چندماہ کی تاخیر سے سہی مگرپاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد بالآخر ہو گیا۔ دیر آید، درست آید…… تسلی بخش بات یہ ہوئی کہ عمومی فضاپورے ملک میں پر امن رہی۔انتخابات کے دوران امن وامان کا قیام ہمارے ملک میں کوئی آسان ہدف نہیں ہے۔نتائج کااعلان آپ دیکھ،سن اورپڑھ چکے ہیں،اس لئے میں انہیں دہرانا نہیں چاہتا۔ صرف اس کے چندپہلوؤں کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ عام انتخابات 2024ء کاسب سے نمایاں پہلو توکسی بھی ایک جماعت کووفاق میں سادہ اکثریت کا نہ ملنا ہے۔ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں اورمبصرین کو عوام کے اس فیصلے کا احترام کرنا چاہئے کہ جنہوں نے تمام جماعتوں کو یہ پیغام بھیجاہے کہ مل جل کرحکومت سازی کی عادت ڈالیں۔سیاسی مخالفت کوئی قبائلی دشمنی نہیں ہوتی۔

افغانستان میں مٹی کا تودہ گرنے کا افسوسناک واقعہ، 25 افراد جاں بحق

جہاں تک دھاندلی کے الزامات کاتعلق ہے تویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ ہارنے والا امیدوار اور جماعت نتائج ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔پاکستان میں سدا سے یہی ہوتا آیا ہے کہ انتخابات کے دوران ایک امیدوار جیت جاتا ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ دھاندلی ہوتی ہے۔ ہارتا کوئی بھی نہیں ہے۔کم از کم میری یادداشت میں تو کوئی ایک انتخاب بھی ایسا نہیں جس کے نتائج کوتسلیم کر لیا گیا ہو۔ انتخابی شکست کو کھلے دِل سے مان لیناکم از کم ہماری سیاسی روایت تونہیں بن سکی ہے۔گزشتہ مرتبہ سلیکٹڈ، سلیکٹڈ،اس سے پچھلے عام انتخابات کے نتائج پر آر او الیکشن کی آوازیں بلندہوئیں۔اس مرتبہ بھی ہم اپنی روایات کے مطابق انتخابی نتائج پر اپنے شکوک اورتحفظات کااظہار کررہے ہیں،تویہ کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں ہے،یہ پرانی خبرہے۔اچھی بات انتخابی نتائج کی یہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کوایک ایک صوبے میں اکثریت ملی ہے، جس کی بنیادپروہ وہاں حکومت قائم کرنے جارہی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو سندھ میں واضح مینڈیٹ ملاہے۔تحریک انصاف KPمیں غالب رہی جبکہ پنجاب کے لوگوں نے ایک مرتبہ پھرمسلم لیگ نواز پراپنے اعتماد کاظہار کیاہے۔کیاہی اچھا ہو اگر یہ جماعتیں آپس میں بہتر کارکردگی کا مقابلہ اور موازنہ کیا کریں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبائی حکومتوں کے پاس وسائل کی کوئی کمی باقی نہیں رہی ہے۔یہ شکوہ بھی کوئی صوبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس کووسائل کاجائز حصہ نہیں مل سکا۔ یہ وقت سیاسی مباحثے اورالزام تراشیوں سے نکل کراب عوام کی خدمت کرنے کا ہے۔ اورتمام سیاسی جماعتوں کامرکزنگاہ اب عوامی فلاح ہوناچاہیے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

بلوچستان میں ایک خوشگوارتبدیلی یہ آئی ہے کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ وفاقی سیاسی جماعتیں غالب رہی ہیں۔ہمیشہ سے یہی ہوتاآیاہے کہ بلوچستان میں علاقائی، صوبائی اور نسلی بنیادوں پر قائم جماعتوں کے علاوہ آزادارکان کی اکثریت ہوتی ہے۔اس مرتبہ مگرپہلے،دوسرے،تیسرے نمبر پر یہاں بھی قومی سیاسی جماعتوں کے نمائندے فاتح نظرآئے ہیں،جوکہ ایک اچھاشگون ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ وہاں قومی سطح پروفاق کی سیاست کرنے والی جماعتیں مضبوط ہونے سے پاکستان مضبوط ہوگا۔یہ سیاسی جماعتوں کافرض بنتاہے کہ زیادہ پسماندہ اور محروم علاقوں کے نمائندوں کو حکومت سازی کے عمل میں شامل کریں اوران کو حکومت کاحصہ بنائیں تاکہ ترقی سے محروم علاقے احساس بیگانگی کاشکار نہ ہوں۔جہاں تک بلوچستان میں عسکریت پسندوں کاتعلق ہے توان کے ساتھ ویسے ہی نمٹنا چاہیئے، جیسے پوری دنیامیں دہشت گردوں کے ساتھ نمٹا جاتا ہے۔ بندوق اٹھا کر اور جتھے بناکر اپنی بات منوانے کا طرز عمل دنیا بھر میں ناقابل قبول ہے جس کی حوصلہ افزائی کسی طورپر بھی ریاست کے مفادمیں نہیں ہے۔

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور بھی بے نتیجہ ختم

پاکستان کو بہت بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑااوراہم مسئلہ معیشت ہے۔ معاشی استحکام کے لئے دن رات ایک کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستانی قوم اوراس دھرتی میں صلاحیت و وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال اس قوم کودرست سمت کی ضرورت ہے۔اس سمت کی درستگی میں سب سے پہلی معاشی سمت کی درستگی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کے مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں کواکٹھاہوناچاہیئے اوروفاق میں ایک وسیع البنیادقومی حکومت قائم کرنی چاہیئے۔میثاق جمہوریت کے ثمرات جس طرح ہم پاکستان میں مسلسل عوامی حکومتوں اورانتخابات کے تسلسل کی صورت میں سمیٹ رہے ہیں،حالانکہ یہ دوسیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔اسی طرزپرہی معیشت پربھی ایک سمجھوتہ ہوناچاہیئے۔میثاق معیشت ایک خوبصورت خیال ہے،اسے نعرہ سے زیادہ ایک عملی صورت دینے کاوقت اب آگیاہے۔کوئی بھی حکومت بنے اورٹوٹے مگرمعاشی منصوبہ بندی ایسی طرزپرکرنے کاعہدکرلیں جوپاکستان کوترقی کی جانب لے جانے کی ضامن ہوسکے اورمستقل چلتی رہے۔

چکلالہ اسکیم تھری میں 23سالہ خواجہ سرا سے اجتماعی زیادتی کا مقدمہ درج

ہندوستان کامعاشی سفرہم سے زیادہ مختلف نہیں ہے مگرگزشتہ دودہائیوں سے ان کی معاشی پالیسی مستقل رہی ہے۔ڈاکٹرمنموہن سنگھ اورنریندرمودی کے سیاسی عقائد اورشخصیت میں زمین وآسمان جیسافرق ہے۔ایک سیکولرسوچ کاحامی ترقی پسندمعیشت دان جوکانگر س کی نمائندگی کرتارہاہے۔اوردس سال حکومت کی،تودوسرابالکل الٹ یعنی

ہندوتواکاپیروکاراورپرچارک جومساجد کی جگہ مندربنانے کے وعدوں پرووٹ لیتاہے۔ایک بات پرمگراس مودی نے منموہن سنگھ سے اتفاق کیااوروہ اس کی معاشی پالیسی تھی۔ہمارے معیشت دان اورمعاشی پالیسی بنانے والے حضرات یقیناجانتے ہوں گے کہ دودہائیاں پہلے جس ہندوستان کے محفوظ ذخائرزرمبادلہ دوارب ڈالر تھے۔آج اس کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر چھ سو ارب ڈالر سے تجاوزکرچکے ہیں۔ یہ ہمارے لئے لمحہئ فکریہ بھی ہے اورخوداحتسابی کاموقع بھی ہے۔ایک پہلو اس منظرنامے کایہ بھی ہے کہ ہمارے ایک طرف چین اوردوسری طرف بھارت اگر معاشی طورپرترقی کررہے ہیں تویقیناہماری ترقی میں بھی کوئی قدرتی رکاوٹ تو نہیں ہے۔ مربوط معاشی پالیسی اوراس پر مستقل مزاجی سے عمل کرکے ہم یقینادنیاکی بڑی معیشت اورترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں۔پاکستان کی سرزمین قدرتی وسائل سے مالامال ہے اورپاکستانی قوم انتہائی باصلاحیت ہے، اگرکسی چیز کی کمی ہے تووہ اچھی حکمت عملی جس پر عمل کرنے کے لئے قابل افرادپرمشتمل مستحکم حکومت۔نئی حکومت کے قیام کے موقع پر یہ امیدکی جاسکتی ہے کہ یہ ہمارے ملک وقوم کوسرخروکرے گی۔ ترقی کی آرزوفقط ہماری خواہش ہی نہیں بطور شہری ہماراحق ہے۔

فلموں کا دبنگ حقیقی زندگی میں تنگ

QOSHE -        آنے والے سنہرے ایام کے نام - عامر بن علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       آنے والے سنہرے ایام کے نام

9 0
20.02.2024

چندماہ کی تاخیر سے سہی مگرپاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد بالآخر ہو گیا۔ دیر آید، درست آید…… تسلی بخش بات یہ ہوئی کہ عمومی فضاپورے ملک میں پر امن رہی۔انتخابات کے دوران امن وامان کا قیام ہمارے ملک میں کوئی آسان ہدف نہیں ہے۔نتائج کااعلان آپ دیکھ،سن اورپڑھ چکے ہیں،اس لئے میں انہیں دہرانا نہیں چاہتا۔ صرف اس کے چندپہلوؤں کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ عام انتخابات 2024ء کاسب سے نمایاں پہلو توکسی بھی ایک جماعت کووفاق میں سادہ اکثریت کا نہ ملنا ہے۔ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں اورمبصرین کو عوام کے اس فیصلے کا احترام کرنا چاہئے کہ جنہوں نے تمام جماعتوں کو یہ پیغام بھیجاہے کہ مل جل کرحکومت سازی کی عادت ڈالیں۔سیاسی مخالفت کوئی قبائلی دشمنی نہیں ہوتی۔

افغانستان میں مٹی کا تودہ گرنے کا افسوسناک واقعہ، 25 افراد جاں بحق

جہاں تک دھاندلی کے الزامات کاتعلق ہے تویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ ہارنے والا امیدوار اور جماعت نتائج ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔پاکستان میں سدا سے یہی ہوتا آیا ہے کہ انتخابات کے دوران ایک امیدوار جیت جاتا ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ دھاندلی ہوتی ہے۔ ہارتا کوئی بھی نہیں ہے۔کم از کم میری یادداشت میں تو کوئی ایک انتخاب بھی ایسا نہیں جس کے نتائج کوتسلیم کر لیا گیا ہو۔ انتخابی شکست کو کھلے دِل سے مان لیناکم از کم ہماری سیاسی روایت تونہیں بن سکی ہے۔گزشتہ مرتبہ سلیکٹڈ، سلیکٹڈ،اس سے پچھلے عام انتخابات کے نتائج پر آر او الیکشن کی آوازیں بلندہوئیں۔اس مرتبہ بھی ہم اپنی روایات کے مطابق انتخابی نتائج پر اپنے شکوک اورتحفظات........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play