انتخابات کے حوالے سے ابھی تک دھاندلی دھاندلی کا شور تو مچا ہوا ہے، لیکن پیشرفت یہ بھی ہے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں نے ملک میں حکومت سازی کا عمل بھی شروع کر دیا ہے، یعنی کچھ جماعتیں دھاندلی پر احتجاج تو کر رہی ہیں،دھرنے بھی دے رہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسمبلی میں بیٹھنا بھی چاہتی ہیں اور مینڈیٹ کے حوالے سے اپنی لڑائی قانونی طریقے سے لڑنا چاہتی ہیں، اسے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت روش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

حکومت سازی کا آغاز پنجاب سے ہوا ہے، جمعہ کے روز پنجاب کے نو منتخب ارکان کی اکثریت نے حلف اٹھایا اور اس سے اگلے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی ہو گیا اور آج وزیراعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے ایک ہر دلعزیز رکن پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کو پنجاب اسمبلی کا نیا سپیکر منتخب کیا گیا ہے،وزیراعلیٰ کے لئے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مریم نواز کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ آزاد ارکان یا پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پہلے اسلم اقبال کا نام وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کیا گیا،مگر بعد ازاں اسے تبدیل کر کے رانا آفتاب احمد خان کو نامزد کر دیا گیا،رانا آفتاب احمد خان اِس وقت پنجاب اسمبلی کے سینئر ترین اور تجربہ کار ارکان میں سے ایک ہیں، سپیکر ملک احمد خان کی طرح وہ بھی حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں یکساں مقبول ہیں۔ پارٹی پوزیشن اور سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے مریم نواز کے وزیراعلیٰ بننے کے امکانات زیادہ ہیں، انتخاب کے بعد وہ آج پیر کے روز حلف بھی اُٹھا لیں گی۔

میاں بیوی نے نہر میں چھلانگ لگا دی

مریم نواز پہلی بار وزیراعلیٰ بن رہی ہیں،بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ پہلی دفعہ براہ راست اقتدار میں آ رہی ہیں،اِس سے پہلے انہیں گورننس کا کوئی تجربہ نہیں ہے، لیکن ایک بات مسلم لیگ (ن) کے لئے حوصلہ افزاء یہ ہے کہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو ان کی معاونت کے لئے چنا گیا ہے،اِسی طرح مسلم لیگ (ن) کے قائد اور مریم نواز کے والد میاں نواز شریف چونکہ صوبے یا وفاق میں کوئی عہدہ نہیں لے رہے ہیں تو اس لئے وہ بھی ہمہ وقت مریم نواز کی رہنمائی کے لئے موجود ہوں گے۔

مریم نواز اور حمزہ شہباز میں سے وزیر اعلیٰ چننے کا فیصلہ کس نے کیا؟ نامزد خاتون وزیراعلیٰ کی خوبیاں اور خامیاں سینئر صحافی سہیل وڑائچ سامنے لے آئے

معاملہ جو بھی ہو اور صورتحال جو بھی ہو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مریم نواز کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہونے والی ہے اور یہ چیلنج کئی حوالوں سے ہے، پہلا حوالہ یہ ہے کہ پنجاب ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، چنانچہ اسی تناظر وتناسب میں اس کے مسائل پیچیدہ اور گنجلک بھی ہیں، لیکن یہ بات بھی خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مریم نواز اگر وزرا کی ایک اچھی ٹیم بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور سول سروس میں اچھے بیوروکریٹس کو آگے لاتی اور اہم عہدوں پر متعین کر دیتی ہیں، کام کے حوالے سے ان کے ساتھ اچھے تعلقات بناتی ہیں تو ان کے لئے صوبے کے معاملات کو چلانا چنداں مشکل نہیں رہے گا۔

انوکھا واقعہ، مقابلے میں شریک اکلوتا تن ساز گولڈ میڈل جیت گیا

نواز شریف صاحب نے مریم نواز اور دیگر ارکان اسمبلی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ملک و قوم کی خدمت ہی نون لیگ کا بھی وژن ہے،انہوں نے منتخب ارکان سے کہا کہ وہ ایک دوسرے کے بازو بن کر کام کریں۔ انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ مریم نواز اچھی اور قابل وزیراعلیٰ ثابت ہوں گی۔ اللہ کرے ایسا ہو اور یہ بات میں کسی پارٹی کے لئے جانبداری دکھاتے ہوئے نہیں کر رہا، بلکہ اس حوالے سے کر رہا ہوں کہ اس ملک اور اس صوبے کو واقعی ایک اچھی حکمرانی کی ضرورت ہے،ایسا حکمران آئے جو نہ صرف اب تک کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے میں کامیاب ہو، بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا جذبہ بھی اس میں پایا جاتا ہو۔

نو منتخب ارکان اسمبلی کی تنخوا ہوں اور مراعات کیلئے کتنی رقم کے مالیاتی بجٹ کی سفارشات تیار کرلی گئیں؟ غریب عوام کیلئے تازہ خبر

ٹیم بنانے کی بات ہوئی ہے تو یہ معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ نہیں ہے سیدھا اور سادہ ہے، مریم نواز ان لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کریں، جو ایماندار اور سلجھے ہوئے ہوں جن کی شہرت اچھی ہو اور جن پر لوگوں کو اعتبار ہو جو پیسہ بنانے کے بجائے عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہوں۔ بیورو کریسی میں انہیں ایسے لوگوں کو سامنے لانا چاہیے جن کی شہرت غیر جانبداری کی ہو، جن کا کیریئر بے داغ ہو اور جن پر کسی گروپ کا افسر ہونے کی چھاپ نہ لگی ہو،اس مقصد کے لئے انہیں ایک خاص گروپ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہو گی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پنجاب میں نون لیگ کی ایک چین آف بیورو کریسی ہے، اس کی شکایت پی ٹی آئی کی سابق حکومت بھی کرتی رہی ہے، جس کا شکوہ یہ رہا کہ سابق حکومت کے متعین کردہ بیوروکریٹ حکومت کو کام نہیں کرنے دے رہے، دوسری جانب ایسی ہی شکایت بیورو کریسی کو پی ٹی آئی حکومت سے تھی۔ بہرحال مریم نواز کو اس متھ (Myth) کو توڑنا ہو گا۔انہیں گو گیٹر (Go Getter)قسم کے افسروں کو سامنے لانا ہو گا،یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ گو گیٹر ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو بہت پُرجوش ہوں، کامیاب ہونے کا عزم رکھتے ہوں، اور نئے یا مشکل حالات سے آسانی کے ساتھ نمٹنے کے قابل ہوں۔

سب سے پہلے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا تھا مگرانہوں نے انکار کردیا، پیپلزپارٹی نے اعتراف کرلیا

میں نئی وزیراعلیٰ کو یہ مشورہ اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ وہ اس وقت عوام کی خدمت کا بھرپور جذبہ رکھتی ہیں، اس کا اظہار انہوں نے ارکان اسمبلی کے حلف اٹھانے کے موقع پر کیا اور اس سے پہلے بھی کئی بار کر چکی ہیں، گزشتہ روز انہوں نے کہا کہ خدا کرے خدمت کا نیا دور شروع ہو۔ اس حوالے سے میری اور پنجاب کے سارے عوام کی دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں کہ ہم سب اس صوبے اور اس ملک کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں لوگوں کے مسائل حل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں مہنگائی کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی بیروزگار نہ ہو، کوئی بھی خالی پیٹ نہ سوئے، کوئی بھی مالی مسائل کا شکار نہ ہو، کوئی بھی ایسا نہ رہے، جس کو انصاف نہ مل رہا ہو، کسی کو بھی حالات سے مجبور ہو کر اپنے بچوں کا گلا نہ گھونٹنا پڑے یا انہیں بغل میں دبا کر نہر میں چھلانگ نہ لگانا پڑے، سب کو امن ملے عافیت ملے سکون ملے اطمینان ملے اور صوبے کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو۔ وہ جو احمد مشتاق نے کہا تھا:

خاتون کو لباس پر عربی الفاظ پرنٹ ہونے کی وجہ سے ہراساں کرنے کا معاملہ، حافظ طاہر اشرفی کا ردعمل بھی آگیا

امن ملے تیرے بچوں کو انصاف ملے

دودھ ملے چاندی سا اجلا پانی صاف ملے

تو میری دُعا ہے کہ آنے والے دِنوں میں پنجاب کچھ ایسی ہی تصویر پیش کر رہا ہو۔

میرے مشورے یا تجویز کا آخری حصہ یہ ہے کہ صوبے کے معاملات کو ایک ڈگر پر چلانے کے بعد محترمہ مریم نواز کو بلدیاتی معاملات اور انتخابات پر توجہ دینا ہو گی، بلدیاتی ادارے ہی ہیں،جو گلی محلوں کی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرنے میں سب سے معاون ثابت ہوتے ہیں۔

QOSHE -       نئی وزیراعلیٰ پنجاب،توقعات اور امیدیں  - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      نئی وزیراعلیٰ پنجاب،توقعات اور امیدیں 

8 0
26.02.2024

انتخابات کے حوالے سے ابھی تک دھاندلی دھاندلی کا شور تو مچا ہوا ہے، لیکن پیشرفت یہ بھی ہے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں نے ملک میں حکومت سازی کا عمل بھی شروع کر دیا ہے، یعنی کچھ جماعتیں دھاندلی پر احتجاج تو کر رہی ہیں،دھرنے بھی دے رہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسمبلی میں بیٹھنا بھی چاہتی ہیں اور مینڈیٹ کے حوالے سے اپنی لڑائی قانونی طریقے سے لڑنا چاہتی ہیں، اسے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت روش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

حکومت سازی کا آغاز پنجاب سے ہوا ہے، جمعہ کے روز پنجاب کے نو منتخب ارکان کی اکثریت نے حلف اٹھایا اور اس سے اگلے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی ہو گیا اور آج وزیراعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے ایک ہر دلعزیز رکن پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کو پنجاب اسمبلی کا نیا سپیکر منتخب کیا گیا ہے،وزیراعلیٰ کے لئے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مریم نواز کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ آزاد ارکان یا پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پہلے اسلم اقبال کا نام وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کیا گیا،مگر بعد ازاں اسے تبدیل کر کے رانا آفتاب احمد خان کو نامزد کر دیا گیا،رانا آفتاب احمد خان اِس وقت پنجاب اسمبلی کے سینئر ترین اور تجربہ کار ارکان میں سے ایک ہیں، سپیکر ملک احمد خان کی طرح وہ بھی حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں یکساں مقبول ہیں۔ پارٹی پوزیشن اور سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے مریم نواز کے وزیراعلیٰ بننے کے امکانات زیادہ ہیں، انتخاب کے بعد وہ آج پیر کے روز حلف بھی اُٹھا لیں گی۔

میاں بیوی نے نہر میں چھلانگ لگا دی

مریم نواز پہلی بار وزیراعلیٰ بن رہی ہیں،بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ پہلی دفعہ براہ راست........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play