کسی شہر میں ایک ”مہا فراڈیا“ آیا، ایک صراف کی دکان پر گیا اور سونے کے چند پرانے سکّے دکھا کر کہنے لگا، ان کی قیمت کیا ہوگی؟۔۔۔ صراف نے حلیہ دیکھا، دیہاتی اور معصوم نظر آ رہا تھا، چہرے پر بھولپن ہی بھولپن دکھائی دے رہا تھا، صراف نے سوچا، کہیں سے پرانے سکّے ہاتھ لگ گئے ہوں گے، اس کو کیا معلوم ان کی قدر و قیمت کیا ہے؟ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دوں، کہنے لگا۔ ”بیٹھو، ابھی پرکھ کرکے بتاتا ہوں۔“ الٹنے پلٹنے میں تھوڑی دیر لگائی، ”ماہرانہ رویہ“ اختیار کرتے ہوئے اور اپنائیت کا احساس دِلا کر کہنے لگا ”آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے مرحوم چچا یاد آ گئے ہیں، میں آپ کو بازار سے زیادہ دام دوں گا“ اور معمولی قیمت لگا کر رقم حوالے کر دی۔“

کراچی میں آج دوپہر سے بارش کے چار سپیل کی پیشگوئی، شہر میں رین ایمرجنسی نافذ

فراڈئیے نے خاموشی سے وہ معمولی رقم پکڑی، صراف کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا، دو دن بعد پھر بازار آیا، اسی صراف کے پاس گیا اور سونے کے چند اور سکّے اس کے سامنے رکھ دیئے، اْس نے پہلے کی طرح، میٹھی میٹھی اور چکنی چپڑی باتیں کیں اور وہی معمولی قیمت ادا کرکے، چائے پانی کا پوچھا، مگر ”دیہاتی“ نے رقم پکڑی، شکریہ ادا کیا اور چلا گیا، چند روز بعد پھر بازار آیا اور چند اور سکّے،اسی صراف کے حوالے کئے، صراف نے اسی اپنائیت بھرے میٹھے لہجے میں کہا ”بھائی جان! یہ سکّے آپ کے ہاتھ کیسے لگے، اس نے کہا ”آپ چونکہ مجھے اپنا سمجھتے ہیں، اس لئے بتا دوں کہ مجھے کہیں سے ایک مٹکا ملا ہے جس میں سونا ہی سونا ہے، مجھے جیسے جیسے ضرورت پڑتی ہے، ویسے ویسے تھوڑا سا سونا لاکر بیچتا ہوں اور اپنی ضروریات پوری کر لیتا ہوں۔“

سٹار فٹبالرکرسٹیانو رونالڈو پر ایک میچ کی پابندی اور 10ہزار ریال جرمانہ عائد

صراف نے کہا ”آپ ایک ہی بار مجھے بیچ دیں، میں اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔“

دیہاتی نے اگلے روز آنے کی حامی بھری اور ساتھ ہی کہا ”ڈرتا ہوں کسی کو پتہ چل گیا تو لْٹ نہ جاؤں۔“

صراف نے کہا ”کسی کو خبر نہ ہوگی، آپ مجھے لا کر دیں، میں اچھی رقم دوں گا۔“ ”بھولا بھالا دیہاتی“ چلا گیا اور اگلے روز ایک بھاری بھرکم تھیلے کے ساتھ آ ٹپکا۔ تھیلے سے دو بڑے بڑے بھنبھوٹ (گولے) نکال کر صراف کے سامنے رکھ دیئے، صراف نے اتنا زیادہ سونا دیکھا تو مزید لالچ میں آ گیا، سوچنے لگا ”اس کے پاس اور بھی سونا ہوگا، وہ بھی ہتھیایا جائے اور اس کی یہی صورت ہے کہ پہلے سے زیادہ رقم دوں اور بازار کے کسی اور صراف کو پتہ نہ لگنے دوں۔ اس نے فوراً اندازہ لگا کر وزن کیا اور وزن کے مطابق بھاری بھرکم قیمت ادا کی، جس سے تھیلا پھر بھر گیا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

صراف نے کہا ”بھائی آپ رہتے کہاں ہیں؟ آپ کا خاندان کون سا ہے؟ مٹکا ملا تھا یا کوئی خزانہ؟۔۔۔ باقی سونا کتنا ہے؟ وہ کب لاؤ گے؟ اس ”بھولے بھالے دیہاتی“ نے صراف کے سارے سوالوں کو سْنا، جانے کے لئے اٹھ گیا اور جاتے جاتے کہنے لگا:

پتہ لگے گا تا دن کْوں

بھنبھوت بھنے گا جا دن کْوں

یعنی جس دن گولہ توڑا جائے گا، اس دن پتہ چل جائے گا۔۔۔ وہ گولہ درحقیقت لوہے کا تھا اور اس پر سونے کا پتر چڑھایا گیا تھا، اس فراڈ کو موثر کرنے کی خاطر، فراڈیئے نے بھولے بھالے دیہاتی کا روپ بھرا تھا اور پھانسنے کے لئے تھوڑے تھوڑے سونے کے سکّے بیچ کر اپنا اعتبار قائم کر لیا تھا۔ اب لالچی صراف جب گولہ توڑے تو اس کے چاروں طبق روشن ہونے ہی ہونے تھے۔

کیا آپ رواں ہفتے لاہور پاک ویلز کار میلے کیلئے تیار ہیں؟

مندرجہ بالا قصّہ یونہی ذہن میں در آیا تھا تو صفحہئ و قرطاس کے حوالے کر دیا ورنہ کسی پارٹی یا کسی سیاست دان کی فریب کاریوں اور فراڈ کی طرف کوئی اشارہ نہیں، نہ ہی یہ باور کرانا مقصود ہے کہ خوش کن نعرے اور دل فریب منشور پیش کرنے والوں نے اپنے اپنے اقتدار و اختیارات کے دوران میں اپنی کہی ہوئی باتوں پر کتنا عمل کیا ہے اور عوام سے کئے ہوئے وعدوں کو کس قدر پورا کیا ہے؟

یعنی وعدوں کا وہ بھنبھوٹ جو عوام کو تھمایا جاتا ہے وہ حکومتی عرصے کے دوران میں ٹوٹتا ہے تو اندر سے دعووں کے برعکس کچھ اور ہی نکلتا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا اعلان کردیا گیا

وہ ملمع سازی جو ہمارے بھولے بھالے چہروں والے لیڈروں نے کر رکھی ہوتی ہے، حکومتی بھٹّی میں پڑتے ہی ختم ہو جاتی ہے اور پارٹیوں کی قلعی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، عوام کو لگ پتہ جاتا ہے کہ کون کیا ہے؟ کس کی بڑی بڑی باتیں، کتنی بڑی اور حقیقت میں کتنی بْری ہوتی ہیں! جو بہروپ بھرے گئے تھے، وہ کھلتے اور بلند آہنگ تقریروں کے بھانڈے، بیچ چوراہے پھوٹتے چلے جاتے ہیں۔۔۔

مگر، حیرانی تو یہ ہے کہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود عوام، اگلی بار پھر ”سونے کے لالچ میں لوہا“ ہی خریدتے ہیں۔۔۔ خریدتے ہیں یا جبراً اْن کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے!

زمین نام نہ کرنے پر دیوروں نے بھابھی کا سر مونڈ ھ دیا

اس بار تو الیکشن میں جو ”بھنبھوٹ“ عوام کو تھمایا گیا، وہ تو ”لوہے“ کا بھی نہیں لگ رہا، لوہا ہو تو کچھ وزن تو ہوتا ہے، یہ تو سائز میں بڑا ہونے کے باوجود، بہت ہی ہلکا محسوس ہو رہا ہے۔ شایداندر سے کھوکھلا ہے، تبھی ہر طرف ایک شور مچا ہے۔ تمام پارٹیاں سراپا احتجاج ہیں، ہارنے والے آہیں بھر رہے ہیں تو جیتنے والے بھی منہ بسورے بیٹھے ہیں۔۔۔!

حالیہ الیکشن کے نام پر، ملک و قوم کو تھمائے گئے ”بھنبھوٹ“ کی حقیقت کیا ہے؟ وقت کی ضربیں طشت از بام کر دیں گی۔۔۔

پتہ لگے گا تا دن کْوں

بھنبھوت بھنے گا جا دن کْوں

QOSHE -           بھنبھوٹ بھنے گا جادن کوں! - رانا شفیق پسروری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          بھنبھوٹ بھنے گا جادن کوں!

12 0
01.03.2024

کسی شہر میں ایک ”مہا فراڈیا“ آیا، ایک صراف کی دکان پر گیا اور سونے کے چند پرانے سکّے دکھا کر کہنے لگا، ان کی قیمت کیا ہوگی؟۔۔۔ صراف نے حلیہ دیکھا، دیہاتی اور معصوم نظر آ رہا تھا، چہرے پر بھولپن ہی بھولپن دکھائی دے رہا تھا، صراف نے سوچا، کہیں سے پرانے سکّے ہاتھ لگ گئے ہوں گے، اس کو کیا معلوم ان کی قدر و قیمت کیا ہے؟ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دوں، کہنے لگا۔ ”بیٹھو، ابھی پرکھ کرکے بتاتا ہوں۔“ الٹنے پلٹنے میں تھوڑی دیر لگائی، ”ماہرانہ رویہ“ اختیار کرتے ہوئے اور اپنائیت کا احساس دِلا کر کہنے لگا ”آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے مرحوم چچا یاد آ گئے ہیں، میں آپ کو بازار سے زیادہ دام دوں گا“ اور معمولی قیمت لگا کر رقم حوالے کر دی۔“

کراچی میں آج دوپہر سے بارش کے چار سپیل کی پیشگوئی، شہر میں رین ایمرجنسی نافذ

فراڈئیے نے خاموشی سے وہ معمولی رقم پکڑی، صراف کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا، دو دن بعد پھر بازار آیا، اسی صراف کے پاس گیا اور سونے کے چند اور سکّے اس کے سامنے رکھ دیئے، اْس نے پہلے کی طرح، میٹھی میٹھی اور چکنی چپڑی باتیں کیں اور وہی معمولی قیمت ادا کرکے، چائے پانی کا پوچھا، مگر ”دیہاتی“ نے رقم پکڑی، شکریہ ادا کیا اور چلا گیا، چند روز بعد پھر بازار آیا اور چند اور سکّے،اسی صراف کے حوالے کئے، صراف نے اسی اپنائیت بھرے میٹھے لہجے میں کہا ”بھائی جان!........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play