بہت شور تھا الیکشن کا اور عوام میں بہت شکوک و شبہات پائے جاتے تھے کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ آئے دن حالات بھی کروٹ بدل رہے تھے مگر اُن مشکل حالات میں بھی الیکشن ہو ہی گئے۔ الیکشن کے بعد جو نتیجہ ملا اس کا ابھی تک کسی کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حالات جوں کے توں ہیں۔ کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ مل سکی اور اب سب پارٹیاں اپنے اپنے ارکان پورے کرنے کی دوڑ میں لگ چکی ہیں۔ جمہوریت آزادیئ رائے کا نام ہے مگر یہ تو اب عوام ہی جانتے ہیں کہ سب کی رائے کا احترام ہوا یا نہیں۔ 76 برسوں سے ہر جماعت جمہوریت کو کامیاب کرنے کے دعوے تو کرتی رہتی ہے مگر کوئی بھی اس مقصد میں مکمل کامیاب نہیں ہوسکا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی کوئی پارٹی بھی عوام کی فلاح کے لیے کام نہیں کرتی، جمہوریت کا نعرہ لگانے والی ہر سیاسی پارٹی کی اپنی فلاح تو نظر آتی ہے مگر جمہوری ملک میں رہنے والے عوام کی فلاح و بہبود ایک خواب بن چکی ہے۔

افغانستان میں مٹی کا تودہ گرنے کا افسوسناک واقعہ، 25 افراد جاں بحق

عوام کو جمہوریت کے ظالمانہ ٹیکسوں سے اُلجھے ہوئے نظام کو کب تک برداشت کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں عوامی حکومت کے نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں ہر پارٹی الیکشن کے وقت بڑے بڑے دعوے کرتی نظر آتی ہے مگر افسوس عوام اور ملک کی فکر تو کسی کو نہیں اگر فکر ہے تو بس خاندانی حکومتی نظام کی، باربار وہی خاندان باری باری کیوں اپنے ہی خاندانوں کے افراد کو نوازنا چاہتے ہیں جبکہ عوام ان کو حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتے، الیکشن کا رزلٹ بتاتا ہے کہ عوام نے بڑے بڑے سیاستدانوں کے برج اُلٹا دئیے ہیں یہ عوام کی نفرت کا اظہار ہے جسے اب بھی تجربہ کار سیاستدان نہ سمجھیں تو پھر کب اور کس طرح سمجھیں گے۔ عوام کے دل میں جن سیاستدانوں کے لیے محبت ہوتی ہے اُس کا علم بھی عوامی تاثر سے معلوم ہوجاتا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

عوام تو مہنگائی میں پس رہے ہیں حکومت عوام کی روزمرہ ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس لگا کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتی چلی جارہی ہے۔ عوام کیا چاہتے ہیں اور غریب اور سفیدپوش لوگوں کی زندگی کو کس طرح آسان بنایا جاسکتا ہے اُس پر بات نہیں ہورہی، کرسی کی دوڑ ہر پارٹی کا منشور لگ رہا ہے۔ حکومتیں اپنے لیے تو آسانیاں پیدا کرتی ہیں مگر عوام کو صرف سڑکوں، پلوں اور انڈرپاسز پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کو ہی دیکھیں تو وہ ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ اُن کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہوچکی ہے اور آپ سب جانتے ہیں کہ افغانیوں نے 22سال امریکہ کے ساتھ جنگ کی سارا ملک تباہ و برباد ہوا مگر پھر بھی وہ آئی ایم ایف کے مقروض نہیں ہیں۔ ہم قرض لیتے ہیں تو ہمارا ملک چلتا ہے ہم اس قدر مقروض ہوچکے ہیں کہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس قرض کو کیسے ختم کرنا ہے، قرض لے کر بھی ہم نہ تو اپنی انڈسٹری لگاتے ہیں اور نہ ہی زراعت کی طرف توجہ دیتے ہیں، اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے سب سیاسی پارٹیاں سرجوڑ کر بیٹھیں اپنے تمام اختلافات دل سے ختم کریں منافقت کو دفن کریں تو یہ ناممکن کام نہیں ہے، ان سب کاموں کے لیے مثبت سوچ کی ضرورت ہے اپنے ملک پاکستان اور صرف پاکستان کی فلاح پر سوچ بچار کی ضرورت ہے، ان سب چیزوں کے لیے کوئی نیا فارمولا ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں جس طرح ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی کی اُنہی راستوں پر چل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور بھی بے نتیجہ ختم

غریب عوام کو روزگار دیں، دنیا جانتی ہے کہ ہماری عوام بے حد جفاکش اور محنتی ہے اگر وہ باہر کی دنیا میں سخت و دشوار کام کرسکتے ہیں تو پاکستان میں بھی کرسکتے ہیں اُنہیں بس حکومتی توجہ اور مدد کی ضرورت ہے۔ وہ توجہ اور محبت جو عوام جلسوں میں اُن کے لیے نعرے لگالگا کر کرتی نظر آتی ہے۔

ہمارے عوام پر آئے دن نئے ٹیکس اور قیمتیں بڑھا کر بلوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہے کیا کسی بھی حکومت نے یہ سوچا ہے کہ عوام اتنا بوجھ اُٹھا سکیں گے، جس قدر گیس، بجلی، پیٹرول اور پانی کو مہنگا کردیا گیا ہے۔ خدارا عوام کا سوچیں لوگوں کو بنیادی سہولتیں دیں جمہوریت کا خون نہ کریں اپنے اردگرد ہمسایہ ملک سے ہی جمہوریت کو اچھے طریقے سے چلانا سیکھ لیں اپنے ذاتی اختلافات کو ختم کرکے ملک کے لیے اکٹھے ہوجائیں ورنہ ہمارے ملک کے حالات اس قدر خراب ہوجائیں گے کہ یہاں جینا اور مرنا دونوں ہی مشکل ہوجائیں گے اور خدانخواستہ عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ایک فلاحی مملکت کا جو انتہائی تصور ہے وہ ہے انسان خیرات دینے کے لیے نکلے مگر خیرات لینے والا کوئی مل نہ سکے۔ ہر شخص اپنے آپ کو مطمئن اور محفوظ محسوس کرے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اچھے اور مفید کاموں میں ایک مستحکم معاشی نظام کو پوری صلاحیتوں اور تنظیم کے ساتھ چلانے کے لیے محنتِ مشترکہ اور تعاونِ باہمی ضروری ہے۔ یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہماری تمام سیاسی پارٹیاں ملکی مفاد کی خاطر اکٹھی ہوں اور سب مل بیٹھ کر معیشت، معاشرت اور ملکی استحکام پر سوچیں اور ترقی کی نئی راہیں تلاش کریں۔ یقینا یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بناسکیں گے جہاں ہر انسان عزت و افتخار سے خوشحالی کے ساتھ رہ سکے گا انشاء اللہ۔

چکلالہ اسکیم تھری میں 23سالہ خواجہ سرا سے اجتماعی زیادتی کا مقدمہ درج

QOSHE -         زبان و دل کا ملاپ ہوگا تو بات بھی بااثر رہے گی  - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        زبان و دل کا ملاپ ہوگا تو بات بھی بااثر رہے گی 

12 0
20.02.2024

بہت شور تھا الیکشن کا اور عوام میں بہت شکوک و شبہات پائے جاتے تھے کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ آئے دن حالات بھی کروٹ بدل رہے تھے مگر اُن مشکل حالات میں بھی الیکشن ہو ہی گئے۔ الیکشن کے بعد جو نتیجہ ملا اس کا ابھی تک کسی کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حالات جوں کے توں ہیں۔ کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ مل سکی اور اب سب پارٹیاں اپنے اپنے ارکان پورے کرنے کی دوڑ میں لگ چکی ہیں۔ جمہوریت آزادیئ رائے کا نام ہے مگر یہ تو اب عوام ہی جانتے ہیں کہ سب کی رائے کا احترام ہوا یا نہیں۔ 76 برسوں سے ہر جماعت جمہوریت کو کامیاب کرنے کے دعوے تو کرتی رہتی ہے مگر کوئی بھی اس مقصد میں مکمل کامیاب نہیں ہوسکا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی کوئی پارٹی بھی عوام کی فلاح کے لیے کام نہیں کرتی، جمہوریت کا نعرہ لگانے والی ہر سیاسی پارٹی کی اپنی فلاح تو نظر آتی ہے مگر جمہوری ملک میں رہنے والے عوام کی فلاح و بہبود ایک خواب بن چکی ہے۔

افغانستان میں مٹی کا تودہ گرنے کا افسوسناک واقعہ، 25 افراد جاں بحق

عوام کو جمہوریت کے ظالمانہ ٹیکسوں سے اُلجھے ہوئے نظام کو کب تک برداشت کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں عوامی حکومت کے نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں ہر پارٹی الیکشن کے وقت بڑے بڑے دعوے کرتی نظر آتی ہے مگر افسوس عوام اور ملک کی فکر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play