اس پر بھی پروردگار کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ملک میں حکومت سازی کا عمل شروع ہو گیا ہے اور جیتی ہوئی یا ہاری ہوئی یعنی انتخابات میں عوام کا کم یا زیادہ مینڈیٹ حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کا حصہ بن رہی ہیں ورنہ تو ’دھاندلی دھاندلی، کا ایسا شور اٹھ رہا تھا کہ یہ اندیشہ سر اٹھانے لگا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ دراز ہو گیا تو انتخابی نتائج منسوخ کر کے نئے انتخابات کا ہی ڈول نہ ڈالنا پڑ جائے۔ ٹھیک ہے کچھ سیاسی پارٹیاں رگنگ پر احتجاج کر رہی ہیں لیکن وہ اسمبلیوں میں بھی جا کر بیٹھ گئی ہیں جو مثبت آثار کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تشکر اور اس اندیشے کے پس منظر میں ایک ہی چیز ایک ہی معاملہ کارفرما ہے، اور وہ یہ کہ ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں بن جائیں اور اپنا کام جلد از جلد شروع کر دیں تاکہ ایک عرصے سے جاری بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے اور ملک اور اس کے عوام کو آگے بڑھنے کے لیے ایک ڈگر مل جائے۔ یہ ڈگر اس لیے ضروری تھی اور اب بھی ہے کہ بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی ایک طرح سے جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ درآمدات اور برآمدات پر قدغنیں ہیں جبکہ سرمایہ دار اور سرمایہ کار، دونوں اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ حکومت بنے کچھ پتہ چلے کہ معاملات کس طرف جا رہے ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے یعنی یہ بے یقینی کی دھند کچھ کم ہو تو وہ آگے بڑھیں اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری کریں جن میں انہیں کچھ منافع حاصل ہونے کی توقع ہے۔ سرمایہ کاری ہو گی، تجارت بڑھے گی اور درآمدات و برآمدات کا حجم بڑھے گا تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ روزگار ملے گا تو بے روزگاری کم ہوگی اور لوگوں کی قوت خرید میں کچھ اضافہ ہو گا اور ان کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات کا سامنا کرنا ممکن ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ حکومت بنے گی تو مصنوعی طریقے سے بڑھنے والی مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی تدبیر کرے گی اور مالی حوالے سے لوگوں کا سانس کچھ سوکھا ہو سکے گا۔ چلیں عوام طلب اور رسد کے اصول کے تحت ہونے والی مہنگائی تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر لیں، لیکن ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں پر ہاتھ ڈالنا تو حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ ان کی وجہ سے ہونے والی اور بڑھنے والی مہنگائی عوام کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتی کہ پیسہ ان کی جیبوں سے نکل کر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی جیبوں میں چلا جائے۔ حکومت ہو گی تو یہ ذمہ داری پوری کرے گی کہ ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ روک سکے اور عوام کو مصنوعی مہنگائی سے نجات دلا سکے۔ اس لیے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کسی بھی طرح صوبوں میں حکومت سازی شروع تو ہوئی۔ امید ہے کہ جلد ہی مرکز میں بھی ایک حکومت کام کر رہی ہو گی۔

امریکا نے قرضوں سے آزادی کیلئے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کردی

معیشت ہی سے متعلق ایک اور معاملہ یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ اور بے یقینی کی صورت حال کی وجہ سے بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کا تقابل اس طرح کا نہیں ہو پا رہا جس طرح کے تقابل کی اس وقت ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک اور بین الاقوامی ادارے بھی اسی طرٖف نظریں گاڑے بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت کام کرنا شروع کرے تو اس کے ساتھ معاملات چلائے جائیں۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے جس پروگرام پر عمل کر رہا ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے جتنا جلدی ممکن ہو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مرکزی بینک کے ایک سابق گورنر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام میں جانا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر اس کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں اور اس کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں میرا مشورہ صرف یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے پاس جانے کی اشد ضرورت ہے تو نئی حکومت یعنی آنے والی حکومت کو یہ ضرورت فوری طور پر پوری کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس بارے میں اس طرح کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے جس طرح کی 2018ء میں ہوئی تھی جس کی وجہ سے ملک کے مالی مسائل بڑھ گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے حکمرانوں سے یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ناگزیر ہو چکا ہے تو آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکج ضرور حاصل کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی کیے جانے چاہئیں کہ آنے والے مہینوں میں نہ سہی لیکن آنے والے سالوں میں ملک مالی اور معاشی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے حاصل کرنے کی پالیسی کو کسی طور صائب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معیشت کا پہیہ چلے گا تو حقیقی ترقی کے در وا ہوں گے، روزگار کے دروازے کھلیں گے اور ملک کا معاشی لحاظ سے مستحکم کیا جا سکے گا۔

بی آر ٹی پشاور کے سٹیشن پر خاتون کی چوری کی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہوگئی

ویسے بھی ماضی کے معاملات کو لے کر بیٹھے رہنے اور واویلا کرتے رہنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ جیسے بھی ہوئے انتخابات ہو گئے۔ ملکی استحکام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو دل سے تسلیم کیا جائے اور ان کی بنیاد پر حکومتیں بنا کر آگے بڑھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسا لائحہ عمل وضع کرنے کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے کہ آئندہ جب بھی انتخابات ہوں تو ان کے نتائج متنازع نہ رہیں اور کہیں سے بھی دھاندلی دھاندلی کا شور نہ اٹھے۔ انتخابات کے نتائج سب قبول کریں اور ان کی بنیاد پر ملک میں مستحکم حکومتیں قائم ہوں۔ اگر انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے جائیں گے اور دھاندلی کا شور ہی مچایا جاتا ہے گا تو اس سے بے یقینی کی فضا ختم ہونے کے بجائے مزید گہری ہو جائے گی۔

دوران پرواز ایک چوہے کے سامنے آنے سے بھگدڑ مچ گئی، جہاز 3 دن تک دوبارہ اُڑان نہ بھر سکا

QOSHE -        ضروری ہے کہ آگے بڑھا جائے - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       ضروری ہے کہ آگے بڑھا جائے

11 0
29.02.2024

اس پر بھی پروردگار کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ملک میں حکومت سازی کا عمل شروع ہو گیا ہے اور جیتی ہوئی یا ہاری ہوئی یعنی انتخابات میں عوام کا کم یا زیادہ مینڈیٹ حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کا حصہ بن رہی ہیں ورنہ تو ’دھاندلی دھاندلی، کا ایسا شور اٹھ رہا تھا کہ یہ اندیشہ سر اٹھانے لگا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ دراز ہو گیا تو انتخابی نتائج منسوخ کر کے نئے انتخابات کا ہی ڈول نہ ڈالنا پڑ جائے۔ ٹھیک ہے کچھ سیاسی پارٹیاں رگنگ پر احتجاج کر رہی ہیں لیکن وہ اسمبلیوں میں بھی جا کر بیٹھ گئی ہیں جو مثبت آثار کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تشکر اور اس اندیشے کے پس منظر میں ایک ہی چیز ایک ہی معاملہ کارفرما ہے، اور وہ یہ کہ ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں بن جائیں اور اپنا کام جلد از جلد شروع کر دیں تاکہ ایک عرصے سے جاری بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے اور ملک اور اس کے عوام کو آگے بڑھنے کے لیے ایک ڈگر مل جائے۔ یہ ڈگر اس لیے ضروری تھی اور اب بھی ہے کہ بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی ایک طرح سے جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ درآمدات اور برآمدات پر قدغنیں ہیں جبکہ سرمایہ دار اور سرمایہ کار، دونوں اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ حکومت بنے کچھ پتہ چلے کہ معاملات کس طرف جا رہے ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے یعنی یہ بے یقینی کی دھند کچھ کم ہو تو وہ آگے بڑھیں اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری کریں جن میں انہیں کچھ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play