ہمارے یہاں ادب میں بھی بڑی سیاست ہے گروپ بنے ہوئے ہیں ایک ادیب دوسرے کو برداشت نہیں کرتا۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے یہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں۔ ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ ایک ادبی حلقہ میں شرکت کرنے والے ادیب بالعموم دوسرے طبقہ کے اجلاس میں نہیں جاتے،بلکہ کچھ ادیبوں سے اگر دوسرے حلقہ میں شرکت کرنے کا کہا جائے تو وہ بگڑ جاتے ہیں ہمارے یہاں یہ روایت ہے کہ ایک دوسرے کو مانتے نہیں۔ ادب کے علاوہ بھی ہم ایک دوسرے کو مانتے نہیں۔ گریڈ سترویں یا اٹھارویں میں پہنچ جائے یا اتھارٹی فگر (Authorty Figures) ہو گئے کسی کی بات نہیں سنتا بس ہر کوئی اپنی بات کرتا ہے۔ وہ صرف یہی چاہتا ہے کہ وہ جہاں جائے مرکز توجہ بن جائے۔

مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن سامنے آگئی

میرا محترم عطا الحق قاسمی پر تحریر کردہ شخصی خاکہ ماہنامہ ”قومی ڈائجسٹ“ میں چھپا تھا۔ اس وقت وہ پاکستان ٹیلی ویژن ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں چیئرمین تھے۔ میں نے ایک کاپی بذریعہ ڈاک انہیں اسلام آباد کے پتہ پر بھیج دی لیکن ڈائجسٹ انہیں نہیں ملا۔ انہی دِنوں میں عطا صاحب لاہور میں آ بسے میں نے کچھ عرصہ بعد ان کو دفتر میں فون کیا اور اس خاکے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کر دی۔ اتنے مشہور ادیب کو کسی نے ان کے شائع ہونے والے خاکہ کے متعلق نہیں بتایا کم معروف ادیبوں کا تو ذکر ہی کیا۔

بھارتی خاتون اپنے والد کی یاد میں لاہور کا تھانہ دیکھنے پہنچ گئیں

کوئی ادبی فنکشن شروع ہونے سے پہلے یا بعد میں ادیب شاعر ایک، ایک، دو دو کی ٹکڑیوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ میں نے 1974ء میں ایک کمرشل سٹیج ڈرامہ میں انسپکٹر کا رول کیا تھا۔ یہ ایجوکیشن ہال متصل عجائب گھر (مال روڈ) میں لگا اور بڑا کامیاب رہا۔ یہ ڈرامہ پندرہ دن چلتا رہا، لیکن ہال کی انتظامیہ سے کسی اختلاف کی وجہ سے پندرویں دن شو نہ چل سکا۔ اس دن سب فنکار ہال سے باہر ایک ایک، دو دو کی ٹکڑیوں میں کھڑے تھے۔ شاید اس کی وجہ فنکاروں کا جذبہ خود نمائی ہو، لیکن ادیب شاعر گروہ بندی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ایک گروہ کا ادیب دوسرے گروہ کے ادیب کو نہیں مانتا۔ اپنے گروہ کے ادیبوں، شاعروں کو ملتا جلتا ہے۔ انہیں کی ادبی تقریبات میں جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی تو کیا ادیب فنکار نہیں ہے؟

ملتان سلطان اور پشاور زلمی کا میچ دیکھتے ہوئے انضمام الحق کے قریبی دوست مجتبیٰ کھوکھر دل کا دورہ پڑنے انتقال کر گئے

ادبی حلقوں میں گروپ بندی کی وجہ سے کم اہلیت کے حامل ادیبوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ شامین منائی جاتی ہیں۔ خواہ وہ جینئن رائٹر نہ ہوں۔ وطن عزیز میں سینکڑوں، ہزاروں ادیب شاعر ہیں لیکن مزاح نگار اور مزاحیہ شاعر گنتی کے چند ایک ہیں، لیکن ان کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جاتا۔ وطن عزیز اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ آج کے سیاسی اور دگرگوں معاشی حالات کے پیش نظر قومی یک جہتی کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انٹیلی جنس اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لکھاری اور دانشور بھی اس کا حصہ ہیں۔ ادیبوں کو ادبی جرائد میں مضمون اور کالم شائع کروانا چاہئیں جو قومی اتحاد کے غماز ہوں۔ ادیب پی ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز کے لئے ایسے ڈرامے لکھیں جن کے کردار سب صوبوں کی نمائندگی کریں۔ صوبوں میں جا کر اپنے رفقاء کار سے ملنا جلنا چاہئے۔ اور اپنے حالات بشمول سیاسی حالات پر تبادلہ خیالات کرنا چاہئے (بطور شہری سیاست سے آگاہی ہمارا قومی فریضہ ہے) اس طرح غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور یکساں سوچ پیدا ہوتی ہے جو قومی یکجہتی کا ایک اہم حصہ ہے جس طرح ہمارے ادیبوں، شاعروں نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی علیحدہ مسجد بنا رکھی ہے یہ ہمارے سیاستدانوں نے بھی اسی طرح کیا ہے۔ سیاستدانوں اور لکھاریوں کی اولین ترجیح پاکستان ہونی چاہئے۔

پی سی بی کاآسٹریلوی انڈر 19 کرکٹ لیگ کو تسلیم کرنے سے انکار

QOSHE -          ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد - محمد ہمایوں
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد

10 0
24.02.2024

ہمارے یہاں ادب میں بھی بڑی سیاست ہے گروپ بنے ہوئے ہیں ایک ادیب دوسرے کو برداشت نہیں کرتا۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے یہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں۔ ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ ایک ادبی حلقہ میں شرکت کرنے والے ادیب بالعموم دوسرے طبقہ کے اجلاس میں نہیں جاتے،بلکہ کچھ ادیبوں سے اگر دوسرے حلقہ میں شرکت کرنے کا کہا جائے تو وہ بگڑ جاتے ہیں ہمارے یہاں یہ روایت ہے کہ ایک دوسرے کو مانتے نہیں۔ ادب کے علاوہ بھی ہم ایک دوسرے کو مانتے نہیں۔ گریڈ سترویں یا اٹھارویں میں پہنچ جائے یا اتھارٹی فگر (Authorty Figures) ہو گئے کسی کی بات نہیں سنتا بس ہر کوئی اپنی بات کرتا ہے۔ وہ صرف یہی چاہتا ہے کہ وہ جہاں جائے مرکز توجہ بن جائے۔

مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن سامنے آگئی

میرا محترم عطا الحق قاسمی پر تحریر کردہ شخصی خاکہ ماہنامہ ”قومی ڈائجسٹ“ میں چھپا تھا۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play