مثبت رویے اور نرم لہجے کی ضرورت
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر احتجاج ہوا تو پولیس کی طرف سے بدترین تشدد کیا گیا، گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ یہ احتجاج جی ڈی اے،جمعیت العلمائے اسلام، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مشترکہ طور پر کیا۔دھاندلی کے خلاف ہونے والے اس احتجاج نے یہ اشارہ کر دیا ہے آنے والے دِنوں میں سندھ کے سیاسی حالات کیسے ہوں گے۔بدقسمتی سے پورے ملک میں یکطرفہ ٹریفک چلائی جا رہی ہے۔دھاندلی کا الزام لگانے والوں کی شنوائی نہیں ہو رہی، ثبوت اُٹھائے پھر رہے ہیں، مگر کسی فورم پر اُن ثبوتوں کی چھان بین کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔یوں لگتا ہے اِس بار جو سسٹم ڈیزائن کیا گیا ہے اُس میں خرابی کی صورت رکھ دی گئی ہے تاکہ ایک بے اعتباری کی تلوار اس پر لٹکتی رہے۔ سندھ میں اب دو ہی جماعتیں اقتدار کے لئے اہل قرار پائی ہیں۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی جو پہلے بھی متعدد بار اقتدار میں رہی ہے، اِس بار کچھ زیادہ ہی بڑے مینڈیٹ کے ساتھ میدان میں آئی ہے،لیکن اگر بڑا مینڈیٹ متنازعہ ہو تو کمزور مینڈیٹ بن جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کوئی جیتنے والی جماعت اتنے بڑے دِل کی مالک نہیں کہ دھاندلی کے الزامات پر شفاف انکوائری کے مطالبے کی حمایت کر رہی ہو، اُلٹا سیاسی جماعتوں پر چڑھ دوڑنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے،جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ جب تک ہارنے والوں کو مطمئن نہیں کیا جائے گا، استحکام پیدا نہیں ہو گا۔بلاول بھٹو زرداری جنہوں نے ہمیشہ جمہوری سوچ کا اظہار کیا ہے،اب کچھ دِنوں سے ایک آمرانہ سوچ کے زیر اثر نظر آتے ہیں۔انہیں سندھ میں بڑے احتجاج کو بلیک میلنگ کا نام دینے کی بجائے اس مطالبے کی حمایت کرنی چاہئے کہ دھاندلی کی شکایات سننے کے لئے کمیشن بنایا جائے۔ مخالفین کو پُرتشدد واقعات کا ذمہ دار قرار دے کر عبرتناک سزائیں دلوانے کی باتیں اُن کے منہ سے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website