پاکستان میں جن چیزوں کو بہت ہی زیر بحث لایا جاتا ہے ان میں سے ایک سول سروس ہے۔ سروس کے اردو معنی خدمت کرنے کے ہیں اور خدمت کرنے والے کو خادم کہتے ہیں اور اگر کوئی عوام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہو تو اس کو پبلک سرونٹ کہتے ہیں۔ لفظوں کی بھی ایک حرمت ہوتی ہے، جن کا شعوری احساس ہونا مقاصد حصول تعلیم کا ایک جز ہے اور تمام اشیاء اجزا سے مل کر بنتی ہیں اور کسی شے میں سے کسی ایک جز کا نہ ہونا اس شے کی تکمیل کو نامکمل بنا دیتا ہے،لہٰذا اجزائے ترکیبی کی اہمیت کا انکار ممکن ہی نہیں۔ انکار اور اقرار کہانی کو آگے بڑھانے کا واحد ذریعہ ہیں، لہٰذا سول سروس کی کہانی یہ ہے کہ ویسے تو ہر ملک کی ایک سول سروس ہوتی ہے اور کسی بھی ملک کے حالات و واقعات اور اس ملک کی سول سوسائٹی کے مزاج کو مدنظر رکھ کر وہاں کی سول سروس کے خدوخال ترتیب دیئے جاتے ہیں اور تغیرات زمانہ کے پیش ِ نظر وقت کے ساتھ ساتھ مذکورہ خدوخال کی نوک پلک بھی سنواری جاتی ہے۔ پاکستان کی سول سروس کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ویسے اس سروس کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے شہاب نامہ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ادبی چاشنی پیدا کرنے کے لئے مرچ مصالحہ کی ضرورت ہوتی ہے اِس پہلو کو مدنظررکھنا قاری کی اپنی ذمہ داری ہے۔ویسے قاری کو مداری، سواری، سرکاری اور پٹواری کا بھی پورا پتہ ہونا چاہئے بصورت دیگر اس کے گمراہ ہونے کا شدید اندیشہ ہے اور اندیشہ ہائے افلاک نے انسان کو پہلے ہی زیر بار کیا ہوا ہے اور مزے کی بات ہے کہ بلا سرٹیفکیٹ پٹواری عوام کو سرخرو کردیتا ہے۔ ہماری سول سروس کی پوری کہانی پٹواری کے گرد گھومتی ہے، کیونکہ رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اپنے ملک کے شہریوں کو ریکور کرنے کیلئے 2سال لگے، جسٹس محسن اختر کیانی کے بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق کیس میں ریمارکس

انگریز سرکار نے پاک وہند کی عوام کی خدمت کے لئے ایک پوری جماعت تیار کی اور عوام کی ہیئت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جماعت کی تعلیم وتربیت کا زبردست نصاب مرتب کیا۔ اور پھر اس کلاس نے بہرحال اپنی استعداد اور استطاعت کے مطابق حق ادا کیا، لیکن حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا، کیونکہ قرضوں کی ادائیگی اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم کچھ حقائق چھپانے سے بھی نہیں چھپتے۔انگریز سرکار نے ریکارڈ ٹائم میں میگا پراجیکٹس مکمل کئے، نظم و نسق کا ایک زبردست نظام نہ صرف متعارف کروایا،بلکہ لاگو کر کے اس کے ثمرات تمام لوگوں تک پہنچانے کو یقینی بنایا۔ ہندوستان میں بغیر کسی شور شرابے اور ڈھول ڈھمکے کے سو سال سے زیادہ کامیابی سے حکومت کی۔ پھر آزادی کا سورج طلوع ہوا اورابتدائی مسائل جن میں زیرو بجٹ، مہاجرین کی آباد کاری، آئین سازی وحکومت سازی، پاکستان مخالف قوتوں کی بیخ کنی، نوزائیدہ ریاستوں کے معاملات، خارجہ پالیسی کے رخ کا تعین، ہندوستان کی کارستانیاں، قائداعظمؒ کی ناگہانی وفات وغیرہ وہ مسائل تھے جن سے نپٹنے کی بظاہر اہلیت کالونی دور کی تربیت یافتہ سول سروس میں ہی نظر آ رہی تھی،لہٰذا پاکستان کے ابتدائی مسائل کے حل کا ابتدائی سپیڈ ورک متذکرہ بالا کلاس نے کیا اور اچھا کیا یا برا اس بات کا فیصلہ تاریخ دانوں کو کرنا ہے۔ اللہ کرے وہ بلا رو رعایت انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں اور تاریخ پر تاریخ دینے کی بجائے مبنی برحقائق و انصاف اپنا فیصلہ صادر کر کے تاریخ کی کتابوں میں سرخرو ہو جائیں بصورت دیگر ان کے لئے بھی سرخی اور مساگ کا استعمال کرنا پڑے گا جو کہ اوور ڈوئنگ ہو گی۔

انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات اور کالعدم قرار دینے کی درخواست، سپریم کورٹ کا درخواست گزار کوپیش کرنے کا حکم

کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے پالیسی اور قانون سازی حکومت وقت کا کام ہوتا ہے اور پھر ان کا نفاذ اور مطلوبہ اہداف کے حصول کو یقینی بنانا مجموعی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سارے کام میں سول سروس اپنا اساسی کردار ادا کرتی ہے۔ جب بھی پاکستان میں ایوبی دور کے سبز انقلاب اور صنعتی ترقی کی بات کی جائے گی تو سول سروس کا تذکرہ کرنا ضروری ہوگا۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کو 1970ء تک بہت اچھی سول انتظامیہ ملی۔ اس بات کا اظہار سابق صدر پاکستان مرحوم ضیاء الحق نے محترم مجیب الرحمن شامی معروف دانشور اور صحافی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا اور برملا کہا کہ 1971ء کے بعد جب بھٹو صاحب کا دور آیا تو بھٹو صاحب امریکا والا سسٹم لائے۔ امریکہ میں یہ سسٹم ہے کہ بعض سرکاری ملازم مستقل ہوتے ہیں اور بعض ملازمین حکومت کے بدلنے کے ساتھ بدل جاتے ہیں انہوں نے کوشش کی کہ سول انتظامیہ پارٹی کی لائن پر چلے اس سے پاکستان میں سول انتظامیہ کاسارا ڈھانچہ ہی تلپٹ ہو گیا۔ انتظامیہ کی بجائے ایک سیاسی ڈھانچہ قائم کردیا گیا ہم آئے ہم نے احتساب کیا کسی کو نکالا کسی کو سزا دی، کسی کا عہدہ گھٹایا کسی کو بحال کیا۔یہ تھا وہ احتساب جس کا کھیل تماشہ پھر مسلسل چلتا رہا، بلکہ کئی تماشے مسلسل اور پیہم چلتے رہے۔ اوپر سے سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں اور ٹرانسفر پوسٹنگ نے سول سروس کو باندی بنا دیا۔اس صورتحال کے پیش نظر کئی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ کئی دفعہ سول سروس کی پرانی اصل صورت بحال کرنے کا اعادہ کیا گیا، لیکن ہر آنے والا دن پہلے سے بدتر ہوتا چلاگیا۔ سول سرونٹ بڑے ہی اعلی تعلیم یافتہ تھے انہوں نے بھی جدید تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلیا اور یس سر کرنے کے تو وہ پہلے ہی ماہر تھے اور اوبیڈینٹ سرونٹ کے معانی و مفہوم سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ پھر کیا تھا تبادلے پر تبادلہ، انکوائری پر انکوائری اور پھر کھوہ کھاتے، جونیئر اور سینئر کا فرق ختم کرکے مساوات کے قانون کا حقیقی معنوں میں اطلاق۔ اب ہوئے ناں محمود و ایاز اکٹھے۔ عوام اور بیورو کریسی کا فاصلہ ختم ہوگیا دفتروں کے دروازے کھل گئے۔ انتظامیہ اور عدلیہ علیحدہ علیحدہ۔ انصاف دہلیز پر۔ عوام کی آنکھیں کھل گئیں یا کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کھلی کچہری کا انعقاد ہی سب مسائل کا حل ہے اور تانگہ کچہری سے خالی آگیا ہے۔ گھوڑا ہنہنا رہا ہے۔ اس کو چارے کی ضرورت ہے اور چارے کی اس لئے قلت ہے کہ کھاد مارکیٹ سے غائب اور نہری نظام کالونی دور کی یاد دلاتا ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ زرعی ادویات جعلی ضرور ہیں لیکن مارکیٹ میں موجود تو ہیں شکر کرو۔ کسان کی زرعی اجناس کا منڈیوں میں تیا پانچہ اور ڈی سی ڈی پی اوز کا سورج طلوع ہونے سے پہلے سبز منڈی میں زبردست پاور شو۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بڑی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وکیل کرنے کی ضرورت اور وکیل کی فیس کے لئے پیسے اور پھر معاشی بحران۔ بہرحال ہم سب کے دروازے کھلے ہیں ویلکم

شادی کی تقریب میں فائرنگ سے ٹیپو ٹرکاں والے کا بیٹا بالاج قتل

حفیظ اللہ اسحاق سابق بیورو کریٹ ہیں اور میرے گاؤں کے وسنیک بھی ہیں،بلکہ ہمارے گاؤں کا نام ان کے اس بیٹے حارث کے نام پر رکھا گیا ہے جو ان کی تعیناتی بطور ڈپٹی کمشنر ملتان کے دوران قتل ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ میرا اور ان کا نام شاعری کے پیرائے میں ہم قافیہ کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ حفیظ اللہ اسحاق اور شفقت اللہ مشتاق۔ زمانہ طالب علمی سے ہی میں ان سے متاثر ہوں۔ انہوں نے تقریباً سارے اہم عہدے جن میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، صوبائی سیکرٹری، چیئرمین پی اینڈ ڈی، چیئرمین ایف بی آر اور وفاقی سیکرٹری قابل ذکر ہیں پر کام کیا ہے۔ان کی گفتگو اور ان کے بارے میں کی جانے والی گفتگو سے میں نے بڑا کچھ سیکھا ہے۔وہ کہتے ہیں ایک وقت تھا جب ہر افسر کے سامنے ایک لائن ہوتی تھی اور وہ تھی ریڈ لائن،جو اس کو کراس کرتا تھا اس کے خلاف سول سروس کے لوگ اور سول سوسائٹی دونوں بھرپور ردعمل دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک عام بیوروکریٹ بھی نو کہنا جانتا تھا اور یہ نو کا لفظ ملکی مفاد کی ککھ سے برآمد ہوتا تھا اور بڑے سے بڑے کے سامنے بھی سر چڑھ کر بولتا تھا۔ پھر 1974ء کی سول سروس ریفارمز آئیں اور پھر اس ”نو“ کی بولتی بند ہو گئی۔تاہم آج ایک بار پھر اس سروس کے خدوخال بنانے سنوارنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خادم عملی طور پر عوام کی خدمت کر کے مخدوم بننے کی بھرپور اور حتیٰ المقدور کوشش کرے۔

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے علاوہ تمام جماعتوں سے بات کر رہے ہیں، علی محمد خان

٭٭٭٭٭

QOSHE -        سول سروس ریفارمز۔۔۔توجہ کی ضرورت  - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       سول سروس ریفارمز۔۔۔توجہ کی ضرورت 

10 0
19.02.2024

پاکستان میں جن چیزوں کو بہت ہی زیر بحث لایا جاتا ہے ان میں سے ایک سول سروس ہے۔ سروس کے اردو معنی خدمت کرنے کے ہیں اور خدمت کرنے والے کو خادم کہتے ہیں اور اگر کوئی عوام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہو تو اس کو پبلک سرونٹ کہتے ہیں۔ لفظوں کی بھی ایک حرمت ہوتی ہے، جن کا شعوری احساس ہونا مقاصد حصول تعلیم کا ایک جز ہے اور تمام اشیاء اجزا سے مل کر بنتی ہیں اور کسی شے میں سے کسی ایک جز کا نہ ہونا اس شے کی تکمیل کو نامکمل بنا دیتا ہے،لہٰذا اجزائے ترکیبی کی اہمیت کا انکار ممکن ہی نہیں۔ انکار اور اقرار کہانی کو آگے بڑھانے کا واحد ذریعہ ہیں، لہٰذا سول سروس کی کہانی یہ ہے کہ ویسے تو ہر ملک کی ایک سول سروس ہوتی ہے اور کسی بھی ملک کے حالات و واقعات اور اس ملک کی سول سوسائٹی کے مزاج کو مدنظر رکھ کر وہاں کی سول سروس کے خدوخال ترتیب دیئے جاتے ہیں اور تغیرات زمانہ کے پیش ِ نظر وقت کے ساتھ ساتھ مذکورہ خدوخال کی نوک پلک بھی سنواری جاتی ہے۔ پاکستان کی سول سروس کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ویسے اس سروس کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے شہاب نامہ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ادبی چاشنی پیدا کرنے کے لئے مرچ مصالحہ کی ضرورت ہوتی ہے اِس پہلو کو مدنظررکھنا قاری کی اپنی ذمہ داری ہے۔ویسے قاری کو مداری، سواری، سرکاری اور پٹواری کا بھی پورا پتہ ہونا چاہئے بصورت دیگر اس کے گمراہ ہونے کا شدید اندیشہ ہے اور اندیشہ ہائے افلاک نے انسان کو پہلے ہی زیر بار کیا ہوا ہے اور مزے کی بات ہے کہ بلا سرٹیفکیٹ پٹواری عوام کو سرخرو کردیتا ہے۔ ہماری سول سروس کی پوری کہانی پٹواری کے گرد گھومتی ہے، کیونکہ رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اپنے ملک کے شہریوں کو ریکور کرنے کیلئے 2سال لگے، جسٹس محسن اختر کیانی کے بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق کیس میں ریمارکس

انگریز سرکار نے پاک وہند کی عوام کی خدمت کے لئے ایک پوری جماعت تیار کی اور عوام کی ہیئت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جماعت کی تعلیم وتربیت کا زبردست نصاب مرتب کیا۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play