سیاستدان کب متحد ہوں گے؟
آئینی ادارے اپنی شکل میں واپس آ رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ اسمبلی کے اجلاس ہو چکے ہیں،قومی اسمبلی کا اجلاس بلا لیا گیاہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے اجلاس بھی ہونے جا رہے ہیں،یوں جمہوری اداروں کا کورم مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد صدر مملکت کا انتخاب ہو گا، سینیٹ کے انتخابات ہوں گے اور پارلیمنٹ کی تمام اکائیاں تکمیل پا جائیں گی۔ یہ چیزیں حوصلہ افزاءہیں کہ ہم ایک بار پھر جیسے تیسے جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کیا اس کے بعد ہم سیاسی استحکام بھی حاصل کر سکیں گے؟ کیا ملک میں ایک ٹھہراﺅ آئے گا، کیا حکومتیں ایک پرامن اور پُرسکون ماحول میں کام کر سکیں گی؟ ایسے سوالات کا اکثر جواب نہیں ملتا، کیونکہ کشمکش اور کشیدگی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، ویسے تو ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات ہمارے نئے جمہوری تجربے کا پیچھا کرتے ہیں لیکن اس بار تو حد ہی ہو گئی ہے، جیتنے اور ہارنے والوں کے درمیان ایک عجیب قسم کی بحث جاری ہے۔ ہر کوئی اپنی گنتی کے فارم اٹھائے پھر رہا ہے اور یہ یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے اسے واقعی عوام کی طرف سے مینڈیٹ ملا ہے۔ مینڈیت ملنے کا مستند حوالہ فارم 45 ہے جسے الیکشن کمیشن نے نہ صرف اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے،بلکہ ایک طرح سے ردی بنا دیا ہے۔ اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی، پھر ہونا تو یہ چاہیے، بُرا بھلا جو نتیجہ بھی آ گیا ہے، اس کے مطابق ارکان اسمبلی کو اجلاسوں میں جانے کی اجازت دی جائے، مگر پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے حامی ارکان اسمبلی کو جس طرح روکا گیا، اس نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزید گرم کر دیا۔ حالت یہ ہے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار اسلم اقبال کو بھی اجلاس میں نہیں آنے دیا گیا، حالانکہ وہ پشاور ہائیکورٹ سے اپنی عبوری ضمانت کرا کے لاہور آئے تھے۔ نظام کو کس طرح........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website