پاکستان اِس وقت سیاسی مسائل میں تو گھرا ہوا ہے تاہم کچھ دیگر مسائل بھی ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں یونیورسٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اِسی حوالے سے شعبہ اردو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے ایک روزہ اہم سیمینار کا انعقاد کیا، جس کا موضوع ”معاصر ماحولیاتی و ثقافتی بحران اور اردو ادب“ تھا۔بظاہر یہ ایک اجنبی موضوع لگتا ہے کہ اردو ادب کا کم از کم ماحولیاتی بحران سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا،مگر اس سیمینار میں شرکت کر کے اندازہ ہوا یہ آج کا سب سے اہم مسئلہ ہے اور اس طرف توجہ نہ دی گئی تو یہ بحران ہمیں شناخت اور نفسیات کے بحران سے دوچار کر دے گا۔یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے ہماری سلامتی و یکجہتی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں،اس سیمینار کے دو سیشن تھے، پہلے سیشن کی صدارت گورنمنٹ کالج سول لائنز لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب نیازی نے کی،جبکہ مہمانِ خصوصی حفیظ خان اور مہمان اعزاز ڈاکٹر انوار احمد تھے۔دوسرے سیشن کی صدارت حفیظ خان نے کی جبکہ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر عذرا لیاقت،ڈاکٹر غلام اصغر، ڈاکٹر ساحر شفیق، ڈاکٹر لیاقت علی، ڈاکٹر سجاد نعیم، ڈاکٹر سائرہ ارشاد، ڈاکٹر اشرف جاوید ملک، ڈاکٹر خرم شہزاد، ڈاکٹر عابد جام، ڈاکٹر یوسف زئی، ڈاکٹر چاند لعل، ڈاکٹر سید علی اور شکیل حسین سید تھے۔ اس سیمینار کا اہتمام شعبہ اُردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر فرزانہ کوکب نے کیا تھا اور دونوں سیشن کی نظامت بالترتیب ڈاکٹر حماد رسول اور ڈاکٹر آصف خان نے کی۔ہال طلبہ و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خشک موضوع ہونے کے باوجود اُس میں اُن کا انہماک دیدنی تھا۔میرے ساتھ معروف کالم نگار اظہر سلیم مجوکہ موجود تھے۔اُن کاکہنا تھا اس قسم کے موضوعات پر سیمینار اور مذاکرات وقت کی ضرورت ہیں تاکہ نوجوان نسل میں عصرِ حاضر کے مسائل کا شعور اُجاگر کیا جا سکے۔

اعظم سواتی بھی طویل عرصے بعد منظر عام پر آگئے

ڈاکٹر اورنگزیب نیازی نے اپنے کلیدی خطاب میں اہم باتیں کیں۔انہوں نے کہا اس وقت پاکستان میں دو نسلیں موجود ہیں۔ ایک نسل وہ ہے جو پچاس کی دہائی کے بعد دنیا میں آئی اور دوسری نسل وہ ہے، جس نے90ء کی دہائی کے بعد جنم لیا۔پچھلی نسل کا مشاہدہ سب سے زیادہ ہے،کیونکہ اُس نے تبدیلیوں کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے جو مظاہر آج کی نسل دیکھ رہی ہے، وہ پچھلی نسل نے اپنے دور میں نہیں دیکھے تھے،مگر اِس وقت وہ بھی ان مظاہر کی زد میں ہے۔اِس وقت دنیا مختلف اقسام کے بحرانوں کی گرفت میں ہے۔تہذیبی بحران،ثقافتی بحران، ماحولیاتی بحران، نفسیاتی بحران، معاشی بحران اور شناخت کا بحران۔یہ بحران اس لئے پیدا ہو رہے ہیں کہ عالمگیریت کا نظریہ نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،جس کے پیچھے طاقتور قوتوں کا معاشی ایجنڈا موجود ہے۔عالمی سرمایہ داری نظام ہم سے فعالیت کو چھین رہا ہے ادب اور کلچر کو بھی کمرشلائز کیا جا رہا ہے،ادبی میلے فروغِ ادب کی بجائے انہیں سپانسر کرنے والے اداروں کے اشتہار بن گئے ہیں،ہمیں اسی یلغار سے بچ کر دوبارہ اپنی اصل ثقافت اور مقامی تہذیب کی طرف لوٹنا ہو گا۔ادب اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ڈاکٹر اورنگزیب نیازی نے بلاشبہ بہت اہم کلیدی خطبہ پیش کیا۔اُن کے بعد حفیظ خان اور ڈاکٹر انوار احمد نے بھی عمدہ گفتگو کی۔

کراچی میں آج دوپہر سے بارش کے چار سپیل کی پیشگوئی، شہر میں رین ایمرجنسی نافذ

اس سیمینار میں اُس موسمی بحران کا ذکر بھی ہوا،جو ہرے بھرے باغات کو بڑی بڑی کالونیوں میں بدلنے کے لئے کاٹ دیئے گئے ہیں۔ملتان میں آموں کے باغات اُس کی شناخت ہوا کرتے تھے۔صرف ماحولیات کے حوالے سے ہی نہیں،بلکہ آموں کی ثقافتی حوالے سے بھی ایک خاص پہچان ہوتی تھی۔موسم گرما میں ملک بھر کے لوگ ملتان کے دوستوں سے آم کے تحفے کی توقع کرتے تھے پھر ملتان کا موسم بھی اِن باغات کی وجہ سے گرمیوں میں اتنا گرم نہیں ہوتا تھا کہ صحرا لگنے لگے۔اسی اربن پالیسی کی وجہ سے جو ثقافتی بحران پیدا ہوا ہے،اُس میں ماحولیاتی اور موسمی بحرانوں کی آمیزش بھی موجود ہے، پاکستان میں ستر سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔معروف دانشور رانا محبوب اختر کا کہنا ہے زبان کی بنیاد پر تفریق یا اختلاف پیدا کرنا سامراج کا ایجنڈا ہے۔ زبانیں اظہار کا ذریعہ ہیں انہوں نے اس کی مثال اس طرح دی کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو اُسے لسانی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔کہیں سرائیکی اور کہیں پنجابی کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے،حالانکہ ان کے حوالے سے شناخت نہیں ہونی چاہئے۔اصل حوالہ ثقافت ہے جو جہاں رہ رہا ہے،اُس علاقے کی ثقافت اُس کی پہچان ہے۔اُن کی اِس بات کو گہری نظر سے دیکھا جائے اور تعصب کی عینک اتار پھینک دیں تو ہمیں اندازہ ہو گا ہماری اصل قوت اور شناخت مقامیت ہے اب اس بات کو اگر اس نظریے کے تناظر میں دیکھا جائے جسے گلوبنائزیشن کہتے ہیں تو یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ہدف مقامیت ہے جسے وہ ختم کر کے عالمگیریت کو فرغ دینا چاہتا ہے تاکہ اُس کا ایجنڈا ورلڈ آرڈر کے طور پر نافذ ہو سکے۔

شدید بارش کی پیشگوئی، ملتان سلطانز نے آج کی ٹریننگ منسوخ کر دی

ہماری حکومتوں کو اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے مگر وہ کیسے دے سکتی ہیں،اُن کا سارا وجود ہی اُس سرمایہ دارانہ عالمی نظام کے تابع ہے،جو کبھی آئی ایم ایف،کبھی ورلڈ بنک اور کبھی امریکی سرمایہ داروں کے ذریعے یہاں نافذ ہوتا ہے۔ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ایک فیڈریشن کو سیاسی جماعتیں متحد رکھتی ہیں اس سیمینار میں مقالہ نگاروں کے خیالات سن کر اندازہ ہوا کہ ملک کی وحدت کا ذریعہ ثقافتی اکائیاں بنتی ہیں جب انہیں آزادانہ پھلنے پھولنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی بحران صرف یہی نہیں کہ آلودگی پھیلانے والے عناصر موجود ہیں،بلکہ اصل بحران یہ ہے کہ تعصبات کی جس آلودگی نے ہمارے ذہنوں کو پراگندہ کر دیا ہے اور ہم اپنی ثقافت کی اجتماعی طاقت کو کھو رہے ہیں،وہ ہمیں مختلف مسائل سے دوچار کر رہا ہے جب تک اہل فکر و نظر، ادیب و شاعر اور ادب و ثقافت کے نمائندہ ادارے اس پہلو پر توجہ نہیں دیتے، یہ بحران بڑھتا رہے گا۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سٹریٹ کرائمز میں اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم شہریوں میں موٹر سائیکلیں تقسیم کردیں

QOSHE -       معاصر ماحولیاتی و ثقافتی بحران اور اردو ادب - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      معاصر ماحولیاتی و ثقافتی بحران اور اردو ادب

10 0
01.03.2024

پاکستان اِس وقت سیاسی مسائل میں تو گھرا ہوا ہے تاہم کچھ دیگر مسائل بھی ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں یونیورسٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اِسی حوالے سے شعبہ اردو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے ایک روزہ اہم سیمینار کا انعقاد کیا، جس کا موضوع ”معاصر ماحولیاتی و ثقافتی بحران اور اردو ادب“ تھا۔بظاہر یہ ایک اجنبی موضوع لگتا ہے کہ اردو ادب کا کم از کم ماحولیاتی بحران سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا،مگر اس سیمینار میں شرکت کر کے اندازہ ہوا یہ آج کا سب سے اہم مسئلہ ہے اور اس طرف توجہ نہ دی گئی تو یہ بحران ہمیں شناخت اور نفسیات کے بحران سے دوچار کر دے گا۔یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے ہماری سلامتی و یکجہتی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں،اس سیمینار کے دو سیشن تھے، پہلے سیشن کی صدارت گورنمنٹ کالج سول لائنز لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب نیازی نے کی،جبکہ مہمانِ خصوصی حفیظ خان اور مہمان اعزاز ڈاکٹر انوار احمد تھے۔دوسرے سیشن کی صدارت حفیظ خان نے کی جبکہ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر عذرا لیاقت،ڈاکٹر غلام اصغر، ڈاکٹر ساحر شفیق، ڈاکٹر لیاقت علی، ڈاکٹر سجاد نعیم، ڈاکٹر سائرہ ارشاد، ڈاکٹر اشرف جاوید ملک، ڈاکٹر خرم شہزاد، ڈاکٹر عابد جام، ڈاکٹر یوسف زئی، ڈاکٹر چاند لعل، ڈاکٹر سید علی اور شکیل حسین سید تھے۔ اس سیمینار کا اہتمام شعبہ اُردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر فرزانہ کوکب نے کیا تھا اور دونوں سیشن کی نظامت بالترتیب ڈاکٹر حماد رسول اور ڈاکٹر آصف خان نے کی۔ہال طلبہ و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play