ریاست کیا کرے؟ یہ سوال میں صرف ریاست یا ریاستی اداروں سے نہیں بلکہ اپنے آپ اور ریاست کے تمام شہریوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے پوچھ رہا ہوں۔ میں نے پچھلے ہفتے جو کالم بعنوان ”دہشت گردی کا اصل چہرہق‘ لکھا اس پر جو تبصرے مجھ تک پہنچے تو کچھ مزید سوچ بچار کی اور یہ سوال پیدا ہوا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہم اس کا تسلی بخش جواب ڈھونڈھ پاتے ہیں یا نہیں؟

لیکن میں پہلے یہ واضح کردوں کہ سوال پوچھنے والا یہ رائٹر سوکس، معاشرت، معاشیات اور ریاستی اداروں اور ان سے متعلق آئینی اور قانونی معاملات سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ بنیادی طور پر تو میں سائنس کا طالب علم تھا جس کے بعد ایم اے انگلش جرنلزم کر لیا۔ اس لئے اپنی کم علمی کے باعث سیاست یا سیاسی جماعتوں کے بارے میں لکھنے سے پرہیز کرتا رہا ہوں جس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں کسی تنازعے سے بچا رہا تاہم جن موضوعات پر میں سہولت کے ساتھ لکھتا رہا ان میں سائنس کے علاوہ انسانی اور خواتین کے حقوق اور دہشت گردی شامل تھے۔

کچے کے علاقے میں دو گروپوں میں فائرنگ، 7 افراد جاں بحق

مجھے معلوم تھا کہ 8فروری کے قومی انتخابات اور اس کے متنازعہ نتائج کا پورے ملک میں چرچا ہو رہا تھاجو اس وقت بھی جاری ہے لیکن میں نے انتخابات کی بجائے اس موقع پر ہونے والی دہشت گردی کے موضوع پر لکھا بہت سے سوالات پیدا ہوئے اور بات آکر ریاست پر رک گئی کہ پاکستان اس وقت کچھ عرصے سے جن بحرانی حالات سے گزر رہا ہے اس میں ریاست کیا کرے۔

جیسا کہ میں نے پہلے تسلیم کیا ہے کہ میرا سیاسی علم ناقص ہے اس لئے ایسے معاملات کو سمجھنے اور راہنمائی حاصل کرنے کے لئے میں نجم سیٹھی، مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ، مجاہد منصوری اور حامد میر جیسے معتبر تجزیہ نگاروں کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ آئینی اور قانونی گتھیاں سلجھانی ہوں تو سعید چودھری کا وقت ضائع کرتا ہوں لیکن اب میں جو یہ مشکل اور نازک سوال چھیڑ بیٹھا ہوں کہ ”ریاست کیا کرے؟“ تو اس کا جواب خود ہی تلاش کرناپڑے گا۔ مجھے معلوم ہے میری تحریر پڑھنے والے مجھ سے کہیں زیادہ باعلم ہیں لیکن اپنی بات آگے بڑھانے کے لئے کچھ معروف علم تازہ کرنا چاہتا ہوں۔جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک جغرافیائی حد کے اندر موجود ریاست اور اس میں بسنے والے شہری ہیں۔ ہم چاہے نام کے ہی سہی لیکن جمہوری لوگ ہیں اور اس نظام کے کرتا دھرتا ا س کے شہری یا عوام ہیں۔ یہ شہری نظام حکومت چلانے کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ صدر، قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل پارلیمنٹ تھیوری کے مطابق ملک یا ریاست کا سب سے سپریم ادارہ ہے(بشرطیکہ اس کے ارکان جعلسازی سے منتخب نہ ہوں)۔ سعید چودھری نے مجھ سے اتفاق کیا تھا کہ آئین تو پارلیمنٹ کی پراڈکٹ ہے وہ پارلیمنٹ سے بالاتر کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ ضرور ہے حکومتی یا ریاستی امور چلانے کے لئے آئین سب سے بڑی دستاویز ہے لیکن دستاویز بنانے والا ادارہ یقینا دستاویز سے بلند ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ یہ پارلیمنٹ حقیقی معنوں میں شہریوں کی نمائندہ ہو۔

ہے لبوں پر سدا تیرا نام، نوجوان نے ہونٹوں پر اپنی محبوبہ کا نا م لکھوا لیا

فرض کریں خدانخواستہ عوام اور اس کے ووٹوں سے وجود آنے والی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پے درپے مسلسل غلطیاں کرنے لگ جاتی ہیں اور ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ ان سے ریاستی وجود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو پھر کیا ہوگا۔اس سارے نظام کو لڑکھڑانے سے بچانے کے لئے ایک ”اسٹیبلشمنٹ“ موجود ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جب فوج کا نام لینے سے لوگ ڈرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف فوج اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتی۔نجم سیٹھی نے ایک حالیہ شو میں واضح کیا ہے کہ اس میں بیورو کریسی، عدلیہ اور فوج کے موثر افراد شامل ہوتے ہیں ان کا آپس میں رابطہ غیر مرئی انداز میں ہوتا ہے اور کسی بھی اہم اور نازک موڑ پر ان کے درمیان ایک ”انڈر سٹینڈنگ“ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ان میں سب سے موثر فوج کی قوت ہوتی ہے جو ضروری نہیں حرکت میں آئے اس کا خوف ہی معاملات کو ٹریک پر رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کیلئے ثریا بی بی کا نام فائنل

یہ اسٹیبلشمنٹ صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ ہر ملک میں ہوتی ہے۔ اس کا وجود اس امر کا ضامن ہوتا ہے کہ حکومتی نظام جیسے بھی چلے لیکن خرابی کی راہ پر چلتے ہوئے ریاست کے لئے خطرہ پیدا نہیں ہو گا۔ ریاست کی نظریاتی حفاظت کا تو ریاست کے شہریوں کے ووٹوں سے تشکیل پانے والا ریاستی نظام ذمہ دار ہے لیکن ریاست کے نظریاتی وجود کی حفاظت کا ذمہ لینے والی غیر مرئی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے جبکہ اس کی جغرافیائی سرحدوں کی ذمہ داری اس اسٹیبلشمنٹ میں شامل طبعی قوت والی فوج پر عائد ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اسٹیبلشمنٹ غیر مرئی اور غیر محسوس طریقے سے اپنا نگران کردار ادا کرتی رہی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نگران ادارے کا کردار سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ اندرونی طورپر اس سرزمین کے ایک ایک چپے کو محفوظ بنانے کے لئے بہت اہم ہے۔ تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ کسی غریب کی جھونپڑی ہو یا ایوان صدر سب ریاست کے برابر کے اثاثے ہیں جن کی چار دیواری کا تقدس یکساں ہے۔ ہم 9مئی کو ریاستی اثاثوں پر حملوں کی ہر محب وطن شہری کی طرح شدید مذمت کرتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد ملک میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہو رہا ہے تو اس موقع پر ریاست فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں ملوث شہریوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرے۔ ہمارا کم از کم بیس سال کا ٹریک ریکارڈ ثبوت ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کے خلاف کتنا سخت لکھا ہے۔ لیکن ہمارے شہری یا سیاسی ورکر کسی جرم کا ارتکاب تو کر سکتے ہیں لیکن وہ روایتی دہشت گرد تنظیموں سے منسلک دہشت گردوں جیسے نہیں ہیں۔ اس لئے ان سے دہشت گردوں والا سلوک نہ کیا جائے۔ تو فی الحال ہم یہ چاہتے ہیں کہ ریاست یہ کرے۔ اس سے پورے ملک میں ایک مثبت پیغام جائے گا اور بدامنی پیدا کرنے والی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ریاست کے ادارے اور شہری مل جل کر آگے بڑھیں۔ یہی فلاح کا راستہ ہے۔

دباؤ میں بھی ہم اٹیک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں: صائم ایوب

QOSHE -        ریاست کیا کرے؟ - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       ریاست کیا کرے؟

11 0
27.02.2024

ریاست کیا کرے؟ یہ سوال میں صرف ریاست یا ریاستی اداروں سے نہیں بلکہ اپنے آپ اور ریاست کے تمام شہریوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے پوچھ رہا ہوں۔ میں نے پچھلے ہفتے جو کالم بعنوان ”دہشت گردی کا اصل چہرہق‘ لکھا اس پر جو تبصرے مجھ تک پہنچے تو کچھ مزید سوچ بچار کی اور یہ سوال پیدا ہوا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہم اس کا تسلی بخش جواب ڈھونڈھ پاتے ہیں یا نہیں؟

لیکن میں پہلے یہ واضح کردوں کہ سوال پوچھنے والا یہ رائٹر سوکس، معاشرت، معاشیات اور ریاستی اداروں اور ان سے متعلق آئینی اور قانونی معاملات سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ بنیادی طور پر تو میں سائنس کا طالب علم تھا جس کے بعد ایم اے انگلش جرنلزم کر لیا۔ اس لئے اپنی کم علمی کے باعث سیاست یا سیاسی جماعتوں کے بارے میں لکھنے سے پرہیز کرتا رہا ہوں جس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں کسی تنازعے سے بچا رہا تاہم جن موضوعات پر میں سہولت کے ساتھ لکھتا رہا ان میں سائنس کے علاوہ انسانی اور خواتین کے حقوق اور دہشت گردی شامل تھے۔

کچے کے علاقے میں دو گروپوں میں فائرنگ، 7 افراد جاں بحق

مجھے معلوم تھا کہ 8فروری کے قومی انتخابات اور اس کے متنازعہ نتائج کا پورے ملک میں چرچا ہو رہا تھاجو اس وقت بھی جاری ہے لیکن میں نے انتخابات کی بجائے اس موقع پر ہونے والی دہشت گردی کے موضوع پر لکھا بہت سے سوالات پیدا ہوئے اور بات آکر ریاست پر رک گئی کہ پاکستان اس وقت کچھ عرصے سے جن بحرانی حالات سے گزر رہا ہے اس میں ریاست کیا کرے۔

جیسا کہ میں نے پہلے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play