کو یقینی بنانا ہے، تو پھر جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے،سیاسی فیصلے سیاستدانوں کو کرنے چاہئیں،کہیں سے ڈکٹیشن لینے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ صدر اور وزیراعظم ایک جگہ بیٹھ جائیں،وہ جن نئے میثاق جمہوریت کی بات کرتے ہیں اُس کے لئے پہلے اپنے فیصلوں سے ماحول بنائیں۔سینٹ کے حالیہ اجلاس میں سبکدوش ہونے والے سینیٹروں نے بڑی جرأت مندانہ تقریریں کیں۔

15طلبہ کو اسلحے کے زور پر اغواکرلیاگیا

سینیٹر مشتاق احمد خان اور سینیٹر مشاہد حسین نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ درحقیقت قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کا تیز بہدف نسخہ ہیں۔سینیٹر مشتاق احمد خان نے سیاست دانوں پر زور دیا اپنے فیصلے آپ کریں، اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر نہ ناچیں، اسٹیبلشمنٹ کو بھی چاہئے وہ اپنے کردار کو محدود کرے۔ سیاسی معاملات اور قومی امور کے بارے میں پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کو فیصلے کرنے دے۔ مشاہد حسین سید نے دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا عمران خان کو رہا کیا جائے، وہ سیاسی قیدی ہیں، اُن کی رہائی عمل میں آنی چاہئے۔انہوں نے یہ بھی کہا جب نواز شریف قید تھے، تو انہوں نے اُس وقت بھی اُن کے حق میں آواز بلند کر کے رہائی کا مطالبہ کیا تھا،اُن کا کہنا تھا سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کرنے چاہئیں اور جو بھی ایشوز ہیں اُن کا مل بیٹھ کے حل نکالنا چاہئے۔تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز تو عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم مشاہد حسین سید کی طرف سے جو مسلم لیگ(ن) سے وابستگی رکھتے ہیں یہ مطالبہ کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اب زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو یہ واضح نظر آتا ہے ملک میں ایک سیاسی بے چینی اور بے یقینی ہے، اگرچہ حکومتیں معرضِ وجود میں آ چکی ہیں،لیکن سیاسی استحکام کے ساتھ حکومت کرنا فی الوقت مشکل نظر آ رہا ہے۔آصف علی زرداری جن کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ مفاہمت کے بادشاہ ہیں، بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، سبکدوش ہونے والے صدر عارف علوی اِس کام کے لئے تیار تھے،مگر تحریک انصاف کا کارکن قرار دے کر تنقید ہی کی جاتی رہی، اب یہ کام آصف علی زرداری اپنے ذمے لیں تو مشاہد حسین کی تجویز پر عمل کر کے ایک اہم میسج دیا جا سکتا ہے اگر اِس کے بغیر کام چلانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے تو پھر سیاسی بے چینی اور انتشار برقرار رہے گا۔

پی ایس ایل 9، ’ پلے آف مرحلے‘ کیلئے ٹیمیں فائنل ہو گئیں

بلاشبہ اِس وقت ملک اور عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور معاشی ابتری ہے اس پر قابو پانے کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے اگر ہر وقت سڑکوں پر ہنگامے ہوتے رہے،بے چینی کی فضاء موجود رہے اور اسمبلیوں کے اندر قانون سازی نہ ہو سکے تو یہ حکومت بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی جماعت کو بزورِ طاقت ختم کیا جا سکتا ہے نہ ہی اُس کے بغیر ایک مستحکم نظام قائم ہو سکتا ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) تو دونوں بذاتِ خود ایسے حالات سے گزر چکی ہیں،انہیں مٹانے کی کوشش کی گئی،اُن کے خاتمے کا غیر آئینی بگل بچایا گیا،مگر دونوں آج بھی موجود ہیں اور اِس وقت اقتدار میں ہیں۔تحریک انصاف بھی ایسی ہی ایک مقبول جماعت ہے اُسے غیر مقبول بنانے کے لئے ماضی قریب میں کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ انتخابی نشان چھیننے سے لے کر اُس کے جھنڈے کو لے کر چلنے کی ممانعت تک ایک تلخ تاریخ ہے اس کے باوجود اگر اُسے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے تو اسے بے شک تسلیم نہ کریں تاہم کچھ خیر سگالی کے ایسے پیغامات تو دیں کہ جن سے لگے ایک نیا حکومتی سیٹ اپ آ گیا ہے اور وہ ایسے کام نہیں کرنا چاہتا جن سے انتقام کی بو آئے۔شہباز شریف بھی اپنے بیانئے کو بدلیں، کشیدگی بڑھانے والے بیانات دینے کی بجائے مفاہمت کا پیغام دیں تاکہ ملک میں ٹھہراؤ آئے اور ہم دائر کے سفر سے نکل کر آگے بڑھ سکیں۔

ٹھٹہ کے قریب کشتی ڈوبنے کا واقعہ، ایک اور لاش مل گئی، تعداد4 ہوگئی

٭٭٭٭٭

QOSHE -          آگے بڑھیں، بڑے فیصلے کریں  - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         آگے بڑھیں، بڑے فیصلے کریں 

8 0
11.03.2024

صدرِ مملکت کا انتخاب بھی ہو گیا۔یوں حکومتی سیٹ اپ مکمل ہوا، آگے سینٹ کے انتخابات ہوں گے، صوبوں میں گورنرز تعینات کئے جائیں گے، سب کچھ پائیہ تکمیل کو پہنچ جائے گا تاہم وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی اپنی عہدوں پر موجودگی انتخابی عمل کے بعد نئے حکومتی نظام کی تکمیلیت کو ظاہر کرتی ہے، جس کے بعد منطقی طور پر یہ توقع کی جا رہی ہے اب قومی و عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ کیا واقعی حالات اتنے نارمل ہو گئے ہیں کہ اب حکومتیں کسی اور طرف توجہ دینے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ گڈ گورننس پر توجہ دے سکتی ہیں؟ بظاہر تو حالات بہت آئیڈیل نظر آتے ہیں۔فوج، ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم ایک پیج پر موجود ہیں۔ آصف علی زرداری کو صدر بنانے کے لئے مسلم لیگ(ن) نے جو تعاون کیا ہے وہ مثالی ہے۔ گویا ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہی میں نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں بھی ایک اٹوٹ ہم آہنگی نظر آتی ہے۔بظاہر سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے،مگر اِس کے باوجود سیاسی سطح پر ایک بے یقینی اور ہلچل موجود ہے۔ آج بھی جہاں جاؤ یہی سوال پوچھا جاتا ہے،ملک کا کیا بنے گا؟ اب اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی زبانِ زدِ عام ہے کیا یہ نیا سیٹ اپ چل سکے گا؟ اصل میں ہر چیز اپنے پس منظر کے ساتھ سفر کرتی ہے۔اس سارے حکومتی سیٹ اپ کا پس منظر آٹھ فروری کے انتخابات سے جڑا ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات اپنے پیچھے اتنے سوالات اور شکوک و شبہات چھوڑ گئے ہیں،جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ ممکن نہیں، سب کچھ بھلا کر آگے بڑھا جائے، جو لوگ حکومت بنا چکے ہیں جب تک وہ بڑے فیصلے نہیں کرتے اور اُس پالیسی کو جاری رکھتے ہیں جس نے پچھلے دو برسوں میں ملک کو سیاسی طور پر ایک ایسی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play