”اب تو ایسے ہی چلے گا“…… چھ حرفی جملہ ہے، مگر اس چھوٹے سے جملے میں 25 کروڑ عوام کے نمائندوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے آنے والے دنوں کا احوال پوشیدہ ہے۔ یہ چھ حرفی جملہ 29 مارچ کو پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان نے سپیکر راجہ پرویز اشرف کے سوال پر ادا کیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن ارکان کے شور شرابے پر راجہ پرویز اشرف نے عمر ایوب خان سے کہا کہ کیا ایسے چلے گا؟ تو عمر ایوب کا کہنا تھا ”ہاں اب تو ایسا ہی چلے گا“…… لیکن یہ ایسے کیوں چلے گا؟ اس کے لئے 6 سال پیچھے 17 اگست 2018ء میں واپس جانا پڑے گا۔ وہ دن جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان اسمبلی نے حلف اٹھایا اور جب سپیکر اسد قیصر نے عمران خان کو خطاب کی دعوت دی تو اپوزیشن کے اراکین اسمبلی نے عمران خان کی نشست کا گھیراؤ کرلیا اور مخالفانہ نعرے بازی شروع کردی۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی عمران خان کی مدد کو پہنچے اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ قومی اسمبلی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگی۔ عمران خان ایوان میں صرف 12 منٹ ہی تقریر کرسکے۔ اذان کی آواز پر عمران خان تقریر ختم کرکے ایوان سے چلے گئے، مگر پھر اس کے بعد ایوان نارمل نہ ہوسکا۔ پی ٹی آئی کے پورے دور میں اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج جاری رکھا اور عمران خان اسی لئے اسمبلی میں آنے سے گریز کرتے رہے۔ عمران خان کو دو سال قبل قرارداد عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے رخصت کیا گیا، جس کے بعد عمران خان اور انکی جماعت کا ایک ایسا سفر شروع ہوا کہ جو اُردو والا ”سفر“ نہیں،بلکہ حقیقت میں انگریزی والا ”Suffer“ تھا۔ مشکلات، مصائب اور تکلیف دہ سفر۔ اس میں یقیناً عمران خان نے غلطیاں کیں، مگر عمران خان نے وہ غلطیاں اس لئے کیں کہ ان کے خیال میں وہ غلطیاں نہیں تھیں۔ قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینا انکا حق تھا۔ اگر اسمبلی میں 100 افراد کی کمی ہوجاتی ہے تو وہاں ضمنی انتخابات کرائے جائیں یا اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں، لیکن نہ نئے انتخاب کرائے گئے اور نہ ان خالی سیٹوں کو پُر کیا گیا۔ پھر عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اپنی صوبائی حکومتوں کو رخصت کر دیا تاکہ وہاں نئے انتخابات کرائے جائیں لیکن ایک دفعہ پھر آئین کا مذاق اُڑایا گیا جو ”پہلے مارشل لاء“ سے اُڑایا جاتا رہا ہے۔ دونوں اسمبلیوں کے انتخابات جو کہ 90 دن کے اندر کرانا لازم تھے، نہیں کرائے گئے۔

اسرائیل میں میزائل لگنے سے بھارتی شہری ہلاک،دو بھارتیوں سمیت 6 غیرملکی زخمی

الیکشن کمیشن نے انتخابات نہیں کرائے اور نہ ہی وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت کے کانوں پر کوئی جوں تک رینگی۔ کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کی گئی، مشکلات بڑھتی گئیں اور عمران خان ایک مشکل وقت سے گزر کر جب 8 فروری تک پہنچے تو نہ ان کے پاس ان کی جماعت کا نشان ”بلا“ تھا اور نہ ہی ان کے ساتھی بچے تھے۔ وہ یا تو چھپے ہوئے تھے یا جیلوں میں تھے (انہیں جن مصائب سے گزرنا پڑا وہ اب اسمبلیوں میں بیان کررہے ہیں) لیکن 8 فروری کو وہ ہوا جس کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سوچا بھی نہ تھا اور نہ ہی انکی پشت پناہی کرنے والوں کے گمان میں تھا۔ لوگ گھروں سے نکلے اور انہوں نے بساط ہی الٹ دی۔ ”9مئی کے الیکشن ڈے“ کے ذریعے ”معاملات“ برابر کرنے کی کوشش کی گئی، مگر نہیں ہوسکے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود آج قومی اسمبلی میں اپوزیشن 92 اراکین اسمبلی پر مشتمل ہے اور یہ وہ تعداد ہے، جس میں مخصوص نشستیں شامل نہیں ہیں۔ اس اپوزیشن کے تمام ہی ارکان مصائب اور سختیوں کا شکار ہوکر یہاں پہنچے ہیں لہٰذا یہ ارکان اب نہ کسی کی سننے کو تیار ہیں اور نہ سن رہے ہیں۔ 29 مارچ کو اسمبلی میں یہ ارکان عمران خان کے چہرے والے ماسک، گلے میں تحریک انصاف کے مفلر اور ہاتھوں میں اپنے لیڈر کی تصویریں لے کر داخل ہوئے۔ قومی اسمبلی میں عمر ایوب خان، عامر ڈوگر، شیر افضل مروت، گوہر علی خان، جنید اکبر خان اور دیگر کی تقاریر میں ”شعلوں کی تپش“ تھی اور پھر رہی سہی کسر محمود خان اچکزئی کی تقریر نے پوری کردی۔ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ اسمبلی ”ٹھنڈی“ نہیں ہوگی۔ حکومت بنانا اور چلانا آسان نہیں ہوگا۔ 29 فروری کو اسمبلی کے اندر جو نعرے بازی کی گئی اور جس طرح سے اپوزیشن کے مقررین نے حکومتی ارکان کو گھس بیٹھئے، نامعلوم افراد، فارم 47 والے ووٹ چور قرار دیا، وہ آنے والے دنوں کی ایک تصویر ہے۔ اسمبلی میں سب سے خوفناک تقریر جناب محمود خان اچکزئی کی تھی جن کا کہنا تھا کہ اس اسمبلی پر نہایت بھونڈے انداز میں حملہ کیا گیا ہے اور سیٹیں چھین لی گئی ہیں۔ نتائج تبدیل کرکے ملک اور آئین سے غداری کی گئی ہے، یہاں تو عہدے پہلے ہی بانٹ لئے گئے تھے، لیکن 8 فروری کو گھروں سے نکلنے والے نوجوانوں کے سیلاب نے سب کچھ بدل دیا۔ یہ ان کی طویل تقریر کا مختصر سا خلاصہ ہے کہ جس کے ذریعے انہوں نے بتا دیا کہ ”حقائق“ کیا ہیں۔

رمضان پیکج میں کیا کیا شامل ہے؟ وزیراعلیٰ پنجاب نے بتا دیا، ذخیرہ اندوزوں کیخلاف سخت کارروائی کی وارننگ دیدی

جناب محمود خان اچکزئی نے ایک نعرہ اور بھی لگایا کہ یہی پارلیمنٹ عمران خان کی رہائی کی قرارداد منظور کریگی۔ یہ بیانیہ ان کے لئے جو عمران خان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے بیحد تکلیف دہ تھا۔ جنید اکبر خان نے پارٹی کی پالیسی واضح کردی اور کہا ہم یہاں مفاہمت کے لئے نہیں آئے ہیں، مفاہمت نہیں ہوگی جب تک ہمارا حق نہیں ملتا ایوان کو چلنے نہیں دیں گے، یہاں تو نامعلوم لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ جو حکومتی ارکان یہاں بیٹھے ہیں ان کے تو اپنے بچے نہیں مانتے کہ یہ جیتے ہوئے ہیں۔ شیر افضل مروت جو کہ اپنی تلخ نوائی اور شعلہ بیانی کے لئے مشہور ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے الیکشن چیلنج کریں گے، کیونکہ یہاں پر ایوان میں تعداد پوری نہیں ہے۔ ہمیں ہماری مخصوص سیٹیں نہیں ملی ہیں۔ خواجہ آصف تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن نے ”ووٹ چور“ کے نعرے لگائے جس پر خواجہ آصف نے اپنی کلائی سے گھڑی اتار کر دکھائی اور مسلم لیگی ارکان نے ”گھڑی چور“ کے نعرے لگائے۔ شیر افضل مروت کا کہنا تھا یہ گھڑی دکھائیں، میں انکو جوتا دکھاؤں گا اور پھر جوتے دکھائے بھی گئے۔ تحریک انصاف کے اراکین نے حکومتی ارکان کو ”گھس بیٹھئے“ بھی قرار دیا۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یہ گھڑیوں کی بات کرتے ہیں، انہیں درجنوں گھڑیوں، پائن ایپل کے ڈبوں اور بی ایم ڈبلیو کا حساب دینا ہے۔ حکمرانوں کو آنے والے حالات کی شکل نظر آگئی ہے۔ خالی خزانے کے بعد یہ ”مشتعل اپوزیشن“ کو کیسے سنبھالیں گے؟ یہ کڑا امتحان شروع ہوچکا ہے۔

سابق بھارتی کپتان دھونی کا بطور ٹکٹ کلیکٹر کام کرنے کا اپوائنٹمنٹ لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل

QOSHE -       اب تو ایسے ہی چلے گا - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      اب تو ایسے ہی چلے گا

7 0
06.03.2024

”اب تو ایسے ہی چلے گا“…… چھ حرفی جملہ ہے، مگر اس چھوٹے سے جملے میں 25 کروڑ عوام کے نمائندوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے آنے والے دنوں کا احوال پوشیدہ ہے۔ یہ چھ حرفی جملہ 29 مارچ کو پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان نے سپیکر راجہ پرویز اشرف کے سوال پر ادا کیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن ارکان کے شور شرابے پر راجہ پرویز اشرف نے عمر ایوب خان سے کہا کہ کیا ایسے چلے گا؟ تو عمر ایوب کا کہنا تھا ”ہاں اب تو ایسا ہی چلے گا“…… لیکن یہ ایسے کیوں چلے گا؟ اس کے لئے 6 سال پیچھے 17 اگست 2018ء میں واپس جانا پڑے گا۔ وہ دن جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان اسمبلی نے حلف اٹھایا اور جب سپیکر اسد قیصر نے عمران خان کو خطاب کی دعوت دی تو اپوزیشن کے اراکین اسمبلی نے عمران خان کی نشست کا گھیراؤ کرلیا اور مخالفانہ نعرے بازی شروع کردی۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی عمران خان کی مدد کو پہنچے اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ قومی اسمبلی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگی۔ عمران خان ایوان میں صرف 12 منٹ ہی تقریر کرسکے۔ اذان کی آواز پر عمران خان تقریر ختم کرکے ایوان سے چلے گئے، مگر پھر اس کے بعد ایوان نارمل نہ ہوسکا۔ پی ٹی آئی کے پورے دور میں اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج جاری رکھا اور عمران خان اسی لئے اسمبلی میں آنے سے گریز کرتے رہے۔ عمران خان کو دو سال قبل قرارداد عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے رخصت کیا گیا، جس کے بعد عمران خان اور انکی جماعت کا ایک ایسا سفر شروع ہوا کہ جو اُردو والا ”سفر“ نہیں،بلکہ حقیقت میں انگریزی والا ”Suffer“ تھا۔ مشکلات، مصائب اور تکلیف دہ سفر۔ اس میں یقیناً عمران خان نے غلطیاں کیں، مگر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play