قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جو مناظر دیکھنے کو ملے، وہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ اسمبلی بزم گاہ کی بجائے رزم گاہ ثابت ہوگی۔ اصل میں جب حالات کو سلجھانے کی بجائے لٹکانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے تو مسائل حل نہیں ہوتے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ انتخابات جس طرح ہوئے، نتائج جس طرح آئے اور پھر جس طرح الیکشن کمیشن مرضی سے اپیلوں کے فیصلے کرتا رہا، اس کی وجہ سے خرابی کی بنیاد تو پہلے ہی رکھ دی گئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس بار جو قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے، وہ تلخیاں ساتھ لائی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں اس وقت جو کشیدہ فضا ہے، وہ شاید پہلے کی اسمبلیوں میں اس سطح کی نہیں رہی۔ حیرت اس پر ہے کہ مسلم لیگی بنچوں سے گھڑی لہرا کر گھڑی چور کی صدائیں لگتی رہیں۔

سعودی شہزادہ ترکی بن عبداللّٰہ بن ناصر بن عبدالعزیز آل سعود انتقال کرگئے

حالانکہ جو حکومت بنانے والے ہوتے ہیں، وہ جلتی پر تیل نہیں پانی ڈالتے ہیں۔ ایک لیڈر جو جیل میں بیٹھا ہے، اس کے بارے میں اسمبلی کے اندر آواز اٹھائیں گے تو مخالف سمت سے آواز ضرور آئے گی۔ پہلے اجلاس میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی عمران خان کی تصویریں اور پلے کارڈ لے کر آئے، انہوں نے چہروں پر عمران خان کے ماسک بھی پہن رکھے تھے۔ پھر جس طرح ہر رکن ان کے لئے نعرے لگاتا رہا اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اجلاس جب بھی ہوگا، عمران خان کی غیر مرئی موجودگی اجلاس میں رہے گی،ابھی تو وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ آنا ہے۔ اس دن کیا ہوتا ہے،کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم تحریک انصاف کے بعض ارکان کے خیالات سن کر یوں لگا کہ جیسے اس دن اسمبلی میں ایک بڑے ہنگامے کی توقعات بے جا نہیں۔ سب نے پہلے اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی بے بسی دیکھی۔ وہ ارکان کو چپ کرانے اور اجلاس کو پرامن انداز سے چلانے میں بالکل بے بس نظرآئے۔ میری نظر سے احسن اقبال کا ایک بیان گزرا ہے جس میں انہوں نے دھمکی دی ہے کہ انتشار پیدا کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

لاہور ہائی کورٹ نے کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق فیصلہ سنا دیا

نجانے ہمارے ان رہنماؤں کو کب یہ بات سمجھ آئے گی کہ طاقت کے ذریعے معاملات نہیں چلائے جا سکتے، ان سے ہمیشہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔9مئی کے بعد ریاستی طاقت کا کون سا استعمال ہے جو نہیں کیا گیا۔اب ایمل کانسی اور مولانا فضل الرحمن جیسے رہنما 9مئی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں، وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ حقائق کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا، وہ سامنے آکر رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے قومی اسمبلی کے اندر ارکان اسمبلی کو کسی طاقت سے کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ سپیکر کا اتنا اختیار ضرور ہے کہ وہ کسی رکن اسمبلی کو اجلاس سے نکال دے، باقی تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور پھر اگر ایک جماعت خود یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس نے اسمبلی کو نہیں چلنے دینا تو سوائے ہنگامہ آرائی اور اجلاس ملتوی کرنے کے تو اور کوئی حل موجود ہی نہیں۔

عطاتارڑ نے محمود اچکزئی کی اسمبلی میں تقریر کو قابل شرم قرار دے دیا

اس بار خرابی کے امکانات اس لئے زیادہ ہیں کہ بہت سے معاملات میں الجھاوے دور نہیں کئے گئے مثلا دھاندلی کے الزامات کی شفاف انکوائری نہیں کرائی گئی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ہی فارم 45کو رد کیا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے اس کی قومی اسمبلی میں 180نشستیں ہیں۔ اس دعوے کی بنیاد جیتنے والوں کے پاس فارم 45کی موجودگی ہے۔ ایک طرف یہ قضیہ زیر التواء ہے تو دوسری طرف مخصوص نشستوں پر فیصلہ نہیں کیا جا رہا، حتیٰ کہ اس بنیاد پر صدر مملکت نے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے بھی انکار کیا اور جب وہ اس پر راضی ہوئے تب بھی انہوں نے اپنے نوٹ میں اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرکے عدم اطمینان ظاہر کیا۔ الیکشن کمیشن یہاں بھی بروقت فیصلہ کرنے کی استعداد سے محروم نظر آیا جس کا نتیجہ اسمبلی میں انتشارکی صورت برآمد ہو رہا ہے۔ اسمبلی کوئی علیحدہ جزیرہ نہیں بلکہ ہمارے سیاسی نظام کا ایک حصہ ہی ہوتی ہے۔ عمران خان کے بارے میں 2سو مقدمات کے فیصلے عدالتوں میں لٹکے ہوئے ہیں جن کے باعث یہ سیاسی نظام بھی لٹکا ہوا ہے۔

رنبیر کپور کی بہن نے بھی اداکاری کی دنیا میں قدم رکھ دیا

نظام کو اگر چلانا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے مریم نواز جب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رہنما رانا آفتاب خان کے پاس گئیں تو ایک بڑی خبر بن گئی۔ پنجاب اسمبلی میں ردعمل شاید اتنا شدید نہ ہو، جتنا قومی اسمبلی میں نظر آ رہا ہے۔ یہ صورت حال نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انتخابات کے بعد فطری طور پر عوام کی خواہش ہوتی ہے حکومت بنے اور ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے مگر یہاں تو لگتا ہے قومی اسمبلی میں پرامن اجلاس ہونا ہی محال ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اس کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے جب دھاندلی کے الزامات لگتے تھے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے منہ پھیر کے نہیں بیٹھ جاتی تھیں بلکہ کہیں نہ کہیں مذاکرات اور رابطے کا ڈول ڈالاجاتا تھا۔ اس وقت ایسی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی بلکہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ گرد خودبخود بیٹھ جائے گی۔ یہاں مولانا فضل الرحمن کی بات بہت اہم ہے۔ انہوں نے جہاں وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں یہ بھی کہا ہے کہ یہ اسمبلی نہیں کوئی اور چیز ہے اور یہ بھی کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرتی نظر نہیں آتی۔ اب ان سے پوچھنا چاہیے تھا کہ یہ اسمبلی کیوں نہیں لگتی۔ شاید انہوں نے یہ بات اس تناظر میں کی ہے کہ اس پر شکوک اوربے یقینی کے گہرے سائے منڈلا رہے ہیں۔

نومنتخب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور آج حلف اٹھائیں گے

اس بار پی ڈی ایم کا پارٹ ٹو دہرایا جا رہا ہے۔ وہی شہبازشریف وزیراعظم ہوں گے اور تقریباً وہی کابینہ ہوگی تاہم اب انہیں اسمبلی کے اندر یکطرفہ ماحول نہیں ملے گا۔ انہوں نے 16ماہ اپوزیشن کے بغیر حکومت کی، اس کے باوجود عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے اب تو انہیں اسمبلی کے اندر ایک سخت گیر اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔ جو قدم قدم پر روکے گی اور عزائم تو یہی نظر آ رہے ہیں کہ چلنے بھی نہیں دے گی۔ اس وقت اسمبلی سے مستعفی ہو کر تحریک انصاف نے جو غلطی کی تھی، اس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑا۔ اب وہ اسمبلی میں رہ کر ایک تگڑی اپوزیشن کا فیصلہ کر چکی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ حالات اس وقت تک نارمل نہیں ہوں گے، جب تک عمران خان جیل سے رہا نہیں ہوتے۔

سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں سکولوں کی تعمیر سے متعلق تقریب، امریکی سفیر کی بھی شرکت

تحریک انصاف ایسی جماعت نہیں جو عمران خان کے بغیر اس طرح چلتی رہے جیسے مسلم لیگ ن نوازشریف کے بغیر چلتی رہی، اس وقت سنی اتحاد کونسل کے جتنے بھی ارکان اسمبلی ایوان میں موجودہیں، وہ سب اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ انہیں ووٹ عمران خان کی وجہ سے ملا ہے۔ اس لئے پہلے اجلاس میں سب نے دیکھا کہ ہر طرف عمران خان کی تصویریں اور ماسک موجود تھے۔ اس نظام کو اگرآگے بڑھانا ہے تو کھلے دل کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے۔ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ یہ بات نئی حکومت کو بھی سمجھ آ جانی چاہیے اور اپوزیشن کو بھی، تاہم موجود حالات میں یہ بات ایک خواب ہی نظر آتی ہے جس کی تعبیر آسان نہیں۔

QOSHE - پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت  - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت 

13 0
02.03.2024

قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جو مناظر دیکھنے کو ملے، وہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ اسمبلی بزم گاہ کی بجائے رزم گاہ ثابت ہوگی۔ اصل میں جب حالات کو سلجھانے کی بجائے لٹکانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے تو مسائل حل نہیں ہوتے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ انتخابات جس طرح ہوئے، نتائج جس طرح آئے اور پھر جس طرح الیکشن کمیشن مرضی سے اپیلوں کے فیصلے کرتا رہا، اس کی وجہ سے خرابی کی بنیاد تو پہلے ہی رکھ دی گئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس بار جو قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے، وہ تلخیاں ساتھ لائی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں اس وقت جو کشیدہ فضا ہے، وہ شاید پہلے کی اسمبلیوں میں اس سطح کی نہیں رہی۔ حیرت اس پر ہے کہ مسلم لیگی بنچوں سے گھڑی لہرا کر گھڑی چور کی صدائیں لگتی رہیں۔

سعودی شہزادہ ترکی بن عبداللّٰہ بن ناصر بن عبدالعزیز آل سعود انتقال کرگئے

حالانکہ جو حکومت بنانے والے ہوتے ہیں، وہ جلتی پر تیل نہیں پانی ڈالتے ہیں۔ ایک لیڈر جو جیل میں بیٹھا ہے، اس کے بارے میں اسمبلی کے اندر آواز اٹھائیں گے تو مخالف سمت سے آواز ضرور آئے گی۔ پہلے اجلاس میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی عمران خان کی تصویریں اور پلے کارڈ لے کر آئے، انہوں نے چہروں پر عمران خان کے ماسک بھی پہن رکھے تھے۔ پھر جس طرح ہر رکن ان کے لئے نعرے لگاتا رہا اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اجلاس جب بھی ہوگا، عمران خان کی غیر مرئی موجودگی اجلاس میں رہے گی،ابھی تو وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ آنا ہے۔ اس دن کیا ہوتا ہے،کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم تحریک انصاف کے بعض ارکان کے خیالات سن کر یوں لگا کہ جیسے اس دن اسمبلی میں ایک بڑے ہنگامے کی توقعات بے جا نہیں۔ سب نے پہلے اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی بے بسی دیکھی۔ وہ ارکان کو چپ کرانے اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play