قسمت کا کھیل
نوازشریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم نہ بن سکے۔ یہ قسمت کا کھیل ہے یا سیاست کا کچھ نہیں کہا جا سکتا پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے، کہاں چند ہفتے پہلے خود شہباز شریف یہ کہتے تھے نوازشریف چوتھی بار وزیر اعظم بن کر ترقی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے، جہاں سے روکا گیا تھا اور کہاں یہ عالم کہ نوازشریف صرف انہیں مبارکباد دینے تک محدود ہو گئے ہیں۔ اب یہ تو کوئی کہہ نہیں سکتا نوازشریف جب لندن سے چار سال بعد واپس آئے تھے تو ان کے ذہن میں وزیر اعظم بننے کا کوئی خیال نہیں تھا، وہ صرف قائد مسلم لیگ (ن) کی حیثیت سے آئے تھے۔ کیونکہ اُنہوں نے واپسی پر جو تقریر کی تھی اور اس کے بعد تمام اخبارات کے صفحہ اول پر ایک بڑے اشتہار کی صورت ان کے وزیر اعظم بننے کی مبارکباد دی گئی تھی اس سے تو یہی لگتا تھا ان کا راستہ صاف ہو چکا ہے، مگر کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا پتہ ہی صاف کر دیا گیا ہے، ابھی تک یہ راز نہیں کھلا کہ آخر وقت پر یہ فیصلہ کس نے کیا۔ یہ فیصلہ نوازشریف نے تو ہرگز نہیں کیا کہ انہیں وزیر اعظم نہ بنایا جائے وہ ایک قائد اور راہبر کی حیثیت سے پارٹی کی سرپرستی کریں گے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ آخر وقت پر ہاتھ کر گئی، کیا واقعی کوئی ایسا خوف یا رکاوٹ تھی جس کے باعث نوازشریف کے نام پر کاٹا لگا کر شہباز شریف کے نام کو اوکے کیا گیا۔ اب گیم بہت خوبصورت انداز میں سجائی گئی ہے۔ نوازشریف کی کمزوری مریم نوازشریف ہیں۔ وہ انہیں اپنا جانشین سمجھتے ہیں، چاہتے تو اپنی جگہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کے لئے نامزد کر سکتے تھے۔ پارٹی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ان کی اس خواہش پر اعتراض کرتا مگر شاید اس کی ”اجازت“ نہیں ملی اس صورت میں شاید آصف علی زرداری بھی معترض........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website