فرصت میں جب کبھی یہ سوچتا ہوں کہ وطنِ عزیز آج جن مسائل کا شکار ہے اس میں کس کس کا کردار ہو سکتا ہے، عوام اور حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جو طبقہ ذہن میں ابھرتا ہے وہ سرکاری ملازمین اور بیوروکریسی ہے، سب سے پہلے تو یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ معاملات کے سلسلے میں جو پالیسیاں وضع کی جاتی،اقدامات کیے جاتے ہیں، ان میں سب سے اہم کردار بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین کا ہی ہوتا ہے، بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین اپنے فرائض کی ادائیگی میں خود مختار اور ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہوں تو گڈ گورننس کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکا نہیں جا سکتا، یہ ملازمین اگر اپنے فرائض اپنے پیرامیٹرز کے اندر رہ کر ادا کرتے رہیں تو کوئی ان کے کردار پر انگلی اٹھائے گا نہ کوئی دبا سکے گا۔

اتحادی حکومت اچھا نہیں کرے گی تو سب کو ڈس کریڈٹ ہوگا،رانا ثنااللہ

اس حوالے سے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دو فرمودات ذہن میں آتے ہیں۔ مارچ 1948ء میں چٹاگانگ میں سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا: وہ دن گئے جب ہمارے ملک پر نوکر شاہی کا راج تھا، یہ عوام کی حکومت ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ، حاکمیت کے تکبر کا نشہ ٹوٹنا چاہیے۔ماضی سے بدنام روایات کو طاق میں رکھ دیجیے، اب آپ حاکم نہیں رہے، آپ کا حکمران طبقہ سے تعلق نہیں،اب آپ ملازمین ہیں، آپ انہیں محسوس کرائیں کہ آپ ان کے خدمت گار اور دوست ہیں، عزت، تکریم، انصاف، مساوی برتاؤ اور غیر جانبداری کا اعلیٰ معیار قائم کیجئے۔

رائلی روسو بہت اچھی کپتانی کر رہے ہیں: سرفراز احمد

اسی طرح 14 اپریل 1948ء کو پشاور میں آپ نے فرمایا تھا: حکومتیں بنتی ہیں،حکومتیں گرتی ہیں لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں،اس طرح آپ کے کاندھوں پر عظیم ذمہ داریاں آ جاتی ہیں، آپ کو اس کے لیے تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کے بجائے صحیح کام کیوں کر رہے ہیں؟ آپ عتاب میں آ جاتے ہیں، ایسے میں آپ کو قربانی دینا ہو گی، میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دئیے جائیں۔ آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے، آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے، آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاست دان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے، اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو کسی طرح کے دباؤ کا شکار نہیں ہونا بلکہ عوام و مملکت کے سچے خادم کی حیثیت سے اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے ادا کرنا چاہیے، مملکت کے لیے آپ کی خدمت وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے۔

نگران کابینہ نے 35 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی منظوری دے دی

یہ بات خاصے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قائداعظم کے ان فرمودات پر کچھ عرصہ پوری لگن کے ساتھ عمل ہوتا رہا، جب تک یہ ہوتا رہا تب تک ہمارے ملک کے حالات بھی ٹھیک رہے، معاملات بھی ٹھیک چلتے رہے۔ معیشت کمزور تھی لیکن اتنی بھی کمزور نہیں تھی جتنی اس وقت ہو چکی ہے، لوگ ایماندار تھے، سیاستدان ایماندار تھے، سرکاری افسر،بیو روکریسی ایماندار تھی تو ملک کی ترقی کا گراف اونچا نظر آتا تھا، مختلف اطراف میں غیر جانب داری واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی لیکن بے اطمینانی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔

معروف بھارتی ریڈیو پریزنٹرامین سیانی انتقال کرگئے

1985ء کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے اور پھر ایسی افرا تفری پیدا ہوئی کہ کچھ بھی سنبھالا نہ جا سکا، سیاست، معیشت، معاشرت، صنعت ، زراعت اور نہ زندگی کا کوئی اور شعبہ، آج ہم تاریخ کے جس دو راہے پر کھڑے ہیں یہ انہی تبدیلیوں کا نتیجہ اور شاخسانہ ہے، وہ سرکاری ملازمین جو کبھی ریاست پاکستان کے ملازم اور عوام کے خادم تھے،پہلے حکومتی اور پھر آہستہ آہستہ سیاسی جماعتوں کے ملازم بن گئے، عوام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرکاری ادارے عوام دوست نہیں عوام کْش بن چکے ہیں، آج ممکن ہی نہیں رہا کہ لوگ اپنا کوئی جائز کام بھی کسی سرکاری دفتر سے رشوت اور سفارش کے بغیر کروا سکیں، سڑکوں پر ٹریفک وارڈن جو موٹر سائیکل والوں کو گھیرے کھڑے ہوتے ہیں اس کا مقصد ٹریفک میں اصلاح یا بہتری لانا نہیں ہوتا، چالان کاٹنا یا رشوت وصول کرنا ہوتا ہے۔ اووربلنگ کیا ہے؟مہنگائی کی وجوہ کیا ہیں؟ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی سفارش کا چلن کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ سرکاری ادارے اور سرکاری ملازم عوام کو جواب دہ نہیں رہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا وہ پہلے حکومتوں کو جواب دہ ہوئے اور پھر سیاست دانوں کے وفادار ہو گئے اور جب حکومت کا بیک اپ مل گیا، جب کسی سیاست دان کی پشت پناہی حاصل ہو گئی تو پھر عوام سے ڈرنے اور انہیں جواب دہ ہونے کا کیا فائدہ کیا ضرورت؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورمیں بیوروکریسی میں سے اپنے مخالفین کو نکالا تھا مگر اس کے باوجود یہ غیر جانبدار رہے، مگر پچاسی کے بعد یہ جانبدار ہونا شروع ہوئے اور آج ہر کوئی جانتا ہے بیوروکریسی میں مسلم لیگ (ن) کے وفادار کون ہیں،پیپلز پارٹی یا پھر دوسری سیاسی جماعتوں کے حامی کون سے افسر ہیں۔ پنجاب میں زیادہ تر نون لیگ حکومت میں رہی اس لے یہاں اسی گروپ کا قبضہ ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کا ہولڈ ہے تو وہاں کے افسر اس پارٹی سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انتخابات سے پہلے ایک عبوری نگران سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کو سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں ہے، ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی پارٹی حکومت میں رہ کر الیکشن کرائے گی تو وہ اپنے حامی سرکاری افسروں کے ذریعے الیکشن کے نتائج پر بھی اثر انداز ہو گی، یہ الگ بات کہ نگران سیٹ اپ قائم کرنے کے باوجود ہر الیکشن کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور سننے کو ملتا ہے، اس وقت الیکشن کے بعد کی صورتحال میں جو معاملات چل رہے ہیں، ان پر ایک نظر ڈال لیں کافی کچھ واضح ہو جائے گا، ہمارے ملک میں جب بھی کوئی رکن اسمبلی یا سینیٹ بنتا ہے تو وہ اپنے مخصوص حامی افسروں کو ہی اپنے علاقے میں تعینات کرانے پہ کیوں مصر ہوتا ہے اور اکثر اپنے اس اصرار میں کامیاب ہو جاتا ہے؟

نگراں وفاقی کابینہ کا اجلاس آج طلب

پنجاب میں افسروں کی اکثریت حالیہ الیکشن سے پہلے ن لیگ کی کار خاص کا کردار ادا کرتی رہی، جو اب ڈھکی چھپی بات نہیں، مگر غیر جانبدار افسر بھی ابھی موجود ہیں لیکن خال خال، اکا دْکا، کہیں کہیں آٹے میں نمک کے برابر۔اب ہم نے اگر واقعی اصلاح احوال کرنی ہے، ملک کو کامیابی کی ڈگر پر ڈالنا ہے، حقیتاً ترقی سے ہمکنار کرنا ہے تو پھر اس روش کو ریورس گیئر لگانا ہو گا، افسروں،ان کے بڑوں،ان کی تنظیموں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا،یہ سوچنا ہو گا کہ سیاسی سرپرستی سے نکل کر ریاست کا ایسا حصہ کیسے بنا جائے جو قائداعظم کے فرمان کے مطابق اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ہو۔

QOSHE -   بیوروکریسی کا موجودہ کردار؟  - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  بیوروکریسی کا موجودہ کردار؟ 

17 0
22.02.2024

فرصت میں جب کبھی یہ سوچتا ہوں کہ وطنِ عزیز آج جن مسائل کا شکار ہے اس میں کس کس کا کردار ہو سکتا ہے، عوام اور حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جو طبقہ ذہن میں ابھرتا ہے وہ سرکاری ملازمین اور بیوروکریسی ہے، سب سے پہلے تو یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ معاملات کے سلسلے میں جو پالیسیاں وضع کی جاتی،اقدامات کیے جاتے ہیں، ان میں سب سے اہم کردار بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین کا ہی ہوتا ہے، بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین اپنے فرائض کی ادائیگی میں خود مختار اور ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہوں تو گڈ گورننس کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکا نہیں جا سکتا، یہ ملازمین اگر اپنے فرائض اپنے پیرامیٹرز کے اندر رہ کر ادا کرتے رہیں تو کوئی ان کے کردار پر انگلی اٹھائے گا نہ کوئی دبا سکے گا۔

اتحادی حکومت اچھا نہیں کرے گی تو سب کو ڈس کریڈٹ ہوگا،رانا ثنااللہ

اس حوالے سے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دو فرمودات ذہن میں آتے ہیں۔ مارچ 1948ء میں چٹاگانگ میں سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا: وہ دن گئے جب ہمارے ملک پر نوکر شاہی کا راج تھا، یہ عوام کی حکومت ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ، حاکمیت کے تکبر کا نشہ ٹوٹنا چاہیے۔ماضی سے بدنام روایات کو طاق میں رکھ دیجیے، اب آپ حاکم نہیں رہے، آپ کا حکمران طبقہ سے تعلق نہیں،اب آپ ملازمین ہیں، آپ انہیں محسوس کرائیں کہ آپ ان کے خدمت گار اور دوست ہیں، عزت، تکریم، انصاف، مساوی برتاؤ اور غیر جانبداری کا اعلیٰ معیار قائم کیجئے۔

رائلی روسو بہت اچھی کپتانی کر رہے ہیں: سرفراز احمد

اسی طرح 14 اپریل 1948ء کو پشاور میں آپ نے فرمایا تھا: حکومتیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play