حلقہء ارباب ذوق اور ارباب سیاست
ہمارے اہل سیاست 8 فروری کے جنرل الیکشن کے نتائج پر ابھی تک انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ الزامات کی گرد بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔25 فروری کی سہ پہر لاہور میں ایک تاریخی ادبی ادارے حلقہء ارباب ذوق کے سالانہ الیکشن ہوئے۔یہ الیکشن اہل سیاست کے لیے ایک مثال ہیں۔غالب نے شاید ایسے ہی کسی موقعے کے لیے کہا تھا:
دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا
پہلے جان لیجیے کہ حلقہء ارباب ذوق ہے کیا؟ 29 اپریل 1939ء کو سید نصیر احمد جامعی نے لاہور میں ایک ادبی اجلاس منعقد کیا جس میں تابش صدیقی، محمد فاضل اور نسیم حجازی نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں نسیم حجازی نے ایک افسانہ پڑھا۔وہاں موجود احباب نے اس افسانے پر تنقیدی گفتگو کی۔وہیں طے ہوا کہ آئندہ اس طرح کے اجلاس تسلسل کے ساتھ منعقد کیے جائیں گے۔اس اکٹھ کو "مجلس داستان گویاں " کا نام دیا گیا۔بعد میں اسی کو حلقہء ارباب ذوق کا نام دے دیا گیا۔حلقے کے ابتدائی اجلاسوں میں میرا جی اور قیوم نظر بھی شریک ہوئے۔یہی حلقہ ارباب ذوق آج پاکستان کا سب سے بڑی ادبی تحریک ہے۔ اس کا اجلاس ہر اتوار کی شام لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں ہوتا ہے۔اس کا طریقہء کار آج بھی وہی ہے جو کل تھا۔اس میں ادیب اور شاعر افسانے، تنقیدی مضمون اور غزلیں نظمیں تنقید کے لیے پیش کرتے ہیں اور وہاں موجود ادیب اور شاعران کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔یہاں موجود "منہ زبانی" نقاد بے جا یا بجا تحسین کر کے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website