جس طرح سائنس آج تک اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر سکی کہ پہلے مُرغی آئی تھی یا انڈہ؟اِسی طرح ہم پاکستانی بھی آج تک اِس کشمکش سے نہیں نکل سکے کہ پہلے ”مولوی“ آئے تھے یا ”حلوہ“۔مولوی اور حلوے کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ ایک مولوی سے کسی نے پوچھا ”مولوی صاحب حلوہ کھاؤ گے؟ تومولوی نے انتہائی برجُستگی سے جواب دیا کہ ”اَنّے(اندھے) کس لئے ہوئے ہیں؟ عام حالات میں تو مولوی حلوہ کھانے سے پہلے ”اندھے“بنتے ہیں، لیکن حلوے کا جلوہ کرتے ہی ان کی آنکھوں کا ”نُور“ واپس آ جاتا ہے۔تاہم لاہور کے اچھرہ بازار میں پیش آنے والا واقع اپنی نوعیت کا یہ پہلا ہے،جب اچھی بھلی آنکھیں رکھنے والے مولوی ”حلوہ“ دیکھ کر ”اندھے“ ہو گئے۔

اے ایس پی شہربانو کے ہاتھ چومنے کی جگن کاظمی کی تصویر وائرل ہوگئی

یوں تو اچھرہ واقع کی کئی جہتیں ہیں،جن میں مشتعل ہجوم کا ایک بے گناہ لڑکی پر دھاوا، پولیس، ڈولفن فورس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کی موجودگی میں سینکڑوں افراد کامتاثرہ خاتون کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا، اے ایس پی گلبرگ اور متاثرہ خاتون کا پولیس کی گاڑی تک پیچھا کرنا، شہر بانو نقوی کے سامنے ایک مسلح شخص کی خاتون کو گولی مار کر قتل کرنے کی للکار اور سینکڑوں افراد کی یہ نعرے بازی کہ خاتون کی ایک ہی سزا، ”سر تن سے جُدا“۔ واقع کا ”ڈراپ سین“ یہ کہ اس بے گناہ خاتون سے مولویوں اور کیمروں کی موجودگی میں نم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں ایک ایسے گناہ کی معافی منگوانا جو اُس نے کیا ہی نہیں۔

سعودی شہزادہ ترکی بن عبداللّٰہ بن ناصر بن عبدالعزیز آل سعود انتقال کرگئے

مذکورہ بالا تمام تر حقائق انتہائی المناک ہیں جن کا آگے چل کر جائزہ لیتے ہیں۔تاہم واقع کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان نیم خواندہ مولویوں نے اپنی جہالت پر خود اپنے ہاتھوں سے مہر ثبت کر دی ہے۔خاتون کے لباس پر عربی حروف کا پرنٹ پوری دنیا کے نیشنل اور سوشل میڈیا پر دیکھا یا گیا ہے، جس پر عربی لفظ ”حلوہ“ لکھا ہوا ہے اوراردو زبان میں اس کے لغوی معنی ہیں ”میٹھا“۔اگر آپ اپنے سمارٹ فون پر عربی / اردو ٹرانسلیٹر ”گوگل“ کریں تو با آسانی لفظ ”حلوہ“ کا مطلب جان سکتے ہیں تاہم لاہور کے اچھرہ بازارمیں 300 سے زائد افراد جو خاتون کو گھیر کر اُس کی جان لینے کے در پہ تھے، ان میں سے کسی نے بھی حلوہ کا مطلب جاننے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ واقع کی ویڈیو میں بڑے شفاف انداز میں لوگوں کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ یہ لباس دین اسلام کے ساتھ مذاق ہے اور توہین مذہب کی مرتکب اس خاتون کو جان سے مار دیا جائے۔لہٰذا اچھرہ واقع کے بعد اس امر کی تصدیق میں کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ پاکستان کا شدت پسند مولوی دین اسلام سے کتنا دُور ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق فیصلہ سنا دیا

اِس واقع کا قابل ِ ستائش پہلو یہ ہے کہ ایک بہادر خاتون پولیس آفیسر ایک بے گناہ لڑکی کو مشتعل ہجوم سے چھڑا کر لے جانے میں کامیاب ہوئی، لیکن اس کی جزئیات ملاحظہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر کسی بھی شخص کی جان لینا کس قدر آسان ہو چکا ہے۔ خاتون پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ صرف گلبرگ کی حدود میں گزشتہ ایک سال کے دوران توہین مذہب کے تین مختلف واقعات بھگتائے ہیں اور یہ چوتھا معاملہ ان کے سامنے آیا ہے۔خاتون پولیس آفیسر نے بتایا کہ توہین مذہب کے واقعات میں ہجوم کو قابو کرنا بہت حساس مسئلہ ہوتا ہے، اس واقع میں ایک مسلح شخص بھی تھا، جس نے کمر پر گولیوں سے بھرا ہوا پستول لگایا ہوا تھا اور اس شخص کا کہنا تھا کہ میں اس خاتون کو جان سے مارنے لگا ہوں جسے بعد میں پولیس نے ”آن بورڈ“ لیا۔ بعد ازاں خاتون کو کسی دوسری ڈویژن کے نامعلوم تھانے میں لے جا کر دیگر ”سٹیک ہولڈرز“ یعنی مولویوں کے سامنے نا کردہ گناہ کی معافی منگوائی گئی، پولیس کے بقول اس کا مقصد متاثرہ خاتون کو آئندہ کے لئے ”سیکیور“ کرنا تھا۔

عطاتارڑ نے محمود اچکزئی کی اسمبلی میں تقریر کو قابل شرم قرار دے دیا

پاکستان میں توہین مذہب ایک ایسا ہتھیار ہے، جس کا شکا ر کوئی بھی، کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، اس الزام کے تحت جان گنوانے کے لئے کسی تصدیق کی ضرورت نہیں، نہ کوئی عدالت، نہ گواہ، نہ چھان بین اور نہ ہی صفائی کا موقع ملتا ہے،بلکہ انصاف فراہم کرنے والی ریاستی مشینری اس کے سامنے بے بس ہے۔فیض آباد دھرنوں میں تحریک لبیک پاکستان کے نام سے جو گروہ پاکستان کے طول و ارض پر ابھرا ہے اس کے بعد سے ملک مذہبی انتہاء پسندی کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے خاص طور پر پنجاب میں توہین مذہب کی آڑ میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔پچھلے دنوں چیف جسٹس آف پاکستان سانحہ جڑانوالہ کیس میں پنجاب پولیس پر برہم تھے جن کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت قادیانی فرقے کی ترویج کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج،پنجاب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تو درکنار، وفاقی وزراء اور حکومتی اراکین بھی اس سے محفوظ نہیں۔ توہین مذہب کے الزام میں جان گنوانے والے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اپنا قتل ہونے تک خود پر لگے الزام کی تردید کرتے رہے، جبکہ ان کی حمایت میں بات کرنے والے پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔

رنبیر کپور کی بہن نے بھی اداکاری کی دنیا میں قدم رکھ دیا

آج سے چارسال قبل اٹک میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر نے غیر مسلموں کے حقوق پر بات کی تو وہاں موجود ہجوم مشتعل ہو گیا، جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کو معافی مانگنی پڑی۔ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان، سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا دیاودھنہ، خانیوال کے مشتاق احمداورسانحہ جڑانوالہ کے حالیہ فسادات سمیت درجنوں ایسی مثالیں ملتی ہیں جب پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے شہریوں کو جان سے مار ڈالا۔ اچھرہ واقع کے بارے میں بات کرتے ہوئے اے ایس پی شہربانو نقوی کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے معاملے میں زیادہ ترقتل اِس لئے ہو جاتے ہیں کہ پولیس کو ریسکیو کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

نومنتخب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور آج حلف اٹھائیں گے

آج پاکستان میں حالات اس نہج پر ایسے نہیں پہنچے۔ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں سیاست اور مفادات کے لئے جس طرح مذہب کا استعال کیا گیا یہ انتہاء پسندی اسی کا شاخسانہ ہے۔

QOSHE -  حلوہ اورموت کا جلوہ - صبغت اللہ چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 حلوہ اورموت کا جلوہ

22 0
02.03.2024

جس طرح سائنس آج تک اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر سکی کہ پہلے مُرغی آئی تھی یا انڈہ؟اِسی طرح ہم پاکستانی بھی آج تک اِس کشمکش سے نہیں نکل سکے کہ پہلے ”مولوی“ آئے تھے یا ”حلوہ“۔مولوی اور حلوے کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ ایک مولوی سے کسی نے پوچھا ”مولوی صاحب حلوہ کھاؤ گے؟ تومولوی نے انتہائی برجُستگی سے جواب دیا کہ ”اَنّے(اندھے) کس لئے ہوئے ہیں؟ عام حالات میں تو مولوی حلوہ کھانے سے پہلے ”اندھے“بنتے ہیں، لیکن حلوے کا جلوہ کرتے ہی ان کی آنکھوں کا ”نُور“ واپس آ جاتا ہے۔تاہم لاہور کے اچھرہ بازار میں پیش آنے والا واقع اپنی نوعیت کا یہ پہلا ہے،جب اچھی بھلی آنکھیں رکھنے والے مولوی ”حلوہ“ دیکھ کر ”اندھے“ ہو گئے۔

اے ایس پی شہربانو کے ہاتھ چومنے کی جگن کاظمی کی تصویر وائرل ہوگئی

یوں تو اچھرہ واقع کی کئی جہتیں ہیں،جن میں مشتعل ہجوم کا ایک بے گناہ لڑکی پر دھاوا، پولیس، ڈولفن فورس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کی موجودگی میں سینکڑوں افراد کامتاثرہ خاتون کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا، اے ایس پی گلبرگ اور متاثرہ خاتون کا پولیس کی گاڑی تک پیچھا کرنا، شہر بانو نقوی کے سامنے ایک مسلح شخص کی خاتون کو گولی مار کر قتل کرنے کی للکار اور سینکڑوں افراد کی یہ نعرے بازی کہ خاتون کی ایک ہی سزا، ”سر تن سے جُدا“۔ واقع کا ”ڈراپ سین“ یہ کہ اس بے گناہ خاتون سے مولویوں اور کیمروں کی موجودگی میں نم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں ایک ایسے گناہ کی معافی منگوانا جو اُس نے کیا ہی نہیں۔

سعودی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play