عوامی دباؤ اور نئی حکومتیں
حکومتیں جیسے بھی بنی ہیں، اسمبلیاں جیسے بھی وجود میں آئی ہیں، وہ ایک علیحدہ کہانی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پورے نظام پر کئی سوالات موجود ہیں اور عوام کے اندر ایک بے اعتمادی بھی ہے تاہم ایک بات بہت مثبت ہے اور وہ ہے اس نئے نظام پر عوام کا دباؤ۔اب کوئی بھی سیاسی جماعت جو اقتدار میں ہے کسی نااہلی،تساہل یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کر سکتی،جنہیں اقتدار ملا ہے، وہ اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ اُس میں شفافیت کا فقدان ہے۔عوام انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں،نہ ہی کسی طریقے سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی یا کی جا رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں آٹھ فروری کے انتخابات کی ایک تلخ یاد ہے، اس کو بھلانے کے لئے ضروری ہے یہ نیا سیٹ اپ عوام کو اپنی کارکردگی سے مطمئن کرے، صرف باتوں سے اب معاملات نہیں چلائے جا سکتے،مشکلات بہت ہیں لیکن صرف یہ کہہ کر عوام کو دلاسہ نہیں دیا جا سکتا،کچھ عملی اقدامات اور کچھ انقلابی فیصلے ضروری ہوں گے۔مرکز میں شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے،اُن کے بارے میں عوام کا تاثر کچھ اچھا نہیں، اپنی سولہ ماہ کی حکومت میں انہوں نے سوائے دعوؤں کے اور کچھ نہیں کیا، عوام کبھی اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ہم نے مہنگائی کے ریکارڈ توڑ کر بچا لیا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے غریبوں پر سارا بوجھ ڈالنے کی بجائے امیر طبقے پر بوجھ ڈالنے کا راستہ اختیار کیا گیا ہو۔
3سنی اتحاد کونسل کا عمر ایوب کو قائد حزب اختلاف بنانے کا فیصلہاب تو آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا ہے ہم امیروں پر ٹیکس لگانے کی بات کرتے ہیں،حکومت غریبوں پر ٹیکس لگا دیتی ہے،پھر یہ بھی سب نے دیکھا ہے حکومت نے کبھی کفایت شعاری کا راستہ اختیار نہیں کیا، شاہانہ اخراجات میں ایک پیسے کی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website