مجھے پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے اتنی مایوسی ہوئی کہ کچھ لکھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ پاکستان اخبار کے ارشد صاحب کا چند روز پہلے فون آیا کہ خیریت ہے کالم لکھنا کیوں چھوڑدیا ہے میں نے ان سے کہا کہ کچھ مصروفیت تھی اور وعدہ کیا کہ پھر لکھنا شروع کروں گا لیکن ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔چند ہفتوں سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے خلاف سپریم کورٹ کے مقدمہ کو دوبارہ سننے کے بارے میں میڈیا میں کافی شور شرابا تھا اوراس کے لئے مختلف آراء دی جا رہی تھیں۔ پھر سپریم کورٹ کی طرف سے اس مقدمہ کی براہ راست کاروائی نشر کرنے کے حکم نے مجھے اس کو سننے پر مجبور کردیا۔

صدر کا انتخاب، ووٹنگ کا عمل شروع

سپریم کورٹ کے معاون وکیل جناب منظور ملک صاحب کے دلائل اور ثبوتوں نے ایک ایسا ماحول بنا دیا جو اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ واقعی اس کیس کو سننے والے یا تو بالکل اندھے اور بہرے اورمردہ ضمیرکے حامل تھے یاان کے اوپر اتنا دباوْ تھا کہ وہ انصاف پر مبنی فیصلہ نہ کرسکے اور اس سے بڑھ کر کچھ ججوں کے ذاتی عناد نے سیدھے سادے مقدمہ کو وہ رخ دے دیا جو انتقام، نفرت اور حسد کی انتہاء پرتھا۔ لیکن کیا ان تمام حقیقتوں کے تحت فیصلہ کرنے والے منصف کہلانے کے حقدارتھے؟

اس پر رضا ربانی کے دلائل جو ایک ایک چیزکو نتھار رہے تھے اور کوئی ابہام انہوں نے رہنے نہ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اعتزاز احسن نے باقی کسر نکال دی۔ کیونکہ گورنمنٹ کو اس کیس میں دلچسپی نہ تھی اس لئے مخالفت میں کوئی دلیل نہ دی گئی۔ احمد رضا قصوری نے دلائل دینے کی کوشش کی جس کو سپریم کورٹ کے ججوں نے سوال کرکے بے وقعت کر دیا۔ احمد رضا قصوری کے دلائل کم اور خاندان کی برتری کے حوالے زیادہ تھے اور باقی لوگوں کو اپنے سے حقیر گردانا جو پاکستان جیسے ملک میں عام ہے۔

عدالت نے صحافی عمران ریاض کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا

اتنے سیدھے سادے کیس کو جس طرح کا رخ دیا گیا وہ دنیا کے مہذب معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتا اوربادی النظر میں تو ممکن بھی نہیں تھااور پھر اس ملک میں، جس میں تمام قانون شریعت کے ماتحت ہیں جہان یہ حکم ہے کہ ایک بیگناہ کو بچانے کے لئے سوگناہ گاروں کو چھوڑ دو کہ انصاف پرآنچ نہ آئے۔ لیکن فیصلہ سازوں نے ہردلیل کو ماننے سے انکار کر دیا اورانصاف کی دھجیاں اڑادیں۔ FIR کیا تھی اور کیسے درج ہوئی اور کتنی حقیقت پر مبنی تھی وہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن جس طرح اس مقدمہ میں کھلے عام قانون اورانصاف کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا وہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ مجسٹریٹ کا مقدمہ بند کر دینا اور پھر اس کو دوبارہ قوائد اورضوابط کو پس پشت ڈالتے ہوئے سیشن کورٹ سے ایک ہی دن میں ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے لگنا اور مولوی مشتاق جیسے جج کو قائم مقام بنا کر اپنی مرضی کا فیصلہ کروا کرعدلیہ کے اوپر اتنا بڑا دھبا لگایا گیا۔ اتنے صاف اور سیدھے مقدمے کو جس طرح آلودہ کیا گیا وہ کوئی عام کام نہیں تھا۔ لگتا ہے کہ انسانی ہاتھ سے زیادہ اس پر تقدیر الٰہی چل گئی اور شاید کسی اورغلطی کا مواخذہ یہاں پرہوگیا لیکن یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔

ماہرہ خا ن نے حاملہ ہونے کی خبر یں پھیلنے کے پیچھے چھپی وجہ بتادی

اس کیس میں غلط فیصلہ کے بڑے کرداروں کا انجام بھی اچھا نہ ہوا۔ مولوی مشتاق کو جس تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ تو لوگوں کو شاید بھول گیا ہوگا لیکن تاریخ نہیں بھولتی اورنہ معاف کرتی ہے۔ قدرت بھی ان کووقت آنے پرآڑے ہاتھوں لیتی ہے۔ مولوی صاحب کے جنازہ میں جس طرح شرکاء پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کیا اور لوگوں نے بھاگ کر جان بچائی یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ میت کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ یہ واقعہ اخباروں کی زینت بنا اور لوگوں نے اس پر مختلف قسم کی آراء کا اظہار بھی کیا۔

اب آئیے اس کا مرکزی کردار جنرل ضیاء الحق جو نوے دن کہہ کر حکمران بنا لیکن گیارہ سال مطلق العنانی سے گزار گیا جس کے دور میں کلاشنکوف کلچر کا فروغ ہوا، ملک میں انتہا پسندی کو ہوا دی گئی اور مسلمانوں کو آپس میں مذہب کے نام پر لڑایا گیا اور بیگناہ لوگوں کو مارا گیا۔انصاف کے نام پر لوگوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں لیکن اس شخص کا انجام کتنا دردناک ہواکہ اس کی لاش بھی شناخت نہ کی جاسکی۔ اس پرہی بس نہیں ہوئی بلکہ ایک مدت کے بعد اسمبلی نے یہ قرارداد بھی پاس کردی کہ اس کی حکومت غلط تھی اور اس کو صدر پاکستان کے عہدہ سے محروم کر دیا۔ اس کو کہتے ہیں مکافات عمل۔ جس کسی نے بھی دیدہ دانستہ لوگوں یا ملک سے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی وقتی طور پر تو اس نے فائدہ اٹھا لیا لیکن وقت نے اسے رسوا کیا۔

عریشہ رضی کی شادی کے بعد شوہر کے ہمراہ عمرہ ادائیگی

جنرل مشرف کا منتخب حکومت کوگرانا اورایک لمبے عرصہ کے لئے ملک پر قبضہ جما لینا ایک اورایسی مثال تھی جس کو منصفوں کی نظریہ ضرورت کے تحت مدد حاصل تھی اور پھر موقع پرست سیاستدانوں اور چند مذہبی راہنماؤں کی حمایت نے اس کے اقتدارکو دوام بخشا۔ بعد میں جب آئین شکنی پر عدالتی کاروائی کی گئی تو تمام تر کوشش کے باوجود اس کو عدالت کے سامنے پیش نہ کیا جا سکا اور سہولت سے ملک سے باہر روانہ کر دیا گیا۔ مقدمہ لمبے عرصہ تک چلا لیکن کیا فیصلہ پر عمل ہو سکا۔ یہ سوال اس قوم، عدلیہ اور صاحبان اقتدار پرقرض ہے جس کا جواب آئندہ نسلوں کو دینا ضروری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بنچ نے ججوں کی غلطی تسلیم کرکے ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے لیکن کیا عرصہ درازکے بعد غلطی قبول کرنے سے بھٹو کو انصاف مل سکتا ہے۔ کیا قانونی پیچیدگیاں اْس کو دی گئی سزا کو کالعدم کرسکتی ہیں اگرجواب نہیں میں ہے۔تو کم ازکم ان کے ذمہ دار کرداروں کی مذمت کے ساتھ ساتھ ان کی صریحا" اور دانستہ روگردانی کی کوئی علامتی سزاتو تجویزکی جاسکتی تھی۔

تین فٹ کا نوجوان ڈاکٹر بن گیا

چیف جسٹس پاکستان یاعدلیہ اگر کسی اقلیتی شخص کی سزا کو اس لئے کالعدم قرار دیتے ہیں کہ اس نے توہین رسالت یا توہین قرآن نہیں کی تو ان کے خلاف مختلف مذہبی اور سیاسی راہنماء اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔عدالتوں کے باہر اور اندر ان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سارے علماء اس طرح کے کاموں میں ملوث نہیں ہوتے لیکن جس فرقہ کے خلاف وہ بات جاتی ہے وہ ہر قسم کا دباؤ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی دباؤہے جو نچلی عدالتوں کو دباؤ میں لاکرمرضی کے فیصلے کرواتی ہیں اکثرتو اس کو قبول نہیں کرتے لیکن کچھ کالی بھڑیں یہ کام کر جاتی ہیں۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسری قوتیں بھی حکومتوں کو دباؤ میں لاکران ہی آلہ کاروں کے ذریعہ سے غلط فیصلے کروا لیتے ہیں۔

شاہین آفریدی کا پی ایس ایل میں ایک سیزن اچھا نہیں گیا، دو بار جتوایا بھی ہے: سلمان بٹ

میرا سوال یہ ہے کہ کیاعدالتیں اوراسمبلیاں موجودہ حالات کوٹھیک کرنے کی بجائے ماضی کو ہی لئے بیٹھی رہیں گی اورحکومت اپنے اقتدارکو قائم رکھنے اور ذاتی مفاد کی خاطرپریشرگروپوں کے آگے جھکتی رہیں گی۔ اگر ماتحت عدالت کے فیصلوں میں جان بوجھ کر روگردانی کی جاتی ہے تو سدباب کیاہوگا۔ ورنہ چاہے بھٹوکیس ہویااصغرخان کیس ندامتیں ہی اس قوم کے حصہ میں آئیں گی اور یہی کہا جائے گا کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت

QOSHE -       اب پچھتائے کیا ہوت - وسیم امجد محمود
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      اب پچھتائے کیا ہوت

15 5
09.03.2024

مجھے پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے اتنی مایوسی ہوئی کہ کچھ لکھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ پاکستان اخبار کے ارشد صاحب کا چند روز پہلے فون آیا کہ خیریت ہے کالم لکھنا کیوں چھوڑدیا ہے میں نے ان سے کہا کہ کچھ مصروفیت تھی اور وعدہ کیا کہ پھر لکھنا شروع کروں گا لیکن ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔چند ہفتوں سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے خلاف سپریم کورٹ کے مقدمہ کو دوبارہ سننے کے بارے میں میڈیا میں کافی شور شرابا تھا اوراس کے لئے مختلف آراء دی جا رہی تھیں۔ پھر سپریم کورٹ کی طرف سے اس مقدمہ کی براہ راست کاروائی نشر کرنے کے حکم نے مجھے اس کو سننے پر مجبور کردیا۔

صدر کا انتخاب، ووٹنگ کا عمل شروع

سپریم کورٹ کے معاون وکیل جناب منظور ملک صاحب کے دلائل اور ثبوتوں نے ایک ایسا ماحول بنا دیا جو اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ واقعی اس کیس کو سننے والے یا تو بالکل اندھے اور بہرے اورمردہ ضمیرکے حامل تھے یاان کے اوپر اتنا دباوْ تھا کہ وہ انصاف پر مبنی فیصلہ نہ کرسکے اور اس سے بڑھ کر کچھ ججوں کے ذاتی عناد نے سیدھے سادے مقدمہ کو وہ رخ دے دیا جو انتقام، نفرت اور حسد کی انتہاء پرتھا۔ لیکن کیا ان تمام حقیقتوں کے تحت فیصلہ کرنے والے منصف کہلانے کے حقدارتھے؟

اس پر رضا ربانی کے دلائل جو ایک ایک چیزکو نتھار رہے تھے اور کوئی ابہام انہوں نے رہنے نہ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اعتزاز احسن نے باقی کسر نکال دی۔ کیونکہ گورنمنٹ کو اس کیس میں دلچسپی نہ تھی اس لئے مخالفت میں کوئی دلیل نہ دی گئی۔ احمد رضا قصوری نے دلائل دینے کی کوشش کی جس کو سپریم کورٹ کے ججوں نے سوال کرکے بے وقعت کر دیا۔ احمد رضا قصوری کے دلائل کم اور خاندان کی برتری کے حوالے زیادہ تھے اور باقی لوگوں کو اپنے سے حقیر گردانا جو پاکستان جیسے ملک میں عام........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play