8فروری انتخابات کے بعد چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومتوں کی جیسی بھی تقسیم ہوئی ہے، بہرحال یہ طے ہے کہ ملک کانظام انہی حکومتوں کے ذریعے چلے گا۔ شور مچتا رہے گا، واویلا ہوتا رہے گا مگر جو ڈیزائن ہو چکا،معاملات اب اس کے ذریعے ہی چلائے جائیں گے۔ عوام کو بھی یہ ”فیصلہ“ قبول کرنا پڑے گا اور شائد ان سیاسی جماعتوں کو بھی جو نتائج کو تسلیم نہیں کر رہیں اور دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔ ملک میں اگرلولی لنگڑی جمہوریت برقرار رکھنی ہے تو انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں بند گلی سے نکال سکتا ہے۔ اب بعض لوگ اس کلیے سے اتفاق نہیں کریں گے، ان کے نزدیک یہ تو کوئی بات نہیں کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا جائے، جمہوریت میں ووٹ کی سب سے زیادہ اہمیت اور عزت ہوتی ہے، اسی کو تاراج کرکے جمہوریت کو قائم رکھنے کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے پاکستان میں نہ تو کبھی آئیڈیل انتخاب ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی آئیڈیل جمہوریت رہی ہے۔ بس جمہوریت کا ہلکا پھلکا چھڑکاؤ کرکے ہمیں ایک نظام دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ویسے کون سی چیز آئیڈیل بنیاد پر کھڑی ہے، یہ سیاسی جماعتیں جنہیں عوام جمہوریت کی علامت سمجھتے ہیں، خاندانی جاگیریں ہیں ان میں کتنی جمہوریت ہے سب جانتے ہیں، صرف تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن نے اعتراضات لگاکے اس کا انتخابی نشان چھینا تو علم ہوا ان انتخابات کی بھی اہمیت ہوتی ہے، مگر جو سختیاں اور سکروٹننگ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انتخابات کی کی، وہ کسی اور جماعت کی نہیں کر سکا۔ قواعد و ضوابط تو ایسے بھی بننا چاہئیں کہ کوئی شخص ایک سے زائد بار پارٹی کا صدر نہ بن سکے اور اس کی مدت بھی معین ہو تاکہ پارٹیوں میں نئی قیادت آتی رہے اور جمہوریت ان میں بھی جگہ پا سکے۔ خیر یہ تو ایک علیحدہ موضوع ہے، اس وقت اصل ٹاسک یہ ہے ملک میں جو نیا جمہوری سیٹ اپ شروع ہوا ہے، وہ آگے بڑھے، عوام میں اپنا اعتبار قائم کرے، کچھ کرکے کھائے، کچھ کرکے دکھایا جائے گا تو شاید عوام یہ بات بھول جائیں گے کہ ان کے مینڈیٹ کو سبوتاژ کیا گیا اگر وہی روائتی طرزِ حکمرانی اس بار بھی اختیار کیا گیا جو اس ملک میں عوام کی امنگوں اور امیدواروں کو کچلنے کا باعث بنتا ہے تو پھر اس سسٹم کے علمبرداروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کے دن بہت جلد گنے جا چکے ہوں گے۔

کچے کے علاقے میں دو گروپوں میں فائرنگ، 7 افراد جاں بحق

ایک خبر چھپی ہے، جس کے مطابق ارکان قومی اسمبلی کے لئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو ان کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوں گے۔ یہ ایک مد ہے، حکومت کے وزراء اور وزیراعظم کے اخراجات علیحدہ ہوں گے، اسی طرح وفاق میں سینیٹ کا ادارہ بھی موجود ہے جس کے اخراجات کچھ کم نہیں ہوتے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیاں، حکومتیں بھی قومی خزانے کے کاندھوں پر چلتی ہیں۔ یوں قوم اربوں روپے اس نظام پر خرچ کرتی ہے جسے جمہوریت کہا جاتا ہے، جب اس پر یہ داغ لگتا ہے کہ اسمبلیاں عوام کے حقیقی ووٹوں سے نہیں چنی گئیں تو مایوسی کا سبب بن جاتی ہیں۔ عوام یہ بھی برداشت کرلیتے ہیں، یہ سوچ کر پارلیمنٹ تو چل رہی ہے، فیصلے تو اس کی مرضی سے ہو رہے ہیں مگر اصل مایوسی تب جنم لیتی ہے،جب یہی ادارے، یہی حکومتیں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچاتے یا پہنچنے نہیں دیتے۔ کیا یہ روایت اس بار بھی دہرائی جائے گی؟ کیا منتخب ہونے والے حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجانے والے اپنے وعدے اور نعرے بھول جائیں گے۔ اس مرتبہ حکمرانی کے سنگھاسن پر بیٹھنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات کے سائے منڈلا رہے ہیں، اسی نظام پر ماضی میں سلیکٹڈ کی تہمتیں لگتی رہی ہیں۔ اس بار تو مخالفین ریجیکٹڈ کا نیا الزام لائے ہیں۔ گڈگورننس اور عوام کو اپنی پالیسیوں سے ریلیف دیئے بغیر قائم ہونے والی یہ حکومتیں ایک ایک دن مشکل سے گزار سکیں گی۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ الزام تعاقب کرتا رہے گا کہ ہمارا مینڈیٹ چرا کے انہیں لایا گیا، اس الزام کو رد کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہوگا کہ اپنی کارکردگی سے جواب دیا جائے۔ خالی خولی دعوؤں اور بڑھکوں سے بات نہیں بنے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں مضبوط بنیادوں پر قائم ہوں گی۔ مرکز میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں ایک واضح اکثریت نظر آئے گی اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ایک مضبوط حکومت قائم ہو چکی ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی بلا شرکتِ غیرے حکومت کرے گی جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے حامیوں کی حکمرانی قائم ہونے جا رہی ہے، اس طرح بلوچستان میں بھی اس بار ایک مضبوط حکومت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں یہ سامنے کی حقیقتیں ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ عوام کو کیسے مطمئن کرنا ہے؟ اس کے لئے حکومتوں نے کیا لائحہ عمل بنایا ہے اور حکومتوں کی تشکیل و تقسیم کرنے والوں نے کیا اس حوالے سے بھی کوئی ایجنڈا ترتیب دیا ہے۔ اب عوام دشمن فیصلوں کی رتی بھر گنجائش نہیں۔ خاص طور پر معاشی حوالے سے فوری ریلیف نہ دیا گیا تو وہ غصہ جو پہلے ہی مخصوص وجوہات کی بناء پر موجود ہے، عوام میں مزید اضطراب پیدا کرے گا۔

ہے لبوں پر سدا تیرا نام، نوجوان نے ہونٹوں پر اپنی محبوبہ کا نا م لکھوا لیا

جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو اس میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور مریم نواز وزیراعلیٰ بن گئی ہیں۔ شریف خاندان کے لئے یہ بڑا اہم موقع ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صوبے کی حکمران بنی ہیں یہ جہاں فخر کی بات ہے وہاں شریف خاندان کے لئے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں سے مسلم لیگ ن نے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ نوازشریف کی سیاست کا محور بھی پنجاب رہا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ شریف خاندان کی پچھلے چند برسوں میں اس صوبے پر گرفت کمزور ہوئی ہے۔ پچھلی بار پنجاب کی حکومت اس کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی، اب دوبارہ حکومت ملی ہے اور مریم نواز کو وزارتِ اعلیٰ سونپی گئی ہے تو یقینا نوازشریف کی یہ خواہش ضرور رہی ہو گی کہ مریم نواز ایک کامیاب وزیراعلیٰ کے طور پر اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کریں۔ مسلم لیگ ن کو بھی نئے سرے سے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ شریف برادران پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنی اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں صرف لاہور کو پنجاب سمجھتے رہے۔ انہوں نے خاص طور پر جنوبی پنجاب کونظر انداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت جنوبی پنجاب میں جو کہ صوبے کی نصف آبادی پر مشمل ہے بہت کم ہو گئی۔ مریم نواز نے اگر اس روایت کو توڑا اور جنوبی پنجاب پر بھی توجہ دی تو اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ پنجاب کابینہ میں جنوبی پنجاب کی نمائندگی اور بجٹ میں آبادی کے تناسب سے فنڈز مختص کرکے مریم نواز ایک غیر روائتی اور مقبول وزیراعلیٰ کا درجہ حاصل کر سکتی ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کیلئے ثریا بی بی کا نام فائنل

QOSHE -      نئی حکومتیں پرانے چیلنج - نسیم شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     نئی حکومتیں پرانے چیلنج

12 0
27.02.2024

8فروری انتخابات کے بعد چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومتوں کی جیسی بھی تقسیم ہوئی ہے، بہرحال یہ طے ہے کہ ملک کانظام انہی حکومتوں کے ذریعے چلے گا۔ شور مچتا رہے گا، واویلا ہوتا رہے گا مگر جو ڈیزائن ہو چکا،معاملات اب اس کے ذریعے ہی چلائے جائیں گے۔ عوام کو بھی یہ ”فیصلہ“ قبول کرنا پڑے گا اور شائد ان سیاسی جماعتوں کو بھی جو نتائج کو تسلیم نہیں کر رہیں اور دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔ ملک میں اگرلولی لنگڑی جمہوریت برقرار رکھنی ہے تو انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں بند گلی سے نکال سکتا ہے۔ اب بعض لوگ اس کلیے سے اتفاق نہیں کریں گے، ان کے نزدیک یہ تو کوئی بات نہیں کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا جائے، جمہوریت میں ووٹ کی سب سے زیادہ اہمیت اور عزت ہوتی ہے، اسی کو تاراج کرکے جمہوریت کو قائم رکھنے کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے پاکستان میں نہ تو کبھی آئیڈیل انتخاب ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی آئیڈیل جمہوریت رہی ہے۔ بس جمہوریت کا ہلکا پھلکا چھڑکاؤ کرکے ہمیں ایک نظام دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ویسے کون سی چیز آئیڈیل بنیاد پر کھڑی ہے، یہ سیاسی جماعتیں جنہیں عوام جمہوریت کی علامت سمجھتے ہیں، خاندانی جاگیریں ہیں ان میں کتنی جمہوریت ہے سب جانتے ہیں، صرف تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن نے اعتراضات لگاکے اس کا انتخابی نشان چھینا تو علم ہوا ان انتخابات کی بھی اہمیت ہوتی ہے، مگر جو سختیاں اور سکروٹننگ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انتخابات کی کی، وہ کسی اور جماعت کی نہیں کر سکا۔ قواعد و ضوابط تو ایسے بھی بننا چاہئیں کہ کوئی شخص ایک سے زائد بار پارٹی کا صدر نہ بن سکے اور اس کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play