سرکس میں بندر، شیر، گھوڑا برابر ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بندر کی اہمیت و افادیت مالک کے نزدیک جنگل کے بادشاہ سے بڑھ کر ہو اگر وہ اسکو کم نرخوں میں بہتر تفریح اور نتائج فراہم کر دے۔ شیر کو لانا، کھلانا اور سدھانا زیادہ مشکل اور مہنگا کام ہے اور شیر کے نخرے بھی ہوتے ہیں۔ سرکس کے مالکان کا پیغام واضح ہے کہ اگر پٹوسی کھانے پر داد ملنی ہے تو شیر کو بھی اپنے منصب سے نیچے اتر کر بندر کے لیول پہ پرفارم کرنا ہو گا۔ سرکس کے شیر کو بندر کی طرح کام کرنا ہی پڑتا ہے۔ جنگل میں جس کی دھاڑ سے سب کانپتے تھے وہ سرکس میں ماسٹر کے ہنٹر پر بلا چوں چراں ہر حکم بجا لاتا ہے۔ سرکش کا تو سرکس میں کوئی کام ہی نہیں۔ اور یہ اسکا مقام ہی نہیں۔ سرکش کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔ اس سرکس میں ٹیلنٹ کی ایک الگ ہی تعریف ہے۔ چابک کی پھٹکار پر بندر کو پیٹھ پہ بٹھا کر دائروں میں چکر لگانے کو ٹیلنٹ کا معراج قرار دیا جائے تو پھر جنگ میں سموں سے چنگاریاں نکالتا ہوا گھوڑا تو ناکارہ ہوتا ہے۔ اب گھوڑا بیچارہ بھی کیا کرے۔ نہ تو یہاں صلاح الدین ایوبی ہے نہ ٹیپو سلطان جو اسکی دلیری اور وفاداری کا مول ڈالے۔ جس بہادری، بے جگری، ایثار اور وفا کو وہ اپنے کردار کی شان سمجھتے تھے انکی یہاں ضرورت ہی نہیں۔ لگام کو تھامنے والے جری جنگجو کی جگہ مداری نے لے لی ہے۔ صرف ٹھمکے لگاؤ، گھاس کھاؤ اور مزے کرو۔ یہاں اصل ہیرو بندر قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کیسے ڈٹ کر گھوڑے کی کمر پر بیٹھا اسے دوڑا رہا ہے۔ مالک بھی خوش، تماشائی بھی خوش اور بندر سب سے خوش۔ اور اس خوشی میں والہانہ پٹوسیوں سے جو دھما چوکڑی ڈالتا ہے شیر اور گھوڑا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ سرکس خوب سجتا ہے۔ جس سرکس کے ہم تماشائی ہیں اس کے اپنے ہی معیار ہیں۔ بابا نے تو کہا تھا اتحاد، تنظیم، یقینِ محکم۔ یہ سنہری الفاظ تھے جو دشوار راستے پہ کامیابی سے چلاتے تھے۔ اور راہِ راست پہ سنبھل کر، سمجھ کر اور مسلسل چل کر منزلِ مراد تک پہنچنے کی تلقین و تاکید کرتے تھے۔ مگر بھائی کون اپنے کو ہر پل اس جہدِ مسلسل کے کولہو میں ڈالے۔ سہل پسند بونوں نے آگ میں کودے بغیر کندن بننے کا تیر بہدف فارمولا نکال لیا۔ خدمت، خوشنودی اور خوشامد۔“خ”کی جادوئی تکون نے تو لوگوں کی کایا پلٹ دی اور معاشرے کے نئے معیار وضع کر دئیے۔ بابا نے تو اس ننگی جدت پسندی پہ نہ صرف چہرہ چھپا لیا بلکہ اس دنیا سے کنارا کر لیا۔ مگر دیگر سرخیلوں اور چیلوں نے اس تکونی ترکیب کو سینے سے لگا لیا اور اپنے ایمان و کردار کا حصہ بنا لیا اور دنیا میں فلاح پائی۔ وہ اسکی طاقت پرواز کے دل کی گہرائیوں سے معترف و معتقد یونہی نہیں ہیں۔ یہ منزلِ مراد پہ ایسے پہنچاتی ہے کہ صاحبِ ایمان و ایقان و اصول دھول چاٹتے نظر آتے ہیں۔

اتحادی حکومت اچھا نہیں کرے گی تو سب کو ڈس کریڈٹ ہوگا،رانا ثنااللہ

یہ ایسے حربے ہیں جو ذہانت، دیانت اور فراست کو چاروں شانے چت کر دیتے ہیں۔ خدمت میں عظمت کے پیروکار سرخرو ہوتے تھے، ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اب یہ سرکس ہمارے کریہہ کلچر کا اٹوٹ انگ بن چکا ہے۔ روایت بن گیا ہے۔ پرم پرا ہے۔ جو نسل در نسل زہر کی مانند نسوں میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔ ہونہار بروا بابا کے سنہرے اصولوں کو کوڑا دان میں پھینک کر ابو جی کی زود اثر تکونی ترکیب کو اپنا لیتے ہیں۔ اب یہ تربیت گھر سے ہی حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔اب یہ گمراہ نسلیں چار سو گھوم رہی ہیں۔ انکی فاسد فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ جب یہ بندر اور بونے بست و کشاد کے ارباب بنتے ہیں تو بستی کے بخئیے ادھیڑ دیتے ہیں۔ حصولِ جاہ و زر کو یوں مقصدِ حیات بناتے ہیں کہ ریاست کو بھی بیچنے میں تاخیر،تساہل یا تاسف اور تامل نہیں کرتے۔ سمجھ جانا چاہے کہ یہ نظامِ بوسیدہ یونہی بریدہ و دریدہ نہیں ہے۔ بندروں اور بونوں نے اسے نوچ ناچ کر اس سطح پر پہنچایا ہے۔ان کرداروں کے باطن عام لوگوں کی نادان نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ وہ عجلت و مصلحت کا شکار ہو کر ان کے ظاہر سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ دیکھنے میں معزز، لگتے ہیں۔ کچھ مذہبی رنگ اوڑھے نظر آتے ہیں۔ کچھ مدبر بھی لگتے ہیں۔ چند محب الوطن ہونے کا لبادہ پہنے پھرتے ہیں۔ مگر یہ سب روپ دکھاوے ہیں، ڈھونگ ہیں اور ملمعے ہیں۔ اندر سے یہ سب سرکس کے مجوزہ اصولوں پر صدقِ دل سے عمل کرتے ہوئے انفرادی ترقی کی راہوں پہ رواں رہتے ہیں۔ تاہم لوگ لاکھ دھوکا کھائیں مالکان کی بندر شناس نظریں انکو دور سے پہچان کر سینے سے لگا لیتی ہیں اور آپس میں بھی انکی کمال ہم آہنگی ہوتی ہے۔تو اہل افراد کیا کریں۔ انکے لئے تو یہاں کوئی جگہ نہیں۔ انکے لئے اس بوسیدہ نظام کے گھٹ ٹوپ اندھیرے میں ایک طاقتور امید کی کرن ہے جو انہیں ہمیشہ مایوسیوں میں گم ہونے سے بچاتی ہے۔ خدا کا ایک ازلی نظام ہے۔ کوشش اور صلاحیت کی جہدِ مسلسل رائیگاں نہیں جاتی۔ صورتِ خورشید جیئیں۔ اِدھر ڈوبیں ادھر نکل آئیں گے۔ مگر ریاست کی کامیابی اور ترقی کے لئے خدا کا نظام بھی اٹل ہے۔ یہ شیر اور بندر کی صلاحیت اور خاصیت کی تفریق کا ادراک اور اطلاق کر کے ہی چل سکتی ہے۔

رائلی روسو بہت اچھی کپتانی کر رہے ہیں: سرفراز احمد

QOSHE -       سرکس کے مالک کی بندر شناسی - ڈاکٹر نوید الٰہی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      سرکس کے مالک کی بندر شناسی

14 0
22.02.2024

سرکس میں بندر، شیر، گھوڑا برابر ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بندر کی اہمیت و افادیت مالک کے نزدیک جنگل کے بادشاہ سے بڑھ کر ہو اگر وہ اسکو کم نرخوں میں بہتر تفریح اور نتائج فراہم کر دے۔ شیر کو لانا، کھلانا اور سدھانا زیادہ مشکل اور مہنگا کام ہے اور شیر کے نخرے بھی ہوتے ہیں۔ سرکس کے مالکان کا پیغام واضح ہے کہ اگر پٹوسی کھانے پر داد ملنی ہے تو شیر کو بھی اپنے منصب سے نیچے اتر کر بندر کے لیول پہ پرفارم کرنا ہو گا۔ سرکس کے شیر کو بندر کی طرح کام کرنا ہی پڑتا ہے۔ جنگل میں جس کی دھاڑ سے سب کانپتے تھے وہ سرکس میں ماسٹر کے ہنٹر پر بلا چوں چراں ہر حکم بجا لاتا ہے۔ سرکش کا تو سرکس میں کوئی کام ہی نہیں۔ اور یہ اسکا مقام ہی نہیں۔ سرکش کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔ اس سرکس میں ٹیلنٹ کی ایک الگ ہی تعریف ہے۔ چابک کی پھٹکار پر بندر کو پیٹھ پہ بٹھا کر دائروں میں چکر لگانے کو ٹیلنٹ کا معراج قرار دیا جائے تو پھر جنگ میں سموں سے چنگاریاں نکالتا ہوا گھوڑا تو ناکارہ ہوتا ہے۔ اب گھوڑا بیچارہ بھی کیا کرے۔ نہ تو یہاں صلاح الدین ایوبی ہے نہ ٹیپو سلطان جو اسکی دلیری اور وفاداری کا مول ڈالے۔ جس بہادری، بے جگری، ایثار اور وفا کو وہ اپنے کردار کی شان سمجھتے تھے انکی یہاں ضرورت ہی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play