ناصر کاظمی یکم دسمبر 1923ء کو محلہ قاضی واڑہ شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم نوشہرہ اور انبالہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم کا بقیہ حصہ مکمل کیا۔ناصر کاظمی نے اپنی تحقیقی زندگی کی ابتداء تیرہ برس کی عمر میں کی اور ابتداء میں نظمیں اور پھر غزلیں کہیں،انہیں بطور شاعر مقبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب وہ ایف اے کے طالب علم تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے اشعار کی مہک گوشے گوشے میں پھیل چکی تھی اور پاکستان کو ناصر کاظمی کی شکل میں ایک نیا غزل گو شاعر مل چکا تھا۔ناصر کاظمی 1939ء میں ریڈیو پاکستان کے لاہور سنٹر کے ساتھ بطور سکرپٹ رائٹر منسلک ہو گئے۔ ریڈیو پر ناصر کاظمی کا پروگرام ”سفینہ غزل“ بہت مقبول ہوا۔ پروگرام کا سکرپٹ وہ خود لکھتے اور مختلف کلاسیکی شعرأ کا کلام منتخب کر کے بڑے بڑے گلوکاروں کی آواز میں پیش کیا جاتا تھا۔ادب‘ آرٹ‘ موسیقی اور فلسفہ سے ان کی خصوصی دلچسپی کا اظہار تخلیقی اعتبار سے ریڈیو پر ہی ہوا اور انہوں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران اپنے اس خوبصورت شغف کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ وہ مختلف ادبی جریدوں ”اوراق نو‘ ہمایوں‘ خیال“ کے مدیر بھی رہے۔ وہ محکمہ سماجی بہبود آبادی میں ملازم بھی رہے اور 1959ء سے لے کر 1964ء تک ولیج ایڈ محکمہ کے رسالہ ”ہم لوگ“ کے نائب مدیر رہے۔ 1964ء سے آخری سانس تک ریڈیو پاکستان کے سٹاف آرٹسٹ رہے۔ناصر کاظمی نے نثر لکھی‘ روزنامچے تحریر کئے۔ پرندوں‘ درختوں‘ ستاروں‘ آبشاروں‘ دریاؤں‘ ندیوں‘ پہاڑوں‘ کبوتروں‘ چڑیوں اور فطرت کے ایک ایک رنگ کو اپنا ہم راز بنایا اور موسیقی‘ شطرنج‘ پتنگ‘ گھڑ سواری‘ سیر سپاٹے اور شکار سے اپنا دل بہلایا۔ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ ”برگ نے“ کے نام سے شائع ہوا۔اس کے علاوہ ان کا انتخاب کردہ کلام میر‘ نظیر‘ ولی اور انشاء بھی شائع ہو چکا ہے۔ناصر کاظمی متنوع موضوعات کے شاعر تھے۔ ان کے لہجے میں کھنک تھی، جس میں ہندوستان اور پاکستان کے بسنے والے اپنے دلوں کی دھڑکنیں محسوس کرتے تھے۔ناصر کاظمی کا نظریے سے زیادہ زمین کے ساتھ گہرا رشتہ تھا، اس زمین کے توسط سے اس کی پرندوں‘ درختوں‘ پہاڑوں‘ آبشاروں‘ ندیوں‘ دریاؤں‘ باغوں حتیٰ کہ ہر اس شے سے قربت تھی جس کے بدن سے اسے اپنی مٹی کی خوشبو آتی تھی، ان کی تمام شاعری اس خوشبو کی بازیافت کا نام ہے۔

3سنی اتحاد کونسل کا عمر ایوب کو قائد حزب اختلاف بنانے کا فیصلہ

جب سے ناصر کاظمی نے اس خوشبو سے آشنائی حاصل کی وہ اس کی مہک کے بھی رسیا رہے۔ اسی خوشبو کے سبب ان کی زندگی کے رویے ہجر ووصال کے موسموں سے آشنا ہوئے، انہی موسموں کے سبب ناصر کاظمی کے یہاں اداسیوں‘ یادوں‘ رتجگوں‘ سروں کے پھولوں‘ ستاروں‘ بسنتوں‘ چاند‘ بارشوں‘ پت جھڑوں‘ پرندوں اور درختوں کے استعاروں کے رنگ نمایاں ہوئے۔انہوں نے اپنی غزل میں تخلیقی بازیافت اور خودآگاہی کی خوشبو سے ماضی‘ حال اور مستقبل کی تہذیبی اور ثقافتی مہکاروں کو یکجا کیا۔ ناصر کاظمی کی شاعری یادوں اور خوابوں کا بیان ہے۔ ان کی شاعری کے موسم ان کے اپنے اندر کے موسموں پر مشتمل ہیں، یہ ایسے موسم ہیں جن کا تعلق روح اور دِل سے ہے۔ناصر کاظمی ایسے شاعر تھے جنہوں نے اقبال کے بعد غزل کو نہ صرف نیا پیراہن عطا کیا بلکہ اسے استحکام بھی بخشا۔اردو شاعری میں ناصر کاظمی کا نام تابندہ وپائندہ رہے گا۔ پروفیسر احمد عقیل روبی لکھتے ہیں کہ ناصر کاظمی الفاظ کے حسب نسب سے واقف تھے۔ اس لئے ان کے استعمال میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ شعر ہو‘ نثر یا گفتگو انہیں الفاظ کو صحیح استعمال کرنے کا ہنر آتا تھا۔ سجاد باقر رضوی ہمیشہ طالب علموں کی نئی کھیپ سے ہاتھ جوڑ کر یہی کہا کرتے تھے:”یارو! لاہور کے اس گنبد بے در میں جہاں جی چاہے جا کر خاک اڑاؤ، مگر خدا کے لئے ناصر کاظمی سے بچ کر رہنا، اس کی باتیں سن کر پتھر بن جاؤ گے۔ نہ گھر کے رہو گے نہ گھاٹ کے۔“سجاد باقر رضوی ٹھیک کہتے تھے، مگر میں باوجود کوشش کے ناصر کاظمی اور ان کی صحبت سے نہ بچ سکا۔ ان کی محبت‘ شفقت‘ رہنمائی کی پھوار میں بھیگتا چلا گیا اور پھر بارش یوں برسی کہ ساری زندگی کی پیاس بجھ گئی۔ پہلے وہ میرے داخلے کے لئے پریشان تھے۔ داخلہ مل گیا تو پریشان ہو گئے کہ فرسٹ کلاس آنا چاہئے‘ فرسٹ کلاس آ گئی تو بے چین ہو گئے کہ اب نوکری ملنی چاہئے…… انار کلی سے کاغذ خود خرید کر لائے۔ہوش ترمذی سے درخواست لکھوائی۔ درخواست جیب میں رکھی۔میرا ہاتھ پکڑا اور ایجوکیشن ڈائریکٹر مصطفی شاہ کے پاس چلے گئے۔ درخواست دی، گفتگو کی اور گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں مجھے نوکری دلا دی…… میں مظفر گڑھ جانے لگا تو مجھے سٹیشن پرچھوڑنے آئے…… اور ایسی محبت میری جھولی میں ڈالی جو شاید باصر اور حسن کے حصے میں بھی نہیں آئی…… میں اپنا اٹیچی لئے ڈبے کے دروازے میں کھڑا تھا کہ ناصر کاظمی پلیٹ فارم پر کھڑے مجھے نصیحتیں کر رہے تھے…… بالکل اس ماں کی طرح جس کا بیٹا پہلی بار گھر سے باہر جا رہا ہو…… ”۔گاڑی چلی تو وہ پریشان ہو گئے۔ گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے رہے پھر اچانک کوٹ کی جیب سے ان کا ہاتھ باہر آیا اور میری طرف بڑھا کر کہنے لگے: ”جلدی میں یہی کچھ ہو سکا ہے۔ سنبھال کر خرچ کرنا میں جلدی ہی عنصر سے تمہاری Pay Slip بنوا کر بھیج دوں گا۔“ میں نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو سو کا نوٹ میرے ہاتھ میں آ گیا اور ناصر بھائی جلدی سے آدمیوں میں گم ہو گئے۔

2

ناصر کاظمی کو جھوٹ‘ سی ایس پی افسر‘ کبوتر‘ میر تقی میر‘ شیر کا شکار اور قینچی کی سگریٹ سے بہت پیار تھا۔ ناصر کاظمی سچائی کی اینٹوں سے بنی دیوار کو مبالغہ آرائی اور جھوٹ کے پلستر سے مضبوط اور دیدہ زیب بناتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اکیلا سیمنٹ دیوار پر اپنی گرفت مضبوط نہیں رکھ سکتا اس لئے اس میں ریت کی مقدار شامل کر لیتے تھے۔ ارسطو نے بوطیقا میں کئی بار کہا ہے کہ جھوٹ بولنے کا ہنر کو ئی ہومر سے سیکھے۔ ارسطو ناصر کے دور میں ہوتا تو اسے اپنا بیان تبدیل کرنا پڑتا……۔ ناصر کاظمی اس دنیا کے آدمی نہ تھے۔ ان کا تعلق کسی اور جہاں سے تھا۔ ایسا جہاں جس پر چڑیاں‘ طوطے‘ فاختائیں‘ ہرے درخت‘ جھرنے‘ ندیوں اور جھیلوں کی سرگم تھی۔ ایسی دنیا جس میں ایک تخت بچھا ہو۔ اس پر وہ بیٹھے ہوں۔ ان کے چاروں طرف سی ایس پی افسر اور ملٹری کے کپتان بیٹھے ہوں۔ وہ شعر سنا رہے ہوں اور سب داد دے رہے ہوں۔ ایک جزیرہ ہو جس کے وہ حکمران ہوں اور ان کی رعایا پرندوں کا ہجوم ہو۔ کبوتروں کی ڈاریں‘ آہیں اور پروازیں ان کے حکم سے جائیں۔ صرف شاعری کی دیوی ان کے ساتھ ہو جس کی زلفوں میں وہ خوبصورت شعروں کے موتی ٹانکتے رہیں۔ بالاخرناصر کاظمی 2 مارچ 1972ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی شاعری اور باتیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ان شا اللہ

آج سے ملک بھر میں شدید بارشوں کے ایک اور اسپیل کی وارننگ جاری کردی گئی

QOSHE -             دورِ حاضر میں غزل کے بہترین شاعر ناصر کاظمی - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

            دورِ حاضر میں غزل کے بہترین شاعر ناصر کاظمی

22 0
04.03.2024

ناصر کاظمی یکم دسمبر 1923ء کو محلہ قاضی واڑہ شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم نوشہرہ اور انبالہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم کا بقیہ حصہ مکمل کیا۔ناصر کاظمی نے اپنی تحقیقی زندگی کی ابتداء تیرہ برس کی عمر میں کی اور ابتداء میں نظمیں اور پھر غزلیں کہیں،انہیں بطور شاعر مقبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب وہ ایف اے کے طالب علم تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے اشعار کی مہک گوشے گوشے میں پھیل چکی تھی اور پاکستان کو ناصر کاظمی کی شکل میں ایک نیا غزل گو شاعر مل چکا تھا۔ناصر کاظمی 1939ء میں ریڈیو پاکستان کے لاہور سنٹر کے ساتھ بطور سکرپٹ رائٹر منسلک ہو گئے۔ ریڈیو پر ناصر کاظمی کا پروگرام ”سفینہ غزل“ بہت مقبول ہوا۔ پروگرام کا سکرپٹ وہ خود لکھتے اور مختلف کلاسیکی شعرأ کا کلام منتخب کر کے بڑے بڑے گلوکاروں کی آواز میں پیش کیا جاتا تھا۔ادب‘ آرٹ‘ موسیقی اور فلسفہ سے ان کی خصوصی دلچسپی کا اظہار تخلیقی اعتبار سے ریڈیو پر ہی ہوا اور انہوں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران اپنے اس خوبصورت شغف کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ وہ مختلف ادبی جریدوں ”اوراق نو‘ ہمایوں‘ خیال“ کے مدیر بھی رہے۔ وہ محکمہ سماجی بہبود آبادی میں ملازم بھی رہے اور 1959ء سے لے کر 1964ء تک ولیج ایڈ محکمہ کے رسالہ ”ہم لوگ“ کے نائب مدیر رہے۔ 1964ء سے آخری سانس تک ریڈیو پاکستان کے سٹاف آرٹسٹ رہے۔ناصر کاظمی نے نثر لکھی‘ روزنامچے تحریر کئے۔ پرندوں‘ درختوں‘ ستاروں‘ آبشاروں‘ دریاؤں‘ ندیوں‘ پہاڑوں‘ کبوتروں‘ چڑیوں اور فطرت کے ایک ایک رنگ کو اپنا ہم راز بنایا اور موسیقی‘ شطرنج‘ پتنگ‘ گھڑ سواری‘ سیر سپاٹے اور شکار سے اپنا دل........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play