قرون وسطیٰ کے یورپ میں بڑے بحری بیڑوں میں جدت اوریورپی اقوام کے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے ان بحری جہازوں کااستعمال،دنیاکے باقی خطوں کے لئے بہت بری خبرثابت ہوئی۔مقامی اقوام سے آزادی اورخودمختاری چھین لی گئی،ان کے قدرتی وسائل پرقبضہ جماکر،لوٹ مارکرکے یورپ لے جایاجانے لگا۔برسبیل تذکرہ انگریزی زبان کالفط ”لوٹ“انہی دنوں اردوہندی سے انگریزی لغت کاحصہ بناجب نوآبادیاتی نظام نے برصغیرمیں اپنے پنجے گاڑکرلوٹ مارشروع کردی تھی۔صدیوں تک جاری رہنے والے اس غیرمنصفانہ اورظالمانہ عمل میں اٹھارویں صدی کے دوران ملائیشیابرطانوی اورولندیزی قبضے میں چلا گیا۔ اس سے قبل وہاں مالے بادشاہتیں قائم تھیں۔ غلامی کایہ دور1957تک جاری رہا،اس کے چھ سال بعد ملایااورتاج برطانیہ کے زیرنگیں شمالی بورینو،ساراواک اورسنگاپورنے مل کر جدیدملائیشیاکوتشکیل دیا۔یہ الگ قصہ ہے کہ 1965میں سنگاپورکواس فیڈریشن سے زبردستی الگ کردیا گیاتھا۔خوبصورت بات یہ ہے کہ آزادی کے ابتدائی سال جدوجہدکے رہے مگراس کے بعدمسلسل پچاس برس تک معیشت کی شرح نمو6.5سے کبھی بھی کم نہیں ہوئی،سیاسی اتارچڑھاؤ بھلے جیسے بھی آئے ہوں۔سیاست کی بات کریں تویہاں برطانوی طرزکا پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے البتہٰ ریاست کاسربراہ وزیراعظم نہیں بلکہ منتخب بادشاہ ہوتاہے۔منتخب یوں کہ نوریاستوں کے بادشاہ ایک شہنشاہ چن لیتے ہیں۔ ریاستوں کی کل تعدادتیرہ ہے، جنہیں آپ صوبے کہیں توزیادہ مناسب ہوگا۔وفاق کے زیرانتظام تین علاقے ان کے علاوہ ہیں۔

کچے کے علاقے میں دو گروپوں میں فائرنگ، 7 افراد جاں بحق

ساڑھے تین کروڑکی آبادی میں گرچہ سنی مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے مگربیس فیصد بدھ مت اورسات فیصدہندوآبادی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،دس فیصدعیسائی آبادی بھی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ معیشت کی بھاگ دوڑانہی مذہبی اقلیتوں کے ہاتھوں میں نظرآتی ہے۔یہ مذہبی رنگارنگی اور تقسیم کسی حدتک نسلی پس منظرسے بھی جڑی ہوئی ہے،جوکسی قوس قزح کے رنگوں کامنظرپیش کرتی ہے۔ملک کی آدھی آبادی مالے نسل سے تعلق رکھتی ہے،جو تقریباً تمام مسلمان ہیں، یادرہے کہ مالے بھی یہاں کی مقامی نسل نہیں ہیں۔مگروہ صدیوں کے ارتقاء کے دوران مقامیوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں اوردونوں گروہ ایک ہی مذہب اسلام کے پیروکار ہیں۔بھارتی نسل سے تعلق رکھنے والے جنوبی ہند سے یہاں آ کر آبادہوئے ہیں۔تامل اورملیالم زبان زیادہ بولتے ہیں اور ہندو عقیدہ رکھتے ہیں۔ان لوگوں کے ساتھ کھاناکھانے کااتفاق ہوا۔کیلے کے پتوں پرسفیدابلے ہوئے چاول ڈالے گئے، پھر ایک صاحب بالٹی میں دال لئے چاولوں پرایسے پروس رہے تھے۔جیسے غسل کے وقت نہانے کے لئے ہم ”پوا“ استعمال کرتے ہوئے بالٹی سے بھرکربدن پرڈالتے ہیں۔ہاتھ کی انگلیوں کی مددسے کھانے،یعنی دال اور چاولوں کو مکس کرکے کھایاگیا۔مگرسچ بات تویہ ہے کہ جھجکتے ہوئے کھاناشروع کیاتووہ انتہائی لذیذتھا۔ میرے ہندو دوست کااس بابت فرمان تھا کہ پرسادہمیشہ مزیدار ہوتاہے۔ریستوران کامالک کیرالہ سے آیا ہوا ہے۔ اس مذہبی اورثقافتی رنگا رنگی کاایک حسین پہلویہ ہے کہ یہاں پرساراسال ہی کوئی نہ کوئی تہوار منایا جا رہا ہوتا ہے۔ گویاپنجابی مثال کے مصداق”ست دن تے اٹھ میلے، گھر جاواں کیہڑے ویلے“ کا منظر نظر آتا ہے۔

ہے لبوں پر سدا تیرا نام، نوجوان نے ہونٹوں پر اپنی محبوبہ کا نا م لکھوا لیا

یورپ سے بہت زیادہ سیاح یہاں آتے ہیں۔ باالخصوص امریکہ اوربرطانیہ سے آنے والوں کی تعدادتوبہت زیادہ ہے۔اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ انگریزی زبان سمجھنے والوں کی تعدادیہاں پرکافی بڑی ہے۔اگرچہ سرکاری زبان ملائیشین مالے ہے،جوبنیادی طورپرمالے ہی کی ایک معیاری شکل ہے، مگرنوآبادیاتی پس منظرکے سبب انگریزی یہاں کی دوسری بڑی زبان ہے اور بہت ہی عام فہم ہے۔ان دنوں روسی نژاد سیاحوں کی بھی بہتات ہے، جس کاسبب روس،یوکرین جنگ بھی ہوسکتاہے،چونکہ دونوں ملکوں میں فوجی نوکری لازمی ہے، اوران دنوں زبردستی بھرتی کئے جانے کی خبریں دونوں ملکوں سے ہی آرہی ہیں،اس لئے بہت سے نوجوان فوجی بھرتی سے بچاؤکے لئے بھی یہاں پناہ گزین ہیں۔پرکشش سیاحتی مقام کادرجہ پانے کی سب سے اہم وجہ میری نظر میں امن وامان کی مثالی صورت حال ہے۔آپ آدھی رات کو گلیوں، بازاروں میں گھوم پھرسکتے ہیں۔ چوری، چکاری، چھیناجھپٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گردوپیش کی فضامیں ایک تحفظ اورنرمی کااحساس سیاحو ں کواپنی جانب کھینچتاہے۔ہم بھی اگرچاہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاحت فروغ پائے تواس کے لئے ضروری ہے کہ ایسی فضاقائم کی جائے جس میں سیاح خودکومحفوظ محسوس کریں۔

ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کیلئے ثریا بی بی کا نام فائنل

ملائیشیااپنے ثقافتی ورثے کی طرح جغرافیائی طورپربھی بڑامتنوع ہے۔یہ ایک جزیرہ نما ہے۔ زمینی سرحدفقط تھائی لینڈسے ملتی ہے۔ویسے تو سنگاپوربھی اب ایک پل کے ذریعے ملائیشیاسے جڑگیاہے لیکن عملی طورپراسے ہمیشہ سے ہی ملائیشیاکاحصہ تصورکیا جاتاہے،کوئی الگ تھلگ ملک نہیں۔آبی سرحد انڈونیشیا کے علاوہ کئی ممالک سے ملتی ہے۔ جزیروں کے جھرمٹ میں کئی جگہ توملائیشیا اور انڈونیشیابہت ہی قریب پائے جاتے ہیں۔معیاری وقت پاکستان سے تین گھنٹے آگے ہے اورساٹھ کاہندسہ اس ملک کاامتیازی نشان شمارہوتاہے،جوکہ ٹیلی فون کاعالمی طورپر ملائیشیا کے لئے کالنگ کوڈہے۔تہذیب وثقافت سے لگاؤ اورجدت پسندی کاایساحسین امتزاج دنیاکے کسی اورملک میں کم ہی دیکھنے کااتفاق ہواہے۔

دباؤ میں بھی ہم اٹیک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں: صائم ایوب

سرخ پتیوں اورپیلے ڈانڈے والا”ہائی بسکس“ملائیشیاکاقومی پھول ہے۔اس کاتذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ کوالالمپورشہرکاذکراس گل خوش رنگ کے بغیرادھوراہے۔اس نگرمیں آپ جہاں کہیں بھی چلے جائیں یہ پانچ پتیوں والاہائی بسکس آپ کوہرجگہ نظرآجائے گا۔اس نازک پیکرپھول کو”گل ِوطن“ کادرجہ دینے کی وجہ ایک سیانے نے ہمیں یہ بتائی کہ اس کی پانچ پتیوں سے اس ملک کی پانچ نکاتی حکمت عملی کااظہارہوتاہے۔وہ پانچ عزائم یہ ہیں کہ اول خدا پربھروسہ،دوم بادشاہ اورمملکت سے وفاداری، سوئم آئین اور قانون کی عملداری،چہارم و پنجم دانشمندانہ رویہ اور بلند کردار گردانے جاتے ہیں۔پھول کاسرخ رنگ ہمت اور حوصلے کی علامت ماناجاتاہے۔جس طرح چیری کے پھول کوجاپان کی روح قرار دیاجاتاہے،بالکل اسی طرح ہائی بسکس کوملائیشیاکی روح قرار دیا جائے تومبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔

کراچی میں آج معمول سے تیزہوائیں چلنے کی پیشگوئی

طلوع آفتاب کامنظرتوکرہئ ارض کے ہرکونے میں خوبصورت ہوتاہے مگرملائیشیاکے سرسبز باغات اوراجلے آسمان میں تویہ روح پرورنظارہ ہے۔پنجاب کی دھندمیں لپٹی سردی کے بعدگرم مرطوب موسم نے صبح کامزہ دوآتشہ کر دیا۔ پاکستانیوں کے ساتھ سرکاری اہلکاروں کارویہ دوستانہ ہے۔ عجزوانکساری ویسے تومشرق بعیدکے تمام ممالک میں بسنے والے لوگوں کاخاصہ ہے مگرملائیشیامیں اس انسانی صفت کامقام انتہائی بلندپایہ ہے۔یہ ان چندممالک میں شامل ہے جہاں آپ کوآن لائن ویزہ بھی مل جاتاہے۔جس پرباآسانی ملک میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے۔ ویزہ بھی بے حدآسانی سے دستیاب ہے،یہ بڑی سہولت کی بات ہے اسلام آبادجاکرایمبیسی کے چکرنہیں لگانا پڑتے، ویسے میرے عازم سفرہونے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی۔ میں عرض کر رہا تھا کہ میٹھے بول میں جادو ہے۔اس ضرب المثل پریقین آنے لگتا ہے جب انسان مشرق بعیدمیں سفرکے لئے نکلتاہے۔جتنی زیادہ مادی ترقی نظرآتی ہے،لوگوں میں عاجزی وانکساری کے ساتھ اخلاق کی بلندی بھی اسی قدرعیاں ہوتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عارنہیں ہے کہ ایشیاء کایہ خطہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ اورسب سے زیادہ خوش اخلاق لوگوں کامسکن ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

ایک متاثرکن بات ملائیشیاکی حکومت اور عوام کی جانب فلسطین کی جدوجہدآزادی کے لئے زبردست حمایت ہے،اس کاایک پہلوتوکوچہ و بازار میں جگہ جگہ لہراتے فلسطینی پرچم ہیں، دوسرا پہلو مگر اس سے بھی اہم ہے اور وہ قومی میڈیا میں تمام اینکرز اور نیوز ریڈرز کا کوفیہ پہن کر خبریں پڑھنا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بے محل نہ ہوگی کہ کوفیہ وہ مخصوص سیاہ و سفید رومال ہے جو یاسر عرفات سے لے کرلیلیٰ خالد اور دیگر فلسطینی حریت پسند رہنماؤں اور کارکنوں کے گلے میں آپ کو نظر آتا ہے۔سفیدرنگ کے کپڑے پرسیاہ دھاگے سے کشیدہ کاری کرکے دھاریوں اورنقطوں پرمبنی اس مخصوص رومال اورگلوبندکی ابتداء چونکہ عراق کے شہرکوفہ سے ہوئی تھی،اس لئے اس نسبت سے اسے کوفیہ کہاجاتاہے۔

QOSHE -            یہ دیس ہے میٹھے لوگوں کا - عامر بن علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           یہ دیس ہے میٹھے لوگوں کا

8 0
27.02.2024

قرون وسطیٰ کے یورپ میں بڑے بحری بیڑوں میں جدت اوریورپی اقوام کے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے ان بحری جہازوں کااستعمال،دنیاکے باقی خطوں کے لئے بہت بری خبرثابت ہوئی۔مقامی اقوام سے آزادی اورخودمختاری چھین لی گئی،ان کے قدرتی وسائل پرقبضہ جماکر،لوٹ مارکرکے یورپ لے جایاجانے لگا۔برسبیل تذکرہ انگریزی زبان کالفط ”لوٹ“انہی دنوں اردوہندی سے انگریزی لغت کاحصہ بناجب نوآبادیاتی نظام نے برصغیرمیں اپنے پنجے گاڑکرلوٹ مارشروع کردی تھی۔صدیوں تک جاری رہنے والے اس غیرمنصفانہ اورظالمانہ عمل میں اٹھارویں صدی کے دوران ملائیشیابرطانوی اورولندیزی قبضے میں چلا گیا۔ اس سے قبل وہاں مالے بادشاہتیں قائم تھیں۔ غلامی کایہ دور1957تک جاری رہا،اس کے چھ سال بعد ملایااورتاج برطانیہ کے زیرنگیں شمالی بورینو،ساراواک اورسنگاپورنے مل کر جدیدملائیشیاکوتشکیل دیا۔یہ الگ قصہ ہے کہ 1965میں سنگاپورکواس فیڈریشن سے زبردستی الگ کردیا گیاتھا۔خوبصورت بات یہ ہے کہ آزادی کے ابتدائی سال جدوجہدکے رہے مگراس کے بعدمسلسل پچاس برس تک معیشت کی شرح نمو6.5سے کبھی بھی کم نہیں ہوئی،سیاسی اتارچڑھاؤ بھلے جیسے بھی آئے ہوں۔سیاست کی بات کریں تویہاں برطانوی طرزکا پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے البتہٰ ریاست کاسربراہ وزیراعظم نہیں بلکہ منتخب بادشاہ ہوتاہے۔منتخب یوں کہ نوریاستوں کے بادشاہ ایک شہنشاہ چن لیتے ہیں۔ ریاستوں کی کل تعدادتیرہ ہے، جنہیں آپ صوبے کہیں توزیادہ مناسب ہوگا۔وفاق کے زیرانتظام تین علاقے ان کے علاوہ ہیں۔

کچے کے علاقے میں دو گروپوں میں فائرنگ، 7 افراد جاں بحق

ساڑھے تین کروڑکی آبادی میں گرچہ سنی مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے مگربیس فیصد بدھ مت اورسات فیصدہندوآبادی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،دس فیصدعیسائی آبادی بھی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ معیشت کی بھاگ دوڑانہی مذہبی اقلیتوں کے ہاتھوں میں نظرآتی ہے۔یہ مذہبی رنگارنگی اور تقسیم کسی حدتک نسلی پس منظرسے بھی جڑی ہوئی ہے،جوکسی قوس قزح کے رنگوں کامنظرپیش کرتی ہے۔ملک کی آدھی آبادی مالے نسل سے تعلق رکھتی ہے،جو تقریباً تمام مسلمان ہیں،........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play