خوش آئند امر ہے کہ ملک میں کتاب دوستی کی تحریک فروغ پا رہی ہے۔ مختلف شہروں میں کتاب میلے منعقد ہو رہے ہیں اور قارئین کو اپنی پسندیدہ کتابیںرعایتی قیمت پر دستیاب ہو رہی ہیں۔پنجاب یونیورسٹی نے بھی تین روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا، جس میں لاکھوں کتابیں رکھی گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔کتاب سے محبت درحقیقت علم و شعورسے محبت ہے،اِس لئے اس محبت کو پروان چڑھنا اور چڑھانا چاہئے۔

آج کے کالم میں تین کتابوں کا تعارف مقصود ہے، تینوں شعری مجموعے ہیں اور اعلیٰ شاعری کی عمدہ مثال ہیں، پہلی کتاب منفرد و ممتاز شاعر صابر ظفر کا شعری مجموعہ ”ماضی میں ٹھہر کے دیکھتا ہوں“ دوسری کتاب بھارت میں مقیم معروف اردو شاعرہ علینا عترت کا مجموعہ _¿ کلام”سورج تم جاﺅ“ اور تیسری کتاب لاہور میں مقیم شاعرہ ڈاکٹر فوزیہ تبسم کا شعری مجموعہ ”لیکن جانا پار تو ہے“ آج کے مطالعے میں شامل ہیں۔

یو ای اے میں طوفانی بارشیں، پارکس بند کردیئے گئے

صابر ظفر کراچی میں رہتے ہیں تاہم اُن کے کلام کی دھوم ہر اُس جگہ موجود ہے،جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔وہ ایک حیران کن شاعر ہیں کہ جن پر شاعری کی دیوی نہ صرف مہربان بلکہ فدا ہے۔”ماضی میں ٹھہر کے دیکھتا ہوں“ اُن کا 52واں شعری مجموعہ ہے یہ مجموعہ غزلوں پر مشتمل ہے صابر ظفر کی غزل اپنی ایک جداگانہ شناختی رکھتی ہے۔آج سے نہیں،بلکہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ اُن کی شعری اقلیم پوری شناخت اور انفرادیت سے قائم ہے۔معروف نقاد اور شاعر غلام حسین ساجد نے بہت پہلے اُن کی غزل کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا تھا ”صابر ظفر کی غزل، انسانی زندگی کے تمام مظاہر کو اپنی ذات میں جذب کرتے ہوئے، حزن اور درد مندی اور فلسفانہ بے قراری کی فضاءمیں عصری شعور کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے، ایک ایسے شعری عہد کی تعمیر پر کاربند ہے،جو اُس کا اپنا عہد ہے، اپنا خواب ہے“۔ 52شعری مجموعے کسی شاعر کے قادر الکلام ہونے کی دلیل ہی نہیں،بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ اُس کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے۔یہاں تو ایک شعری مجموعے کے بعد لوگ ہانپنے لگتے ہیں یا اپنے ہی کیے ہوئے کی جگالی کرتے ہیں۔صابر ظفر کا کمالِ فن یہ ہے کہ اُن کی شاعری آگے کا سفر کرتی ہے۔ معروف شاعر و نقاد محمد اظہار الحق نے کیا خوب کہا ہے:” صابر ظفر کا ہر نیا مجموعہ _¿ شاعری ایک نیا در کھولتا ہے او ہر نیا دروازہ ایک اچھوتا منظر دکھاتا ہے“۔اس تازہ شعری مجموعے میں شامل اُن کی غزلیں نہ صرف موضوعات کے تنوع، بلکہ تغزل کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے غزل کی روایت میں اضافے کا باعث ہیں۔اس مجموعے کی ہر غزل ایک جہانِ تازہ لئے ہوئے ہے، جس کی شعری فضاءقاری کو مسحور کر دیتی ہے۔

صدر عارف علوی نے تمام جمہوری روایات اور آئینی تقاضوں کو کچل ڈالا، عرفان صدیقی

وصال ہو کہ نہ ہو، آرزو تمام نہ ہو

کہ ایسا عشق ہے کیسا، جسے دوام نہ ہو

کبھی ہو یوں کہ میسر ہو تیری دید اک دن

کبھی ہو یوں کہ اُس اک دن کے بعد شام نہ ہو

علینا عترت نئی دہلی میں مقیم ہیں۔مشاعروں میں شرکت کے لئے دو بار پاکستان آ چکی ہیں ”سورج تم جاﺅ“ اُن کا شعری مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں اُن کی غزلیں، نظمیں اور قطعات شامل ہیں۔علینا عترت کو شاعری میں منفرد خدمات پر14ایوارڈز مل چکے ہیں، جن میں ”سورج تم جاﺅ“ پر چار ایوارڈز بھی شامل ہیں۔ علینا عترت شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری بھی کرتی ہیں اور براڈ کاسٹر بھی ہیں جبکہ پیشے کے لحاظ سے درس و تدریس کے ساتھ منسلک ہیں۔اُن کی کتاب ”سورج تم جاﺅ“ جدید غزل کے معیار پر پورا اترتی ہے۔انہوں نے نئی ڈکشن کے ساتھ روحِ عصر کو اپنی شاعری میں بڑی خوبصورتی سے سمویا ہے۔اُن کی غزل کے موضوعات میں محبت ایک دائمی استعارے کے طور پر موجود ہے تاہم جدید حیات کو انہوں نے ایک بڑی تخلیقی قوت کے طور پر استعمال کیا ہے،”سورج تم جاﺅ“ کا پیش لفظ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں لکھا ہے اور بہت عمدگی سے اپنی ذات کی تفہیم کی ہے۔ یہ پیش لفظ بذاتِ خود ایک نثری شاعری ہے جو اپنے اندر بے پناہ استعارے رکھتی ہے۔ علینا عترت متعدد ممالک میں مشاعرے پڑھ چکی ہیں، ”سورج تم جاﺅ“ میں شامل غزلیں مطالب و معنی کی ایک بے کراں دنیا لئے ہوئے ہیں۔اُن کا لب و لہجہ انہیں ایک انفرادیت بخشتا ہے۔علینا کی غزل کا ایک خاص مزاج ہے جو فی زمانہ ایک بہت مشکل کام ہے کہ غزل کے بہتے سمندر میں اپنی پہچان کرانا کوئی آسان کام نہیں۔ علینا عترت کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ہیوی ٹریفک کے لاہور میں داخلے کے اوقات کار تبدیل

زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے

اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے

اپنے سورج کی تمازت کا بھرم رکھنے کو

نرم چھاﺅں میں کڑی دھوپ ملا لی میں نے

ڈاکٹر فوزیہ تبسم ادبی و شعری حلقوں کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔اُن کا ایک بڑا حوالہ صوفی تبسم ہیں،جن کی وہ پوتی اور اُن کی حقیقی ادبی وارث ہونے کا حق ادا کر رہی ہیں ”لیکن جانا پار تو ہے“ اُن کا شعری مجموعہ ہے۔اس میں اُن کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں تاہم نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ڈاکٹر فوزیہ تبسم کی شاعری کے بارے میں معروف شاعروں اور ناقدین کی آراءپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے،انہوں نے اپنی شعری بساط کو بڑی خوبصورتی سے بچھایا ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، پروفیسر مشکور حسین یاد، مرتضیٰ برلاس، یوسف مثالی، بشریٰ رحمن نے ڈاکٹر فوزیہ تبسم کو ایک ایسی شاعرہ قرار دیا ہے جو اپنے عہد کا شعور بھی رکھتی ہے اور فکر فردا سے بھی بے نیاز نہیں۔ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے اپنے پیش لفظ میں خود تسلیم کیا ہے،وہ اپنے دادا صوفی تبسم سے بہت متاثر ہیں۔فکری و فنی لحاظ سے اُن کا گویا۔ اُن کا فنی ورثہ منتقل ہوا ہے۔ڈاکٹر فوزیہ تبسم کی غزلیں سادگی اور خوبصورتی کا مرقع ہیں تاہم اُن کے مضامین اپنی اپچ کے لحاظ سے قاری کو متاثر کرتے ہیں، جبکہ اُن کی نظمیں انسانی کیفیات و محسوسات کی ایک دلکش تصویر پیش کرتی ہیں۔اُن کی غزل کے دو اشعار۔

وفاقی کابینہ کی تشکیل حتمی مراحل میں داخل

میں اپنا دِل اُسی کو دے رہی ہوں

وہ توڑے گا اگرچہ جانتی ہوں!

مجھے تو مان لے تقدیر اپنی

ترے ماتھے پہ میں لکھی ہوئی ہوں

QOSHE -  کتابوں کی دنیا - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 کتابوں کی دنیا

13 0
10.03.2024

خوش آئند امر ہے کہ ملک میں کتاب دوستی کی تحریک فروغ پا رہی ہے۔ مختلف شہروں میں کتاب میلے منعقد ہو رہے ہیں اور قارئین کو اپنی پسندیدہ کتابیںرعایتی قیمت پر دستیاب ہو رہی ہیں۔پنجاب یونیورسٹی نے بھی تین روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا، جس میں لاکھوں کتابیں رکھی گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔کتاب سے محبت درحقیقت علم و شعورسے محبت ہے،اِس لئے اس محبت کو پروان چڑھنا اور چڑھانا چاہئے۔

آج کے کالم میں تین کتابوں کا تعارف مقصود ہے، تینوں شعری مجموعے ہیں اور اعلیٰ شاعری کی عمدہ مثال ہیں، پہلی کتاب منفرد و ممتاز شاعر صابر ظفر کا شعری مجموعہ ”ماضی میں ٹھہر کے دیکھتا ہوں“ دوسری کتاب بھارت میں مقیم معروف اردو شاعرہ علینا عترت کا مجموعہ _¿ کلام”سورج تم جاﺅ“ اور تیسری کتاب لاہور میں مقیم شاعرہ ڈاکٹر فوزیہ تبسم کا شعری مجموعہ ”لیکن جانا پار تو ہے“ آج کے مطالعے میں شامل ہیں۔

یو ای اے میں طوفانی بارشیں، پارکس بند کردیئے گئے

صابر ظفر کراچی میں رہتے ہیں تاہم اُن کے کلام کی دھوم ہر اُس جگہ موجود ہے،جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔وہ ایک حیران کن شاعر ہیں کہ جن پر شاعری کی دیوی نہ صرف مہربان بلکہ فدا ہے۔”ماضی میں ٹھہر کے دیکھتا ہوں“ اُن کا 52واں شعری مجموعہ ہے یہ مجموعہ غزلوں پر مشتمل ہے صابر ظفر کی غزل اپنی ایک جداگانہ شناختی رکھتی ہے۔آج سے نہیں،بلکہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ اُن کی شعری اقلیم پوری شناخت اور انفرادیت سے قائم ہے۔معروف........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play