سندھ کی دھرتی روحانی، ثقافتی، تہذیبی اور سماجی روایات کی ہزاروں سال پر مبنی تاریخ کی امین ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے اس کے اسرار کو کھوجنے کا عمل صرف موہنجوداڑو تک محدود رہا،حالانکہ یہ وہ وادی ہے جہاں قدم قدم پر بھیدوں بھری دنیا کے نقوش موجود ہیں۔ اب اِس سندھ وادی دریافت کا ایک سفر معروف دانشور اور لکھاری رانا محبوب اختر نے کیا ہے۔ حال ہی میں اُن کی کتاب ”سندھ گلال“ شائع ہوئی ہے،جس نے سندھ کو پانچ ہزار سال پرانی تہذیب و تاریخ کے آئینے میں اس طرح عکس ریز کیا ہے کہ اس کی معنویت کے وہ گوشے نمایاں ہو گئے ہیں،جو وقت کی گرد میں روایتی نصابی تاریخ کے باعث اُوجھل پڑے تھے۔کتاب کا نام سندھ ”سندھ گلال“ ہے اور رانا محبوب اختر نے گلال کے دو معروف معانی بتائے ہیں۔گلال، نیلے، عنبر، لال مجیٹھ اور دوسرے رنگوں کا آمیزہ ہے جو ہولی میں برستا ہے اور دوسرے معانی گلِ لالہ کے ہیں۔گلال پہیے کو بھی کہتے ہیں جو ایک روایت کے مطابق سندھ وادی کی ایجاد ہے۔اس کتاب کے27 ابواب ہیں اور ہر باب اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔ہر باب میں سندھ کی تہذیب و تاریخ کے ساتھ ساتھ اس دھرتی کی روحانی اور سماجی زندگی کی پوری ایک مجسم تصویر ملتی ہے۔رانا محبوب اختر کا دعویٰ یہ ہے کہ نصابی تاریخ میں جو سندھ ملتا ہے وہ سامراجی بیانیہ ہے۔ اصل سندھ وہ نہیں۔سندھ وادی کی سامراجی آنکھ سے نہیں مقامی کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے نہ صرف سندھ کو مقامی لوگوں کی آنکھ سے دیکھا ہے،بلکہ اس کی مٹی میں چھپی صوبوں پر محیط زندگی کی تہذیبوں کو بھی دریافت کیا ہے۔رانا محبوب اختر سندھی نہیں ہیں مگر اُن کے اندر سندھ کی محبت دریا کی لہروں جیسا اثر رکھتی ہے،جو انسان کی رگوں میں خون کی طرح بہنے لگتی ہیں۔سندھ کی دھرتی پر بسنے والے مختلف نسلوں، طبقوں، پیشوں اور تہذیبوں میں بٹے ہوئے افراد ہوں یا دریا کی لہروں پر زندگی گزارنے والے ملاح،وہ سب سندھ گلال میں مصنف کے لئے اپنی آنکھیں بھی دان کر دیتے ہیں اور اپنی صدیوں پرانی تہذیب کا وہ ورثہ بھی ودیعت کرتے ہیں،

مردم شماری اور انتخابی ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ٹیبلٹس چوری ہوگئے

جو اُن تک اقدار اور اطوار کی صورت میں نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔

”سندھ گلال“ کہنے کو ایک سفر نامہ ہے،مگر اسے صرف سفرنامہ کہنا اس کی وسعت و اہمیت کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔سفر ضرور کیا گیا ہے،مگر یہ سفر زمانہ ئ حال تک محدود نہیں،بلکہ ہزاروں سال کے سفر کا ازسر نو سفر ہے۔رانا محبوب اختر نے غیر مقامی ہونے کے باوجود جس طرح سندھ کی مقامیت کے خمیر میں خود کو ڈھالا ہے،اُس نے اس کتاب کو سندھ وادی کے ماضی و حال اور اُس کے تہذیبی رچاؤ کی زندہ دستاویز بنا دیا ہے۔مصنف نے سندھ تہذیب و تاریخ کے اُن زندہ کرداروں کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا جو مظلوم و محروم طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کتاب اس بات کا نوحہ بھی ہے کہ ہاری،مزدور، ملاح،مور،موہانے،موچی،میراثی، مچھیرے، گڈریئے اور کمہار، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اپنے حق ہی سے نہیں اُس حق کو اپنی زندگی تک لانے سے بھی محروم ہیں۔ ”سندھ گلال“ ایک ہمہ رنگ اور ہمہ جہت کتاب ہے۔ اسے سفر نامے کی تگنائے میں قید کیا جا سکتا ہے اور نہ ناول و داستان کا نام دیا جا سکتا ہے۔اس کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ جس میں ایک طرف تاریخ کے ارض و سما موجود ہیں اور دوسری طرف تہذیب کا بحرِ بیکراں اس کے ایک ایک لفظ میں زندہ رو کی صورت موجزن نظر آتا ہے۔اس کتاب میں اُن شخصیات کا ذکر بھی ملتا ہے جو سند کی دھرتی کا علمی و تہذیبی سطح پر قرض چکاتی رہیں۔

سعودی عرب نے ایک ہی دن میں 7 افراد کے سر قلم کردیئے

میں رانا محبوب اختر کو یونیورسٹی کے زمانے سے جانتا ہوں۔45 سال کا یہ سفر شاید ادھورا تھا جسے سندھ گلال نے پورا کیا ہے۔میری نظر میں محبوب اختر کی اَن گنت جہتیں تھیں، مگر اس سفر نامے کے سادھو نے ان سب کو مات دے دی ہے۔رانا محبوب اختر نے بیکوقت ظاہر کی، آنکھ اور باطن کی بینائی کو برتا ہے۔ایک تیسری آنکھ بھی اُس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ ہے تاریخ کے سمندر اور تہذیب کے شعور کی آنکھ۔ اس آنکھ کا روزن سبھارا کی داستان کی طرف کھل کر شاہ لطیف کی فکر انت وادیوں کی طرف جاتا ہے۔رانا محبوب اختر میں تہذیب کے دھارے ہی یکجا نہیں ہو گئے،بلکہ تاریخ کے منہ زور دریا بھی اُس کی تخلیقی گرفت میں آ کر سندھ گلال میں محبت اور شانتی سے بہتے نظر آتے ہیں۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ردعمل امریکہ کا ردعمل آگیا

بڑی تخلیق کے بہت سے کمالات میں ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ قاری کو جہانِ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ہر کتاب صحیفہ نہیں ہوتی،مگر ہر اچھی صحیفہ لگتی ہے۔اس کتاب میں نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر نہیں کیا گیا،بلکہ معلوم سے نامعلوم کی طرف پیش قدمی کی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ رانا محبوب اختر نے اُس سندھ کو دریافت کیا ہے، جو ہماری نظروں سے اُوجھل تھا۔اسے صرف یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا کہ مصنف نے سامراجی کی بجائے سندھ کو مقامی کی آنکھ سے دیکھا ہے۔سندھ کے ہر مقامی کے پاس وہ تخلیقی آنکھ نہیں ہوتی،جو سبھارا کے مجسمے کی چوڑیوں،کنگنوں، گلے کی سیپیوں اور اعضاء کے زاویوں میں سندھ دھرتی کی تہذیب و تاریخ کے عکس ڈھونڈ لیتی ہے۔رانا محبوب اختر کی یہ آنکھ اس سفرنامے کے ہر صفحے پر ایک روشنی کی صورت موجود ہے۔یہ آنکھ موہنجوداڑھ، سیون کی دھمالوں، شاہ لطیف کے راگوں،سندھ وادی کی گلیوں بازاروں، فقیروں، مزدوروں، ہاریوں، اچھوتوں،ملنگوں، موالیوں، مراثیوں، موچیوں، مچھیروں غرض زمین زادوں کے ہر روپ کو اپنے عدسے میں جذب کرتی اور پھر اُس عکس کو تاریخ کی کھٹالی میں ڈال کر اُس کے ذرے ذرے کو آشکار کرتی ہے، جہاں رانا محبوب اختر کا تخیل پرواز کی آخری حدوں کو چھوتا ہے، وہیں اُن کی یہ تخلیقی آنکھ سندھ کی ہزاروں سال پر محیط زندہ تہذیب کو لمحہئ موجود کی مثالوں سے آشکار کر دیتی ہے۔ سندھ کے سفر تو بہت لو گوں نے کئے ہوں گے مگر میرے نزدیک تہذیب کا سفر ہے۔

سندھ کے ضلع میرپور ماتھیلو میں 12 سالہ بچی سے مبینہ اجتماعی زیادتی، ملزمان فرار

رانا محبوب اختر نے سندھ گلال کو سبھارا سے شاہ لطیف تک ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی طولانی داستان کہا ہے، جبکہ میں سمجھتا ہوں یہ کتاب پانچ ہزار سال پہلے اس دھرتی پر موجود اُس سندھی کا مقدمہ ہے جو آج بھی اپنی تہذیب کی مٹھاس کو ڈھونڈ رہا ہے،جسے سامراجی قوتوں نے بُری طرح تاراج کیا اور اس کی اکائی کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔

QOSHE -           ”سندھ گلال“ تہذیب کو دریافت کرنے کا سفر - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          ”سندھ گلال“ تہذیب کو دریافت کرنے کا سفر

9 0
28.02.2024

سندھ کی دھرتی روحانی، ثقافتی، تہذیبی اور سماجی روایات کی ہزاروں سال پر مبنی تاریخ کی امین ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے اس کے اسرار کو کھوجنے کا عمل صرف موہنجوداڑو تک محدود رہا،حالانکہ یہ وہ وادی ہے جہاں قدم قدم پر بھیدوں بھری دنیا کے نقوش موجود ہیں۔ اب اِس سندھ وادی دریافت کا ایک سفر معروف دانشور اور لکھاری رانا محبوب اختر نے کیا ہے۔ حال ہی میں اُن کی کتاب ”سندھ گلال“ شائع ہوئی ہے،جس نے سندھ کو پانچ ہزار سال پرانی تہذیب و تاریخ کے آئینے میں اس طرح عکس ریز کیا ہے کہ اس کی معنویت کے وہ گوشے نمایاں ہو گئے ہیں،جو وقت کی گرد میں روایتی نصابی تاریخ کے باعث اُوجھل پڑے تھے۔کتاب کا نام سندھ ”سندھ گلال“ ہے اور رانا محبوب اختر نے گلال کے دو معروف معانی بتائے ہیں۔گلال، نیلے، عنبر، لال مجیٹھ اور دوسرے رنگوں کا آمیزہ ہے جو ہولی میں برستا ہے اور دوسرے معانی گلِ لالہ کے ہیں۔گلال پہیے کو بھی کہتے ہیں جو ایک روایت کے مطابق سندھ وادی کی ایجاد ہے۔اس کتاب کے27 ابواب ہیں اور ہر باب اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔ہر باب میں سندھ کی تہذیب و تاریخ کے ساتھ ساتھ اس دھرتی کی روحانی اور سماجی زندگی کی پوری ایک مجسم تصویر ملتی ہے۔رانا محبوب اختر کا دعویٰ یہ ہے کہ نصابی تاریخ میں جو سندھ ملتا ہے وہ سامراجی بیانیہ ہے۔ اصل سندھ وہ نہیں۔سندھ وادی کی سامراجی آنکھ سے نہیں مقامی کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے نہ صرف سندھ کو مقامی لوگوں کی آنکھ سے دیکھا ہے،بلکہ اس کی مٹی میں چھپی صوبوں پر محیط زندگی کی تہذیبوں کو بھی دریافت کیا ہے۔رانا محبوب اختر سندھی نہیں ہیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play