خداوند قدوس کا لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے کی فضا اور اس کے اثرات جو معاشرے میں منعکس ہوئے،ان کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا،وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے،اس سے پہلے میڈیا کے دانشور یہ راگ الاپتے اور غیر یقینی پیدا کرتے ہوئے نظر آئے کہ الیکشن نہیں ہوں گے، الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کروا سکے گا، صرف یہی نہیں بلکہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے درمیان جو کھینچاتانی جاری تھی اس کی بازگشت سپریم کورٹ تک بھی سنائی دی جاتی رہی، لیکن خدا وند تعالیٰ کا شکر ہے کہ سارے قیافے اور خدشات رفو چکر ہوئے۔ انتخابات طے شدہ تاریخ 8فروری 2024ء کو ہو گئے جومجموعی طور پرپرامن رہے۔ وہ قوتیں جو انتخابات کو التوا میں رکھنا چاہتی تھیں انہیں عبرتناک مایوسی ہوئی، پھر معاملات یہیں تک محدود نہیں رہے، الیکشن کے بعد مزاجاً نفرت آمیز چند سیاسی نابالغوں نے انتخابات کے نتائج کو ہدف تنقید بنایا اورانہیں تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا عندیہ بھی دیا۔ اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ ممکنہ احتجاجی تحریک کی وجہ سے اقتدار کی منتقلی کا عمل تاخیری حربوں کا شکار ہو سکتا ہے لیکن منفی قوتیں ان ممکنہ حربوں میں بھی کامیاب نہ ہو سکیں۔کیونکہ اڈیالہ جیل سے ہونے والے احکامات کوئی دانشمندی پر مبنی نظر نہیں آئے۔

نیشنل سٹیڈیم کےقریب خاتون نے سڑک پر بچےکو جنم دے دیا

8فروری کوہونے والے انتخابات کے نتائج کو پاکستان کے عوام نے تو تسلیم کرلیا، مگرصدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا حوالہ دے کر ایوان زیریں کو نامکمل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو نشستیں دی جائیں۔ان کے اس اقدام سے خدشہ تھا کہ حکومت سازی کے مراحل میں تاخیر ہوگی۔ مگرپاکستان کے معاشی سماجی سیاسی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کندھے سے کندھا ملا کر اقدامات کرنے کا فیصلہ کرنے والی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے حکومت سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی طرف سے اجلاس بلائے جانے کا اعلان ہوا ہی تھا کہ آئین کے مطابق انتخابات کے 21 دنوں کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی صدر مملکت نے خود اسی تاریخ کو اجلاس طلب کرلیا، جس سے تاخیری حربے ایک بار پھر ناکام ہوگئے۔اب جبکہ طے شدہ فارمولے کے مطابق اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعظم کا انتخاب ہوچکا ہے۔نئے صدر مملکت کے لئے اتحادی حکومت کے آصف علی زرداری اور سنی اتحاد کونسل کے محمود خان اچکزئی کے درمیان مقابلہ ہوگا۔سینیٹ کے انتخابات کے شیڈول کا بھی اعلان الیکشن کمشن کی طرف سے کردیا گیا ہے۔

کینیڈا میں فائرنگ، ایک ہی گھر کے4 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک

چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی تشکیل پاچکی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل پر اپنے اپنے تحفظات ہیں، مگر وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام اس بات پر شرمندہ ہیں کہ وطن عزیز کے سب سے بڑے ادارے میں سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو مہمانوں کی گیلری میں بلواکر اپنی اپنی جماعت کے حق میں نعرے بازی کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہوٹنگ،بدتمیزی، جوتے پھینکنے،غلیظ زبان استعمال کرکے نامناسب طرز عمل کا اظہار کیا گیا۔ ایک صوبائی اسمبلی کوتو بدتمیزی اور غیر دانشمندانہ رویے کا نشان بنا دیا گیا۔ شرمناک حیرت تو اس بات پربھی ہوئی کہ سیاسی جماعتیں اپنے ہمدرد اور پرجوش کارکنان کو اسمبلی میں لائے مگر انہیں بتا نہیں سکے کہ عوامی نمائندگی کا نشان یہ ادارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمائندہ ایوان ہیں۔ان کا تقدس متقاضی ہے کہ ہم ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ ہلڑ بازی اور بدتمیزی کاسانحہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اسمبلی میں جو رویہ اختیار کیا گیا وہ کامیاب اراکین اسمبلی کو بھی سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنی تقریروں سے پہلے خدائے ذوالجلال کو رحمن و رحیم کہتے ہوئے ”اھدناصراط المستقیم“کی بات کرتے ہیں مگر ’صراط مستقیم‘کوبھول جاتے ہیں۔

سوئیڈن نے نیٹو میں باضابطہ شمولیت اختیار کرلی

پاکستان کے چاروں صوبائی اور قومی ایوانوں میں گزشتہ چند سالوں میں قوم کو بدتمیزی،پرتشدد اور غلیظ زبان استعمال کرکے مخالفین کی عزت کو تار تار کرنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا،میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان نسل جو لیڈرشپ کے اس بہکاوے میں آچکی ہے، ان کو سوچنا چاہیے کہ اخلاقی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ”میثاق مفاہمت“کا اعلان خوش آئند ہے۔کیونکہ ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ”میثاق جمہوریت“سے پہلے ایوان میں اپنی اپنی کامیابیوں کا جشن منانے کے لیے مہذب طریقہ استعمال کیا جائے اور غیر مہذب لوگوں کو، جو مسلم تہذیب و تمدن سے ناشناس ہیں انہیں اسمبلی میں آنے نہ دیا جائے یا انہیں اس ایوان کی حدود و قیود، تہذیب اسلامی اور شرف انسانی کے اعلیٰ اوصاف سمجھا کر لایا جائے۔ آپ اپنی پسندیدہ پارٹی اور کامیاب ارکان کے لیے کسی خاص حد کے اندر رہتے ہوئے انہیں ویلکم بھی کرتے ہیں۔ضرور کریں،لیکن اپنے مخالفین کے خلاف گالی گلوچ اور جوتے لوٹے پھینکنے سے اجتناب کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا توسمجھ لیجئے ہم معاشی بحران کے ساتھ ساتھ اخلاقی بحران کا بھی شکار ہوچکے ہیں۔ جو بدقسمتی سے ہمارے لئے اعزاز کی نہیں، پریشانی کی بات ہوگی۔

اقرارالحسن کے گھر کے باہر فائرنگ، حامد میر کا بیان بھی آگیا

QOSHE -           سیاسی اختلاف، شائستگی کے ساتھ! - سید منیر حسین گیلانی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          سیاسی اختلاف، شائستگی کے ساتھ!

16 0
08.03.2024

خداوند قدوس کا لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے کی فضا اور اس کے اثرات جو معاشرے میں منعکس ہوئے،ان کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا،وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے،اس سے پہلے میڈیا کے دانشور یہ راگ الاپتے اور غیر یقینی پیدا کرتے ہوئے نظر آئے کہ الیکشن نہیں ہوں گے، الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کروا سکے گا، صرف یہی نہیں بلکہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے درمیان جو کھینچاتانی جاری تھی اس کی بازگشت سپریم کورٹ تک بھی سنائی دی جاتی رہی، لیکن خدا وند تعالیٰ کا شکر ہے کہ سارے قیافے اور خدشات رفو چکر ہوئے۔ انتخابات طے شدہ تاریخ 8فروری 2024ء کو ہو گئے جومجموعی طور پرپرامن رہے۔ وہ قوتیں جو انتخابات کو التوا میں رکھنا چاہتی تھیں انہیں عبرتناک مایوسی ہوئی، پھر معاملات یہیں تک محدود نہیں رہے، الیکشن کے بعد مزاجاً نفرت آمیز چند سیاسی نابالغوں نے انتخابات کے نتائج کو ہدف تنقید بنایا اورانہیں تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا عندیہ بھی دیا۔ اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ ممکنہ احتجاجی تحریک کی وجہ سے اقتدار کی منتقلی کا عمل تاخیری حربوں کا شکار ہو سکتا ہے لیکن منفی قوتیں ان ممکنہ حربوں میں بھی کامیاب نہ ہو سکیں۔کیونکہ اڈیالہ جیل سے ہونے والے احکامات کوئی دانشمندی پر مبنی نظر نہیں آئے۔

نیشنل سٹیڈیم........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play