سنن ابی داؤد (کی حدیث نمبر 4029) اور سنن ابن ماجہ (کی حدیث نمبر 3606) کے مطابق نبی کریمؐ نے لباس شہرت پہننے سے منع فرمایا ہے۔

لاہو شہر، اتوار کا دن، دوپہر کا وقت، ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ اچھرہ بازار میں شاپنگ کے لیے آئی۔ اس نے ایسا لباس پہن رکھا تھا جس پر عربی زبان میں کیلی گرافی کی گئی تھی۔ یہ لباس ایک عرب ملک کا مشہور برانڈ تھا جسے پاکستان میں اس خاتون نے پہلی بار استعمال کیا تھا۔ دِل و دماغ کی طرح ہماری آنکھیں مانوسیت کی عادی ہیں، جہاں کہیں بھی کوئی غیر مانوس چیز نظر آئے وہاں اکٹھ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اس طرح کا لباس بالکل اجنبی اور غیر مانوس تھا، لہٰذا کسی نے دیکھا تو یہی سمجھا کہ لباس پر قرآن مجید کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا اور یوں ایک ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہو گیا۔ اسلام اور پاکستان سے بدظن ایک طبقے نے اس ہجوم کو مذہبی جنونیوں کا نام دیا اور اسلام کو ایک شدت پسند مذہب سے تعبیر کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی تو ایک مداری کے اردگرد بھی ہجوم بنا لیتے ہیں اور ویسے بھی اگر کسی جگہ لوگ اکٹھا ہونا شروع ہو جائیں تو باقی لوگ بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہیں جمع ہو جاتے ہیں کہ ہوا کیا ہے؟ یوں بھی جب سے سوشل میڈیا سے پیسے کمانے کا زمانہ آیا ہے تب سے لوگ اخلاقیات اور اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے ویڈیو بنانے یا لائیو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

آرمی چیف کے ایک ہاتھ میں کمانڈ سٹک اور دوسرے ہاتھ میں بلاول کا ہاتھ، مسکراہٹوں کا تبادلہ، تصویر بھی سامنے آگئیں

بہرحال یہ سب مذہبی جنونی نہیں تھے اور نہ ہی ٹی ایل پی کے کارکن تھے، بلکہ یہ سب اپنے تجسس اور اپنی تماش بین فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں جمع ہوئے تھے، اسی دوران کسی نے ایک اور ڈیڑھ کے درمیان پولیس کو فون کر دیا کہ کسی عورت پر توہین قرآن یا رسالت کا الزام ہے جو ایک ریستوران میں ہے اور کافی لوگ اس کے باہر جمع ہیں۔ پولیس کو اپنی گاڑیاں تقریباً آدھ کلومیٹر دور کھڑی کرنا پڑیں، کیونکہ وہاں تک گاڑیوں کا پہنچنا دشوار تھا۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو وہاں تقریباً دو سو سے تین سو لوگ جمع تھے۔اس واقعے کا دوسرا پہلو علماء سے متعلق ہے جس سے بھی انصاف نہ برتا گیا، کہا گیا کہ علماء عربی زبان کو بھی توہین قرآن سمجھ رہے تھے حالانکہ کسی بھی عالم کا ایسا کوئی موقف ریکارڈ نہیں کیا گیا، کسی نے کالم لکھے کہ ”حلوہ ہماری ریڈ لائن ہے“ جبکہ کسی نے پھبتیاں کسیں کہ یہ لوگ سعودی عرب جائیں تو وہاں عربی زبان میں بیت الخلا لکھا ہوا ہو تو اسے بھی چومنے لگتے ہیں، یعنی جان بوجھ کر علماء کے کردار کو الجھایا گیا اور اسے منفی انداز میں پیش کیا گیا،حالانکہ اس واقعہ میں علماء کا کردار سودمند اور انتہائی مثبت تھا۔ جب وہاں ایک ہجوم جمع تھا تو یہ علماء ہی تھے، جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی اور ہجوم کو سمجھایا کہ خاتون کے لباس پر قرآن کی آیات یا احادیث کی بجائے عربی کیلی گرافی کی گئی ہے اگر علماء یہ کردار ادا نہ کرتے تو نتیجہ مختلف بھی ہو سکتا تھا۔ علماء کے کردار کو مزید منفی کرنے کے لئے کہا گیا کہ مذکورہ خاتون پولیس افسر نے جرأت مندانہ کردار ادا کیا۔ بے شک اس کا کردار اہم تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہجوم میں کسی ایک فرد نے اس عورت پر حملہ کیا؟

سلمان خان کے باڈی گارڈ نے آننت امبانی کی فرمائش پوری کردی

تیسرا پہلو: کہاگیا کہ پاکستانی عوام مذہب کی توہین برداشت نہیں کرتے، لیکن حالت یہ ہے کہ انھیں قرآن اور عربی زبان کے عام الفاظ میں فرق تک معلوم نہیں۔ ایسا بیانیہ بنانا ہی انتہائی درجے کی بددیانتی ہے۔ جو ”دانشوڑ“ یہ کہہ رہے ہیں، اگر ان کے سامنے قرآن اور دیگر عربی فقرات اکٹھے کر کے تمیز کا کہا جائے تو وہ بھی ایسا نہیں کر پائیں گے۔سارے عوام حافظ نہیں ہیں کہ انہیں اندازہ ہوتاکہ یہ قرآنی آیات ہیں یا دیگر عربی الفاظ اور عبارات؟ لہذا جونہی علمائے کرام اور حفاظ موقع پر پہنچے تو واضح ہو گیا کہ یہ عربی کیلی گرافی ہے نہ آیاتِ قرآنی، بالخصوص ٹی ایل پی کی مقامی قیادت نے کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہونے میں بھرپور کردار ادا کیا جس کی خود پولیس بھی معترف ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ پاکستانی معاشرے میں علماء کا کردار مسلمہ ہے۔ دانشور حضرات کو چاہئے کہ گلہ کرنے سے پہلے واقعات کو حقائق کے ترزاو پر تولیں کیونکہ جب تک اپنے اندر کی خواہشات اور نفرت کو حقائق کا نام دیا جاتا رہے گا تب تک شدت پسندی کا خاتمہ ہو گا اور نہ ہی جہالت کا اندھیرا ختم ہو گا۔

کچے میں آپریشن،ایک ٹھکانے سے دوسری جگہ منتقلی کے دوران چار مغوی کو بازیاب کرالیا گیا

واقعہ کہیں بھی ہو اور ذمہ دار کوئی بھی ہو، لیکن ان ”دانشوروں“ کے نزدیک ذمہ دار ”ان پڑھ“ مولوی ہے، لیکن یہی دانشور حضرات یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ صوبہ خیبر کی ”کپتانی شعور یافتہ“ اسمبلی میں ایک خاتون کے ساتھ جو ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ایک نہتی خاتون پر ”غیرت مندوں“ نے جوتے، نشے کی پڑیاں اور لوٹے اچھالے اور اسے اس دور کی سب سے مکروہ گالی دی گئی، عرب دور جہالت کی طرح اسمبلی کے فلور پر اس کی بولی لگائی گئی، بلکہ بعد ازاں ان غلیظ حرکات کا دفاع بھی کیا گیا، یہ تو سارے پڑھے لکھے تھے،بلکہ انہیں توریاست مدینہ بنانے کے ایک دعویدار نے ”شعور“ بھی عطاء کیا ہوا تھا۔

بارشوں کے نئے سپیل کی پیش گوئی

نبی کریمؐ نے لباسِ شہرت پہننے سے منع کیا، یعنی ایسا لباس جو کسی خاص معاملے میں مشہور ہو گیا جیسا کہ عربی زبان کا ایک خاص انداز قرآن مجید کی آیات کے حوالے سے مشہور ہے۔ بہت سی چیزیں اسلام میں ممنوع نہیں ہیں، لیکن اچھرہ جیسے بعض مفاسد کی وجہ سے ممنوع ٹھہرائی گئی ہیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے بچا جا سکے۔

QOSHE -         اَن پڑھ مولوی اورتعلیم یافتہ ممبرانِ شعور ستان اسمبلی! - کوثر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        اَن پڑھ مولوی اورتعلیم یافتہ ممبرانِ شعور ستان اسمبلی!

12 0
05.03.2024

سنن ابی داؤد (کی حدیث نمبر 4029) اور سنن ابن ماجہ (کی حدیث نمبر 3606) کے مطابق نبی کریمؐ نے لباس شہرت پہننے سے منع فرمایا ہے۔

لاہو شہر، اتوار کا دن، دوپہر کا وقت، ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ اچھرہ بازار میں شاپنگ کے لیے آئی۔ اس نے ایسا لباس پہن رکھا تھا جس پر عربی زبان میں کیلی گرافی کی گئی تھی۔ یہ لباس ایک عرب ملک کا مشہور برانڈ تھا جسے پاکستان میں اس خاتون نے پہلی بار استعمال کیا تھا۔ دِل و دماغ کی طرح ہماری آنکھیں مانوسیت کی عادی ہیں، جہاں کہیں بھی کوئی غیر مانوس چیز نظر آئے وہاں اکٹھ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اس طرح کا لباس بالکل اجنبی اور غیر مانوس تھا، لہٰذا کسی نے دیکھا تو یہی سمجھا کہ لباس پر قرآن مجید کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا اور یوں ایک ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہو گیا۔ اسلام اور پاکستان سے بدظن ایک طبقے نے اس ہجوم کو مذہبی جنونیوں کا نام دیا اور اسلام کو ایک شدت پسند مذہب سے تعبیر کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی تو ایک مداری کے اردگرد بھی ہجوم بنا لیتے ہیں اور ویسے بھی اگر کسی جگہ لوگ اکٹھا ہونا شروع ہو جائیں تو باقی لوگ بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہیں جمع ہو جاتے ہیں کہ ہوا کیا ہے؟ یوں بھی جب سے سوشل میڈیا سے پیسے کمانے کا زمانہ آیا ہے تب سے لوگ اخلاقیات اور اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے ویڈیو بنانے یا لائیو جانے کو ترجیح دیتے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play