رہے نام اللہ کا
جنگل کا قانون کوئی اتنی تیزی سے نہیں بدلا کہ کسی کو خبر ہی نہ ہو سکے۔سبک رو ندی کی طرح آہستہ آہستہ کھارا پانی یوں بنیاد میں شامل ہوا کہ کسی میں اعتراض یا رد کرنے کی جرأت پیدا نہ ہو سکی۔ اب یہ قانون دریائے کابل بن چکا تھا جسے ابن انشا نے ٹیڑھی میڑھی جوئے کم آب کا لقب دیا تھا اور ان ہی کے الفاظ میں یہ دریا کراچی کے گندے نالے سے بھی گندا اور بدبودار تھا۔بس جنگل کے قانون کی مثال بھی کچھ ایسی ہی تھی۔سپرے کرنے والوں نے جعلی پرفیومز کی بوتلیں بھر بھر کے اس کی سڑاند دبانے کی بہتیری کوشش کی لیکن قعر دریا میں سورج کی کرن کے مصداق ہوا چلنا بند نہ ہو سکی نہ ہی کوئی ایسا کرنے پر قادر تھا۔جنگل کا قانون نہ صرف آہستہ آہستہ تبدیل ہوا بلکہ تبدیلی کے اس عمل نے اس پر اس انداز سے کھرونچے ڈالے کہripped jeansکی طرح نیم برہنہ اور دعوت نظارہ دیتے یہ سوراخ فیشن کا حصہ قرار دیے گئے۔چنانچہ ایک متفقہ اجلاس میں جنگل کے تمام بڑے بڑے جانوروں نے یہ فیصلہ دیا کہ آئیندہ جدت کو روایت سے بالکل متضاد سمجھا جائے۔ یہ تصور انھوں نے تضاد زندگی سے لیا تھا۔روایت و جدت کی اس لڑائی میں جنگل کے شیروں نے کسی نہ کسی طور سیاست میں قدم رکھ دیے یا پھر وہ گوشہ نشیں ہو گئے۔ شیر ٹھیرا جنگل کا بادشاہ! سو شہد کی مکھیوں سمیت جنگل کے بہت سے دور اندیش چھوٹے بڑے جانوروں نے شیر کے ساتھ منسلک رہنے میں ہی اپنی بقا سمجھی اور اس کے ساتھ ہی رہنے لگے۔ سیاسی شیروں نے فرصت پاتے ہی اپنے لیے بہت سے مشاغل تلاش کر لیے۔ اس سے وہ فکر روزگار سے یکسر بے نیاز ہو گئے۔جنگل سے باہر شیروں کے اتنے گروہ بن گئے کہ ان میں پھوٹ پڑتے دیر نہ لگی۔وہ شیر جس کے دانت تو کیا پنجے بھی تیز تلوار سے کم نہ تھے۔ مصلحت کے نام پر ان میں ایسی عادات پروان چڑھنے لگیں کہ اب انھوں نے اپنی بہادری پر رنگ برنگے شیشے سجا لیے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website