پنجاب،سندھ، کے پی اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں حکومت سازی کے عمل کے اجراء کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی حلف کے بعد سپیکر ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کے انتخاب کا شروع ہو چکا۔ الیکشن 2024ء کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کی ایک پاور فل مہم نے انتخابی عمل کے دوران گہما گہمی کو کمزور رکھا لوگوں میں وہ زور شور اور بھاگ دوڑ دیکھنے میں نہیں آئی۔ منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر معاملات میں گرما گرمی پیدا نہ ہو سکی۔ انتخابی عمل، پولنگ مجموعی طور پر پر امن اور نارمل رہی لوگ بڑے منظم اور پُرسکون انداز میں پولنگ سٹیشنوں تک پہنچے اور اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ دشمن تھوڑی دیر کے لئے نامراد ہو گئے جو انتخابات ہونے کے حوالے سے شک و شہبات پھیلا رہے تھے انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ ریاست پاکستان نے ایک آئینی فریضہ پورا کر دکھایا۔

اے ایس پی شہربانو کے ہاتھ چومنے کی جگن کاظمی کی تصویر وائرل ہوگئی

گنتی اور نتائج کے عمل کے دوران معاملات میں بگاڑ نظر آنے لگا۔ انتخابات کے اس مرحلے پر معاملات حقیقتاً گڑبڑ نظر آنے لگے۔ نتائج پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور یہ کچھ اس طرح ہوا ہے کہ جیتنے والے بھی نوحہ کناں نظر آئے۔ ویسے اب معاملات کچھ آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں اور قوی اسمبلی فعالیت کی طرف بڑھتی جا رہی ہے لیکن انتخابی نتائج نہ ماننے والے بھی خوب فعال نظر آ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق پیر پگارو اور ایسی قد آور سیاسی شخصیات انتخابات کو جعلی قرار دے رہی ہیں عمران خان اور ہمنوا تو بلند آہنگ میں شور شرابا کر رہے ہیں آئی ایم ایف کو خط لکھا جا چکا ہے کہ کیونکہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اس لئے دھاندلی کی تحقیقات ہونی چاہئے اور پاکستان کو قرض بھی نہیں دینا چاہے کیونکہ جعلی حکومت اسے استعمال کرنے کی مجاز بھی نہیں ہے اور صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف بھی محاذ گرم کر دیا گیا ہے، عمران خان اور ہم نواپہلے کی طرح پاکستان دشمن طرز فکر وعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

سعودی شہزادہ ترکی بن عبداللّٰہ بن ناصر بن عبدالعزیز آل سعود انتقال کرگئے

ان کی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ موجودہ نظام چل نہ سکے عوام کو ریلیف نہ مل سکے مسائل میں اضافہ ہو،حکومت ناکام ہو، افراتفری پھیلے اور عمران خان و ہمنوا ایک بار پھر بھر پور قوت کے ساتھ نہ صرف سیاسی منظر پر چھا جائیں بلکہ اقتدار پرقابض ہو جائیں۔ ویسے مجموعی نقطہ نظر بھی ایسا ہی ہے کہ عوام جس کو حق نمائندگی دیں اسے اقتدار میں ہونا چاہئے۔ بادی النظر میں تو یہ درست معلوم ہوتا ہے جمہوریت کا تقاضہ بھی یہی ہے کچھ ایساہی 1971ء کے انتخابات میں بھی ہواتھا شیخ مجیب الرحمان ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان میں قطعی اکثریت کے ساتھ انتخاب جیت گئے تھے وزارت عظمیٰ ان کا حق تھا لیکن انہیں نہیں دیا گیا۔ ملٹری ایکشن کے نتیجے میں ہندوستان کو فوجی مداخلت کا جواز ملا اور مشرقی پاکستان کو ہمارے سے کاٹ پھینکا۔ پاکستان سمٹ گیا۔ اب بھی ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ عمران خان ایک باغی کے طور پر جیل میں ہیں لیکن ایک پاپولر لیڈر کے طور پر سیاسی میدان کے اہم کھلاڑی بن چکے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق فیصلہ سنا دیا

جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی شخصیات رواروی میں ان کے حق نمائندگی کی حمایت کر رہی ہیں ایسی سیاسی جماعتیں جن کی اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے وہ بھی جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہیں۔ دوسری طرف معروف سیاسی جماعتیں اور شخصیات سیاسی میدان میں کمزور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان نے اپنے نفرت انگیز اور منفی بیانیے کے ذریعے نہ صرف عوام میں مقبولیت حاصل کر رکھی،نو جوانوں کو اپنی شخصیت کے سحر میں گرفتارکر رکھا ہے بلکہ مخالفین کا ناطقہ بھی بند کر رکھا ہے روایتی اور جغادری سیاست دان، کمزور ہو تے نظر آ رہے ہیں اور عمران خان کے منفی لیکن موثر بیانیے کے بالمقابل، کوئی سیاسی جماعت ایسا بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی جو ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ الیکشن 2024ء کے نتائج نے بھی یہ بات ثابت کردی ہے کہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہے اسے عوام میں پذپرائی حاصل ہے اور وہ نظام کے خلاف اور اس نظام کے پروردہ اور مفاد یافتہ طبقات کے خلاف ہے۔

عطاتارڑ نے محمود اچکزئی کی اسمبلی میں تقریر کو قابل شرم قرار دے دیا

عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی کے دوران اپنے مخالفوں کے خلاف جس طرح کارروائیاں کیں انہیں دیوار سے لگایا، انہیں بے توقیر کیا وہ ایک تاریخ ہے اور پھر حکومت سے نکالے جانے کے بعد اس نے جس منفی طرز فکر و عمل کا مظاہرہ کیا وہ بڑا خطرناک ثابت ہوا ہے عمران خان نظام کے لئے بھی ایک خطرناک عامل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔الیکشن 2024ء کے نتیجے میں جس سیاسی وحدت کی توقع کی جا رہی تھی۔ سیاسی ہم آہنگی کودیکھا جا رہا تھا وہ تو ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ انتخابات نے سیاسی افتراق و انتشار کو اور بھی بڑھاوا دیا ہے انتخابات سے پہلے، مزاحمتی سیاست میں عمران خان اکیلے ہی کھڑے نظر آتے تھے لیکن انتخابات کے بعد ان کے ساتھ بہت سے سیاستدان کھڑے ہو چکے ہیں۔انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک ایجی ٹیشن کا سماں بنا ہوا ہے۔ عمران خان للکار رہا ہے، پھنکار رہا ہے کھل کھلا کر نظام کو ناکام بنانے اور گرانے کی کاوشیں کر رہا ہے۔

رنبیر کپور کی بہن نے بھی اداکاری کی دنیا میں قدم رکھ دیا

دوسری طرف سیاستدان ہیں پیپلز پارٹی، ن لیگ، ایم کیو ایم اور دیگر سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہیں جو اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ جس طرح مصروف سیاست ہیں جس طرح اقتدار کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ دست بہ دست اور شیر و شکر ہوتے نظر آ رہے ہیں اس سے عامتہ الناس میں کوئی بہت اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان کے تابڑ توڑ حملے اپنی وقعت بڑھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کسی حکمران سیاسی جماعت کے پاس عوام کو ریلیف دینے اور معاشی استحکام کا کوئی پلان نہیں ہے قرض کی ادائیگی اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات پانے کا کوئی شارٹ ٹرم یا لانگ ٹرم پلان نہیں ہے۔ سیاستدان اپنی کشش کھو رہے ہیں۔

نومنتخب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور آج حلف اٹھائیں گے

کپتان نے اپنے منفی سیاسی رویوں سے توبہ نہیں کی ہے بلکہ وہ ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار اگلا قدم اٹھا چکی ہے تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ کیونکہ حکومت ڈیلیور نہیں کرپائے گی اور ایک دو سال میں گر جائے گی۔ ویسے حالات بھی ایسے ہی ہیں معیشت کو ٹھیک کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے۔اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلاجا رہا ہے۔ بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتیں کسی قائدے کلیے کے بغیر بے لگام ہو کر بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں عام اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ نئی حکومت کو سب سے بڑے بحران یعنی رمضان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بحران اس لئے کہ رمضان ہمارے ہاں ویسے ہی مہنگائی کا طوفان لاتا ہے جاری حالات میں طوفان تو پہلے ہی مچا ہوا ہے اس میں اضافہ اسے سونامی میں بدل دے گا اور عوام اس میں فنا ہو سکتے ہیں۔

QOSHE -  مایوسی کے سائے  - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 مایوسی کے سائے 

11 0
02.03.2024

پنجاب،سندھ، کے پی اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں حکومت سازی کے عمل کے اجراء کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی حلف کے بعد سپیکر ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کے انتخاب کا شروع ہو چکا۔ الیکشن 2024ء کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کی ایک پاور فل مہم نے انتخابی عمل کے دوران گہما گہمی کو کمزور رکھا لوگوں میں وہ زور شور اور بھاگ دوڑ دیکھنے میں نہیں آئی۔ منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر معاملات میں گرما گرمی پیدا نہ ہو سکی۔ انتخابی عمل، پولنگ مجموعی طور پر پر امن اور نارمل رہی لوگ بڑے منظم اور پُرسکون انداز میں پولنگ سٹیشنوں تک پہنچے اور اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ دشمن تھوڑی دیر کے لئے نامراد ہو گئے جو انتخابات ہونے کے حوالے سے شک و شہبات پھیلا رہے تھے انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ ریاست پاکستان نے ایک آئینی فریضہ پورا کر دکھایا۔

اے ایس پی شہربانو کے ہاتھ چومنے کی جگن کاظمی کی تصویر وائرل ہوگئی

گنتی اور نتائج کے عمل کے دوران معاملات میں بگاڑ نظر آنے لگا۔ انتخابات کے اس مرحلے پر معاملات حقیقتاً گڑبڑ نظر آنے لگے۔ نتائج پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور یہ کچھ اس طرح ہوا ہے کہ جیتنے والے بھی نوحہ کناں نظر آئے۔ ویسے اب معاملات کچھ آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں اور قوی اسمبلی فعالیت کی طرف بڑھتی جا رہی ہے لیکن انتخابی نتائج نہ ماننے والے بھی خوب فعال نظر آ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق پیر پگارو اور ایسی قد آور سیاسی شخصیات انتخابات کو جعلی قرار دے رہی ہیں عمران خان اور ہمنوا تو بلند آہنگ میں شور شرابا کر رہے ہیں آئی ایم ایف کو خط لکھا جا چکا ہے کہ کیونکہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اس لئے دھاندلی کی تحقیقات ہونی چاہئے اور پاکستان کو قرض بھی نہیں دینا چاہے کیونکہ جعلی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play